82

سال 2017 اہل وادی کے زخموں کو ناسور بنا کر چلا

آپریشن آل آوٹ کی للکار کے بیچ مذاکرات کار کا نامزدگی،این آئی ائے نے مزاحمتی خیمے کا شکنجہ کسا

وتستا رپورٹ

سرینگر// 2017کا سال بھی اہل کشمیرکیلئے کوئی سوغات یا راحت لانے میں جہاں ناکام رہا وہی گزشتہ برسوں کی ہی طرز پر سال بھر گولیوں کی گنگناہٹ،ٹیر گیس و مرچی گیس کا دھواں،پیلٹ چھروں کی سے چھلنے ہونے والے جسم کی چیخیں،احتجاجی مظاہروں کی گونج ،مرکزی مزاکرتکار اور وزیر داخلہ و کانگریس پالیسی ساز گروپ کی آوا جاہی،35ائے پر سیاسی بحث، گیسو تراشوں کی دیدہ دلیری ،اسکولوں کے بدلے طلاب کے سڑکوں پر موجودگی، جی ایس ٹی کی کھنک،آپریشن آل آوٹ کی للکار،’’این آئی ائے‘‘ سے خوفزدگی،مزاحمتی لیڈروں کی خانہ و تھانہ نظر بندی،اور سیاسی گلیاروں میں ہلچل کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ سال بھر جہاں فوج اور فورسز آپریشنوں کے دوران211کے قریب عسکریت پسند جہاں جان بحق ہوئے،وہی100کے قریب فورسز پولیس اور فوجی اہلکار بھی لقمہ اجل بن گئے،جن میں25اہلکار قدرتی آفات کے دوران برف کے نیچے بھی دب گئے۔ وادی میں سال بھر شہری اپنے جگر پارئوں کے جنازوں کو کندھو پر اٹھانے میں مصروف رہیں۔ مجموعی طور پر قریب61عام شہری گولیوں کا نشانہ بن گئے جن میں ایک بچی سمیت9خواتین بھی شامل ہیں۔30شہری عسکریت پسندوں اور فوج و فورسز کے درمیان خونین جھڑپوں کے دران جائے جھڑپوں کے نزدیک فورسز کی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔ فوج کی طرف سے عسکریت پسندوں کے خلاف شروع کیا گیا آپریشن آل آوٹ کے دوران خونین معرکہ آرائیوں میں حزب المجاہدین کے آپریشنل کمانڈر محمود غزنوی اور لشکر طیبہ کے چیف کمانڈراں ابو دوجانہ و ابو اسماعیل کے علاوہ جیش محمد کے چیف کمانڈر خالد بھائی سمیت سبزار،بشیر لشکری،جنید متو،مظہ مولوی،عبدالقیوم نجار،جنید متو،نور ترالی اور دیگر اعلیٰ کمانڈر بھی جان بحق ہوئے۔سال بھر جہاں سرکاری دعوئے کے مطابق 215کے قریب عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا گیا جو گزشتہ6برسوں میں سے سے زیادہ ہیں،وہی 2017میں سب سے زیادہ مقامی نوجوانوں،جن کی تعداد117بتائی جاتی ہے،نے عسکری صفوں میں شمولیت کی۔روایت سے ہٹ کر 2017میں سابق حزب کمانڈر ذار موسیٰ نے مزاحمتی قیادت کو دھمکی بھی دی،جس کی وجہ سے مزاحمتی لیڈراں تذبذب کے شکار ہوگئے،تاہم متحدہ جہاد کونسل نے حریت لیڈراں کی حمائت کی۔ذاکر موسیٰ حزب سے علیحدہ ہوگئے اور غزوہ ہند کے نام سے الگ تنظیم کی داغ بیل ڈال دی۔
جنوری
سال کے پہلے ماہ میں چلہ کلان نے سخت زور آزمائی دکھائی اور سخت سردی نے قہر ڈھا یا جبکہ2جنوری کوگرمائی دارالحکومت جموں میں بجٹ سیشن کا آغاز ہوا جو حسب توقع شور شرابے کے نذر ہوا۔ جنوری میں فورسز اور عسکریت پسندوں کے درمیان6جھڑپیں ہوئیں،جس میں سرینگر،سوپور،بانڈی پورہ،حاجن,اسلام آباد(اننت ناگ) اور گاندربل میں البدر کمانڈر مظہ مولوی سمیت9عسکریت پسند جان بحق جبکہ3اہلکار زخمی ہوئے۔
فروری
یکم فروری کوقانون سازیہ کے دونوں ایوانوںمیں ’’ہنگامہ آرائی کے بعداسپیکر کویندر گپتا اورچیئر میں حاجی عنایت علی نے قانون ساز اسمبلی اور قانو ن ساز کونسل کے اجلاس کو7روز قبل ہی غیر معینہ عرصہ کیلئے ملتوی کردئیے۔ ریاستی سیاسست میں اس وقت ہلچل مچ گئی جب17فروری کو کابینہ میں توسیع کر کے سید الطاف بخاری کو کابینہ میں شامل کر کے وزارت تعلیم کا قلمدان سونپا گیا جبکہ دیگر وزراء کے قلمدانوں میں ردبدل گئی۔بشارت بخاری کو باغبانی کا محکمہ دینے پر وہ برہم ہوئے اور انہوں نے وزارت سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا جبکہ عمران انصاری نے بھی انہیں کوئی دیگر وزارت نہ دینے کے خلاف استعفیٰ پیش کیا۔ریاست کی سیاست میں 24فروری کو اس وقت اتھل پتھل مچ گئی جب سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ نوجوان جنگجوئوں کی صفوں میں وزیر اور ممبران اسمبلی کیلئے نہیں بلکہ وطن کی محبت اور آزادی کیلئے شامل ہو رہے ہیں۔ فروری میں بھی فوج اور جنگجوئوں کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا،جس ے دوران10عسکریت پسند جان بحق جبکہ میجر سمیت9اہلکار ہلاک اور کئی افسراں سمیت17 اہلکار زخمی ہوئے،جن میں سی آر پی ایف کمانڈٹ چیتن چیتا بھی شامل ہے۔اس دران2عام شہری بھی لقمہ اجل بن گئے۔
مــــارچ
مارچ کا ماہ اہل وادی کیلئے آہ و فغاں لیکر،جبکہ فورسز اور عسکریت پسندوں کے درمیان خونین جھڑپوں اور مابعد مظاہروں کے دوران 6شہری گولیوں کے شکار بن گئے۔ عسکری گراف میں اضافے کے بیچ ہیمرکزی انتخابی کمیشن نے14مارچ کو سرینگر پارلیمانی نشست کیلئے ضمنی انتخابات کیلئے نوٹیفیکیشن جاری کی۔مارچ میں بھی عسکری کاروائیوں کا سلسلہ جاری رہا جبکہ شہری ہلاکتوں میں اضافہ ہوا۔مجموعی طور پر11جنگجو جان بحق ہوئے اور ایک ٹاسک فورس اہلکار بھی لقمہ اجل بن گیا۔اس دوران ایک2میجروں سمیت7اہلکار زخمی ہوئے۔
اپریل
ماہ اپریل وادی میں خونین ثابت ہوا۔سیاسی اتھل پتھل کے بیچ سرینگر پارلیمانی نشست کیلئے9اپریل کو یوم الیکشن انسانی لہو میں تبدیل ہوا جس کے دوران بیروہ،پکھرپورہ،چاڈورہ،رٹھسونہ ,کائو سہ اور گاندربل8 نوجوان فورسز کی گولیوں کا نشانہ بنے۔بڈگام،سرینگر اورگاندربل میں200کے قریب مقامات پر سنگبازی،ٹیر گیس و پلٹ شلنگ اور گولیوں گنگناہٹ کی گونج سنائی دی جس میں200افراد زخمی ہوئے۔13اپریل کو38پولنگ مراکز پر سر نو انتخابی عمل میں لایا گیا جس کے دوران مجموعی طور پر2فیصد شرح ووٹنگ درج کی گئی۔15 اپریل کونیشنل کانفرنس کے امیدوار ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے پی ڈی پی کے امیدوار نذیر احمدخان کو قریب10ہزار ووٹوں سے شکست دی۔پلوامہ ڈگری کالج میں طلاب پر عتاب کے خلاف 17اپریل کووادی کے جنوب وشمال کے طلبہء میں ابال آگیا جبکہ احتجاجی مظاہروں کے دوران20 پولیس اہلکاروں سمیت100کے قریب طالبان علم زخمی ہوئیں ۔مجموعی طور پر اپریل میں4 جنگجو جان بحق ہوئے جبکہ ایک کپٹن سمیت4اہلکار ہلاک ہوئے اور28 اہلکار زخمی ہوئے۔اپریل میں15شہری بھی لقمہ اجل بن گئے۔16اپریل کو حاجن میں بدنام زمانہ اخوانی کمانڈر رشید بلا کو نامعلوم اسلحہ برداروں نے گولیاں مار کر ہلاک کیا جبکہ اس روز شوپیاں میں ایک وکیل امتیاز احمد کو بھی گولیاں گولیاں مار دی گئی۔
مئی
مئی کے ماہ میں اہل وادی کیلئے کوئی سوغات نہ لیکر آیا۔8 مئی کو سخت سیکورٹی کے بیچ سرینگر میں دربار سج گیا۔ مئی میں مجموعی طور پر اگر چہ امن ہی قائم رہا،تاہم2بنک گارڑوں سمیت7اہلکار لقمہ اجل بن گئے،اور میجر سمیت3زخمی ہوئے۔اس دوران حزب کمانڈر سبزار بٹ سمیت2جنگجواور5 شہری بھی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ عسکریت پسندوں نے حملوں کے دوران پولیس اہلکاروں سے ہتھیار بھی اڑا لیں۔
جـــــون
وادی میں جون میں بھی خون بہنے کا سلسلہ جاری رہا جس کے دوران14عساکر اور13سیکورٹی اہلکاروں سمیت7شہریوں کی جان گئی۔اس دوران28 فورسز اہلکار زخمی ہوئے۔جون میں ماہ مقدس کے دوران جنگجویانہ حملوں میں تیزی آئی جبکہ شب قدر کو ایک پولیس ڈی ایس پی کو جامع مسجد کے نزدیک زیر چوب مارا گیا۔ریاستی سرکار نکی طرف سے17جون کو جی ایس ٹی کے اطلاق پر بحث کیلئے اسمبلی کاخصوصی سیشن طلب کیا گیا،تاہم ایک دن جاری رہنے کے بعد غیر معینہ مدت کیلئے اس کو ملتوی کیا گیا۔30جون کو سرکار نے جی ایس ٹی کو لاگو کرنے کیلئے اسمبلی کا خصوصی اجلاس پھر سے طلب کیا۔
جـــــــولائی
جولائی میں جی ایس ٹی کے نفاذ اور این آئی ائے کی چھاپہ ماری و مزاحمتی لیڈروں کی گرفتاری پر سیاسی اتھل پتھل دیکھنے کو ملی۔4جولائی کو قانون سازیہ کا خصوصی اجلاس شروع ہوا جس میں ریاست میں جی ایس ٹی کے اطلاق پر بحث ہوئی،جبکہ5جولائی کو قانون سازیہ میں متنازعہ جی ایس ٹی قرار داد کو اپوزیشن نے ہنگامہ آرائی کے بیچ منظوری مل گئی ۔7جولائی کو قانون سازیہ کے دونوں ایوانوں میں اشیاء و خدمات ٹیکس کے قانون کو منظوری مل گئی اور اسی رات12بجے یہ قانون ریاست میں لاگو ہوا۔8 جولائی کو ودی کے شرق و غرب میں حزب کمانڈر برہان وانی کی پہلی برسی پر مکمل ہڑتال ہوئی جبکہ حکومت نے وادی میں غیر اعلانیہ کرفیو نافذ رکھا۔24 جولائی کو این آئی نے7مزاحمتی لیڈروں کو مبینہ حوالہ کیسوں میں حراست میں لیا۔29جولائی کو پی ڈٰ ی پی نے سرینگر میں پارٹی کا یوم تاسیس منایا جس کے دوران ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔جولائی میں مجموعی طور پر بشیر لشکری سمیت16جنگجو مختلف جھڑپوں کے دورن جان بحق ہوئے جبکہ ایک ٹاسک فورس اہلکار کے علاوہ4شہری بھی لقم اجل بن گئی۔اس دورن کپٹن سمیت فورسز کے5اہلکار زخمی ہوئے۔
اگـــــست
اگست خونین ثابت ہوا۔وادی کے جنوب و شمال میں معرکہ آرائیوں کے دوران19جنگجو اور4شہری جان بحق جبکہ16سیکورٹی اہلکار ہلاک ہوئے،۔اس دوران کپٹن سمیت21اہلکار زخمی ہوئے۔یکم اگست کو پلوامہ کے ہکری پورہ میں جنگجوئوں اور فوج کے درمیان خونین تصادم آرائی میں مطلوب ترین لشکر چیف ابو دوجانہ اپنے ساتھی عارف للہاری سمیت جان بحق ہوئے،جبکہ احتجاجی مظاہروں کے دوران ایک شہری جان بحق جبکہ10گولیاں لگنے کی وجہ سے زخمی ہوئی۔اس ماہ میں کئی فدائین حملے بھی ہوئے،جبکہ پولیس اہلکاروں سے ہتھیار چھیننے کے واقعات میں اضافہ ہوا۔س
ستمبر
ستمبر میں سیاسی طور پر وادی میں ہلچل دیکھنے کو ملی۔وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کے علاوہ سابق وزیر اعظم ہند ڈاکٹر منموہن سنگھ بھی وادی کے دورے پر پہنچ گئے،جبکہ این آئے کی چھاپہ ماری اور گیسو تراشوں کی کاروائی بھی جوبن پر رہیں۔6 ستمبر کو مشترکہ مزاحمتی قیادت نے اعلان کیا کہ9ستمبر کو وہ این آئی ائے میں رضاکرانہ طور پر گرفتاریاں پیش کرینگے۔9ستمبر کو مشن کشمیر کا پر مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ وارد کشمیر ہوئے ۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے13ستمبر کو’’شہریوں کہ ہلاکت،شدیدزخمی اورنابیناہونے کی رپورٹ‘‘جاری کرتے ہوئے پیلٹ گن کے نتیجے میں مرگ ومضروب کے واقعات کی غیرجاندارانہ انکوائری کامطالبہ کیا۔شہر سرینگر کے مضافاتی علاقہ آری باغ کنی پورہ نو گام میں 14ستمبر کو لشکر چف کمانڈرابواسماعیل قریبی ساتھی چھوٹاقاسم سمیت جاں بحق ہوئے ۔16ستمبر کو سابق وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کی قیادت میں کانگریس پالیسی ساز گروپ وارد کشمیر ہوا۔26ستمبر کواوڑی میں لائن آف کنٹرول پر حزب المجاہدین کا سرکردہ عسکری کمانڈر عبدالقیوم نجار مارا گیا۔ ستمبر میں مجموعی طور پر15جنگجو جان بحق ہوئے جبکہ ایک اہلکار بھی ہلاک ہوا۔اس دوران5شہری جہاں لقمہ اجل بن گئے وہی18اہلکار زخمی بھی ہوئے۔
اکـــتـوبــر
23اکتوبر کومرکزی سرکارنے جموں وکشمیرکیلئے آئی بی کے سابق چیف دنیشورشرما کو مذاکرات کار نامزد کیا۔29اکتوبر کو نیشنل کانفرنس نے داکٹر فاروق عبداللہ کو سر نو پارٹی کی کمان سونپی گئی۔30اکتوبر کو ’’آرٹیکل35Aتنازعہ 3ماہ کیلئے ٹل گیا،کیونکہ سپریم کورٹ آف انڈیاکے سہ رکنی بینچ نے’’مرکزی سرکارکی استدعاپرنازک وحساس کیس کی سماعت12ہفتوں کیلئے موخرکردی۔23اکتوبر کو کابینہ اجلاس میں ڈیلی ویجروں کو مستقل کرنے کی بھی منظوری دی گئی۔اکتوبر کو مشترکہ مزاحمتی لیڈرشپ نے مرکزی سرکارکی مذاکراتی پیشکش نامنظورکیا۔اکتوبر میں12عسکریت پسندوں کے علاوہ7اہلکار لقمہ اجل بن گئے،اور9اہلکار زخمی ہوئے,جبکہ4شہری بھی اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
نـــومــبر
2نومبر کو جنوبی ضلع اننت ناگ میں جنگجوئوں نے سی آر پی ایف کی ایک کانوائے پر فائرنگ کی جسکے نتیجے میں6اہلکار زخمی ہوئے جن میں سے صرف2اہلکاروں کو گولیاں لگیں۔
3نومبر کو سانبپورہ میں جمعرات کو سانبورہ پلوامہ میں معرکہ آرائی کے دوران جیش محمد سے وابستہ ایک غیر مقامی جنگجو جاں بحق ہو جبکہ معرکہ آرائی میں2 فوجی اہلکار بھی ہلاک ہوئے۔اس دوران بی جے پی کے یوتھ صدر گوہر حسین بٹ کو شوپیاں میں ہلاک کیا گیا۔
اس روز’’17سالہ پُراناغیرملکی کرنسی کیس‘‘ کھولتے ہوئے مرکزی تحقیقاتی ایجنسی (انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ)نے لبریشن فرنٹ چیئرمین محمدیاسین ملک اورایک کشمیری جوڑے کے نام نوٹس جاری کردی ۔
4نومبر کو راجپورہ پلوامہ پولیس اسٹیشن پر عساکروں نے حملہ کرکے اندھا دھند فائرنگ کی جسکے نتیجے میں2پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔
6نومبر کو’’مشن جموں وکشمیرکی شروعات ‘‘کرنے کیلئے مرکزی مذاکرات کاردانیشورشرماسوموارکے روزواردکشمیرہوئے جہاں پر انہوں نے آئندہ3دنوں تک کئی انجمنوں اور مین اسٹرئم جماعتوں کے ساتھ بات چیت کی۔
6نومبر کو ہی شوپیاں اگلر میں جھڑپ کے دوران3جنگجو اور ایک اہلکار ہلاک ہوا۔مرکزی مذاکراتکارنے’8نومبر کو’مزاحمتی لیڈرشپ کیساتھ ملاقات کی خواہش‘‘ظاہرکرتے ہوئے یہ واضح کیاکہ وہ اپنی طرف سے حریت لیڈروں کیساتھ ملاقات کی پوری کوشش کریں گے۔اور اس دوران انہوں نے اپنی ملاقات نمائندوں سے جاری رکھیں۔
9نومبر کو اسلام آباد میں ضلع ترقیاتی کمشنر کے دفتر کے باہر جنگجوئوں نے پولیس کی ایک پارٹی پر فائرنگ کی جسکے نتیجے میں ’ایس پی او ‘اہلکار رنبیر سنگھ زخمی ہوا ۔
13نومبر کو سلطان پورہ زچلڈارہ ہندوارہ میں کوفورسز کے ساتھ ایک مختصر جھڑپ کے دوران جاں بحق ہوئے2مقامی جنگجوئوں طیب مجید میر اور عاشق احمد بٹ جان بحق ہوئے۔
کنڈقاضی گنڈ میں خونین معرکہ آرائی کے دوران مقامی کمانڈراورایک فوجی اہلکارازجان جبکہ 2فوروسزاہلکارزخمی ہوگئے ۔
سرینگر میں 14اور15نومبر کی درمیانی شب کو700سالہ قدیم تاریخی خانقاہ معلی کو منگل اور بْدھ کی درمیانی شب لگنے والی آگ سے جزوی نقصان پہنچا ہے
17نومبر کو جنگجوئوں نے شہرسرینگرکے مضافاتی علاقہ زکورہ میں جمعہ کوبعددوپہرایک پولیس پارٹی پراندھادُھندفائرنگ کردی ،جسکے نتیجے میں ریاستی پولیس کاایک نوجوان سب انسپکٹر عمران احمد ٹاک اور عسکریت پسند مغیث ازجان ہواجبکہ ایک ایس پی ائوگولیاں لگنے سے شدیدزخمی ہوگیا۔
18نومبر کو حاجن میں فوج اور جنگجوئوں کے درمیان خونین تصادم آرائی میں6 جنگجو جان بحق جبکہ ایک کمانڈوز زخمی ہوا۔
20نومبر کو ترال میں عادل چوپان نامی ایک عسکریت پسند جھڑپ کے دوران جان بحق ہوا۔
21نومبر کو ہندوارہ کے ماگام علاقے میں3 غیر مقامی عسکریت پسند فوج کے ساتھ جھڑپ کے دوران جان بحق ہوئے،اسی روز کپوارہ کے زر ہامہ علاقے میں ایک اور جھڑپ کے دوران ایک فوجی اہلکار ہلاک جبکہ3شدید زخمی ہوئے۔
22نومبر کو محبوبہ مفتی نے پہلی بار سنگبازی کے مرتکب ہوئے نوجوانوں کو عام معافی دینے کا اعلان کیا۔
23اکتوبر کو کابینہ میٹنگ کے دوران عارضی ملازمین کو مستقل کرنے کے معاملے کو ہری جھنڈی دکھائی گئی۔
24نومبر کو مرکزی مذاکراتکار دنیشور شرما ریاست کے6 روزہ دروے پر پہنچے،اور جنوبی کشمیر میں مختلف گروپوں سے تبادلہ خیال کیا۔
دسمـــبر
10اور11دسمبر کی درمیانی رات کو ’دوران شب برستی بارش میں انکائونٹر‘‘کے دوران ’’یونسولنگیٹ میں3عدم شناخت شدہ جنگجواورایک جواں سالہ خاتون میسرہ ازجان‘‘ہوئی۔ اسی روز کیلر شوپیاں میں جے کے بینک کیش وین پر حملے کے دوران بینک سے وابستہ 2 پرائیویٹ محافظ از جان ہوئے۔
13 دسمبر کو منی لانڈرنگ کیس کی تحقیقات کوتوسیع دیتے ہوئے مرکزی انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے سیدعلی گیلانی کے نام نوٹس جاری کردی۔
14دسمبر کو ریاستی صحافیوں کیلئے صحافت نامی خصوصی مالیاتی اسکیم کااعلان کیا۔
15دسمبر کو ’’منی لانڈرنگ کیس کی ویڈیوکانفرنسنگ کے ذریعے سماعت‘‘ کے بعدپٹیالہ ہائوس کورٹ دہلی نے’’7مزاحمتی لیڈروں سمیت10کشمیری نظربندوںکی ریمانڈمیں 12جنوری2018تک کی توسیع‘‘ کردی ۔
16دسمبر کو ترال کے مضفاتی جنگل میں پُراسرارسُرنگ دھماکہ ‘‘ہوجانے کے نتیجے میں جیش محمدسے وابستہ ایک غیرملکی جنگجوکی موت واقعہ ہوگئی،اس روزرا ت دیرگئے فوج کے ہاتھوں ٹھنڈی پورہ پوارہ کے رہنے والے ایک نوجوان سوموڈرائیور آسف اقبال کو گولی بار دی گئی۔
18شام کو شوپیاں کے کیلر علاقے میں خونین معرکہ آرائی میں2جنگجوئوں کے جاں بحق ہوجانے کے بعد19دسمبر وارکو فورسز کی گولی سے24سالہ خاتون روبی عرف بیوٹی جان زخموں کی تاب نہ لاکرلقمہ اجل بن گئی ۔
22دسمبر کو ریاستی سرکار نے61ہزار ڈیلی ویجروں اور کیجول لبروں کو مستقل کرنے سے متعلق ایس آر ائو جاری کیا۔
25جنوری کو مرکزی نمائندہ دنیشور شرما ودی کے تیسرے مشن کشمیر دورے پر پہنچے اور شمالی کشمیر میں کئی گروپوں سے بات کی۔

30برسوں کے دوران
90ہزار ہلاکتیں؛بشری گروپ کا دعویٰ
سرینگر//ریاست میں گزشتہ30برسوں کے دوران90ہزار ہلاکتوں کے ہونے کادعویٰ کرتے ہوئے بشری حقوق پا سداری کی مقامی جماعت انٹرنیشنل فورم فار جسٹس نے عبوری رپورٹ منظر عام پر لائی،جس میں کہا گیا ہے کہ3دہایوں کے دوران سانحات میں ہوئیں ہلاکتیں اور2008,2010اور2016کی شہری ہلاکتیں اس میں شامل نہیں ہے۔ انٹرنیشنل فورم فار جسٹس نے دعویٰ کیا ہے کہ تنظیم کی تحقیقیاتی ٹیم نے جو اعداد شمار جمع کیں ہیں،اس کے مطابق1988سے لیکر24دسمبر 2017تک مجموعی طور پر88ہزار988ہلاکتیں جموں کشمیر میں رونما ہوئی،جن میں سب سے زیادہ ہلاکتیں نامعلوم شہریوں، سیاسی کارکنوں،سرکاری بندوق برداروں،غیر ملکی عدم شناخت بندوق برداروں،فوجی و فورسز اعانت کاروں اور دیگر ایسے لوگوں کی ہیں،جن کی شناخت نہ ہو سکیں۔فورم کے مطابق ان افراد کی تعداد44ہزار494ہیں۔انٹرنیشنل فورم فار جسٹس کے چیئرمین اور ھقوق انسانی کارکن محمد احسن اونتو کی طرف سے منظر عام پر لائی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس مدت میں47ہزار334متشددانہ واقعات رونما ہوئے،جن میں23ہزار343 وہ عسکریت پسند بھی شامل ہیں،جن کی شناخت ہوئی،جبکہ اعداد شمار کے مطابق6ہزار352فورسز،فوجی اور پولیس اہلکار بھی لقمہ اجل بن گئے۔ فورم نے دعویٰ کیا ہے کہ30برسوں کی مدت میں شناخت شدہ مہلوک عام شہریوں کی تعداد14ہزار795ہیں۔رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ وادی میں2008میں امرناتھ اراضی قضیہ کے علاوہ2010اور2016کی ایجی ٹیشن کے علاوہ جنوب و شمال میں رونما ہونے والے سانحات میں شامل مہلوکین کو بھی ان ہلاکتوں میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ عبوری رپورت میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ1988میں جہاں ایک فورسز اہلکار اور ایک جنگجو جان بحق ہوا وہی29 شہری بھی لقمہ اجل بن گئے،جبکہ2017یں ان کی تعداد بڑ گئی اور سال بھر214جنگجو اور78اہلکار ہلاک ہوئے،وہی57شہری بھی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ رپورٹ کے مطابق2001میں سے سے زیادہ2850عسکریت پسندوں کو جان بحق کیا گیا جبکہ اس سال590فورسز اور فوجی اہلکار بھی ہلاک ہوئے اور سال بھر1067عام شہری بھی لقمہ اجل بن گئے،جبکہ4ہزار507عدم شناخت لوگ جن میں سیاسی کارکن،سرکاری بندوق بردار اور عدم شناخت پاکستانی جنگجو بھی ہلاک ہوئے۔ عبوری رپورٹ میں2012کو گزشتہ30برسوں کے دوران سب سے کم شہری ہلاکتوں کا سال قرار دیا گیا ہے،جس میں صرف16 شہری ہلاکتیں ہوئی،جبکہ سال بھر17فورسز اہلکار اور84 جنگجو بھی لقمہ اجل بن گئے،جبکہ نامعلوم مہلوک افراد کی تعداد117تھی۔سال2000میں فورسز اور فوجی اہلکاروں کی سب سے زیادہ ہلاکتیں ہونے کا دعویٰ کیا گیا،جس کے دوران636اہلکار ہلاک ہوئے،جبکہ1890عسکریت پسندوں کے علاوہ842عام شہری بھی اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
امسال جامع مسجد کے ممبر و محراب21بار خاموش
سرینگر// ڈسمبر میں لگاتار3جمعہ کے روز شہر خاص کے حساس علاقوں میں بندشیں اور قدغنیں عائد کرنے کی وجہ سے تاریخی جامع مسجد سرینگر میں نماز جمعہ کی اذان پر بھی پہرے لگائے گئے،اور نماز جمعہ کی ادائیگی پر پابندی عائد کی گئی۔امسال21ویں مرتبہ جامع مسجد سرینگر میں نماز جمعہ کی ادائیگی ممکن نہ ہوسکیں ۔اس سے قبل گزشتہ جمعہ کو ور فورسز و پولیس اہلکاروں کی طرف سے ناکہ بندی اور بندشوں کی وجہ سے عید میلاد النبیﷺ کے اختتامی جمعہ کو بھی اس مسجد سے اذان کی صدائیں نہیں گونجی ۔جمعتہ الوداع کو بھی جامع مسجد سرینگر میں پہرے بٹھا دئیے گئے تھے،اور نماز جمعہ کی ادائیگی پر پابندی عائد کی گئی تھی۔10فروری کو مزاحمتی جماعتوں کی طرف سے اقوام متحدہ کے فوجی مبصر دفتر واقع سونہ وار اور لالچوک چلو کال کے موقعہ پر ایک مرتبہ اس مسجد کو سیل کیا گیا اور کسی بھی نمازی کو جمعہ کی نماز ادا کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ انتظامیہ اور پولیس نے10مارچ کو ایک بار پھر مزاحمتی جماعتوں کی طرف سے پلوامہ میں ہوئی شہری ہلاکتوں کے خلاف احتجاج کی کال کے موقعہ پر جامع مسجد سرینگر کو مقفل کیا،جو4ہفتوں تک جاری رہیں۔ جون میںشب قدر کو ایک پولیس افسر کو زیر چوب ہلاک کرنے کے بعد مسلسل6ہفتوں تک جامع مسجد سرینگر میں نماز جمعہ کی ادائیگی پر پابندی رہیں اور سخت ترین کرفیو کا نفاذ عمل میں لایا گیا،تاہم 4اگست کو نماز جمعہ کی دائیگی کی اجازت دی گئی۔8ستمبر کو مذہبی جماعتوں کی طرف سے روہنگیائی مسلمانوں پر انسانیت سوزمظالم روا رکھنے کے خلاف دی گئی ہڑتال کے پش نظر جامع مسجد سرینگر میں پھر نماز جمعہ پر بندشیں عاید کی گئی۔سخت ترین پابندیوں کے باعث نوہٹہ کی تاریخی جامع مسجد میں مسلسل3آیندہ ہفتوں تک نماز جمعہ ادا کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔مزاحمتی خیمے کی طرف سے6اکتوبر کو پراسرا ر گیسو تراشی کے خلاف دی گئی احتجاجی کال کے پیش نظر ایک بار پھر جامع مسجد کے دروزاوں کو نماز جمعہ کیلئے مقفل کیا گیا ۔13 اور 20اکتوبر کو خواتین کی چوٹیاں کاٹنے کے خلاف ہڑتال کے پیش نظر جامع مسجد کے دروازوں کو مقفل کیا گیا جبکہ،27اکتوبر کو مزاحمتی جماعتوں کی طرف سے افوج ہند کی کشمیر آمد پر دی گئی ہڑتال کے پیش نظربھی جامع مسجد مقفل رہیں،اور فورسز و وپولیس کے سخت ترین پہرے کی وجہ سے نماز جمعہ کی ادائیگی پر پابندی عائد کی گئی۔ امریکہ کی طرف سے فلسطینی ریاست پروشلم کو اسرائیل کا دارالخلافہ قرار دینے کے خلاف مشترکہ مزاحمتی قیادت کی طرف سے 8دسمبر کو نماز جمعہ کے بعد احتجاج کی کال کے پیش نظر جامع مسجد سرینگر مقفل رہیں۔ مزاحمتی جماعتوں کی طرف سے دی گئی احتجاجی کال کے پیش نظرنوہٹہ اور اس کے نواحی علاقوں میں15دسمبر کے روز فورسز کے سخت پہرے بٹھا دئے گئے تھے،جبکہ جامع مسجد سرینگر کے باب الدخول کو بھی مقفل کیا گیا تھا۔جگہ جگہ فورسز اور پولیس کا پہرہ بٹھا دیا گیا،اور کسی بھی شخص کو جامع مسجد سرینگر کی جانب گزرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔گزشتہ برس جون میں حزب کمانڈر کے جان بحق ہونے کے ڈیڑھ برس میں مجموعی طور پر40ہفتوں تک جامع مسجد سرینگر کو سیل کیا گیا،اور نماز جمعہ کی ادائیگی پر پہرے لگا دئیے گئے۔ گزشتہ برس19جبکہ2008میں مسلسل8ہفتوں تک کشمیر کے اس روحانی مرکز سے مسلمانوں کو دور رکھا گیا ۔
گیسو تراشوں کی دیدہ دلیری
سرینگر//وادی میں جہان سال2017کے دوران بیشتر واقعات معمول کے طرز کے رونما ہوئے،وہیں کچھ ایسے واقعات سامنے بھی آئے،جن کی وجہ سے عام لوگوں کے رونگٹھے کھڑے ہوئے۔2017میںگیسو تراشوں کی دیدہ دلیری بھی دیکھنے کو ملی دیکھنی کو ملی۔ستمبر کے وسط سے لیکر اکتوبر کے وسط تک اس کا سلسلہ جاری رہا،جس کے دوران خواتین میں لرزہ طاری اور خوف و ہراس کا ماحول پیدا ہوا۔90کی دہائی میں آپریشن گوسٹ کی طرز پر امسال ستمبر میں گیسو تراش نمودار ہوئے اور قریب 2 ماہ تک دہشت پھیلاتے ہوئے قریب157خواتین کی چوٹیاں کاٹ ڈالی۔سرکار اور ایجنسیاں اس پر الگ الگ خانوں میں بٹی رہیں۔پولیس نے جہاں ان واقعات کو اجتماعی دیوانگی کا نام دیکر کہا کہ یہ ذہنی بیماری ہے،وہی سیاست دان آخری روز تک اس میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہچانے کا دعویٰ کرتے رہیں۔اس تذبذب میں شہری آپس میں ہی الجھ پڑے اور مشکوک حالات میں گھوم رہے،کئی شہریوں کو مقامی لوگوں کے غیض و غضب کا سامنا کرنا پڑا،اور درجنوں کو لہو لہان کیا گیا۔عوام سیکورٹی ایجنسیوںپر الزامات عائد کرتی رہیں،تاہم پولیس کے ہاتھ کوئی سراغ نہیں لگا۔اکتوبر کے آخری ہفتہ میں مرکز کی طرف سے کشمیر کیلئے مذاکرتکار نامزد ہونے کے ساتھ ہی گیسو تراش بھی ایسے غائب ہوئے،جیسے گدھے کے سر سے سینگ غائب ہوئے۔
2017خواتین کیلئے ہلاکت خیز
سرینگر//وادی میں سال2017کے دوران صنف نازک کا لہو بھی خاک میں مل گیا،جبکہ سال بھر میں ایک کمسن بچی اور2شیر خور بچوں کی مائوں سمیت8خواتین بندوق کا نشانہ بن گئی۔ سال2016میں جس طرح کشمیری خواتین پیلٹ،بندوق اور تشدد کا نشانہ بنی تھی،اس کا سلسلہ امسال بھی جاری رہا۔ جنوبی کشمیر کے ضلع شوپیاں اور پلوامہ کے علاوہ اسلام آباد میں6 خواتین جبکہ سرحدی ضلع کپوارہ میں ایک کمسن بچی سمیت2خواتین بندوق کا نشانہ بنا کر لقمہ اجل بن گئی۔اس دوران درکنوں خواتین مختلف واقعات کے دوران زخمی بھی ہوئیں۔سال کے آخری ماہ میں2خواتین جبکہ فروری،مارچ،اپریل،جولائی،ستمبر اور اکتوبر میں،ایک ایک خاتون بندوق کا نشانہ بن گئی۔شوپیان کے مضافاتی گائوں میں22اور23فروری دوران شب میں فوج اور جنگجوئوں کے درمیان ایک خاتون تاجہ بیگم اہلیہ غلام محمد میر ساکن مولو چترگام گولی لگنے سے از جان ہوئی۔پولیس کے مطابق جھڑپ کے دوران تاجہ بیگم کو اپنے گھر میں آواہ گولی لگی،جس کی وجہ سے وہ جان بحق ہوئی،تاہم مقامی لوگوں نے پولیس کے بیان کو مسترد کیا۔ذرائع کے مطابق جگتیال ہائہامہ کپوارہ میں15مارچ کو جنگجوئوں اور فوج وفورسز کے درمیان ایک خونین معرکہ آرائی کے بیچ ایک 6سالہ معصوم بچی کنیزہ جان بحق اور ایک کمسن لڑکا فیصل و پولیس اہلکار سمیت2افراد زخمی ہوئے ۔پولیس کے مطابق کمسن بچی جائے جھڑپ سے100میٹر دور آوارہ گولی لگنے سے لقمہ اجل بن گئی۔پلوامہ کے ٹہاب علاقے میں ہڑتال کے دوران11اپریل کو مبینہ طور پر ایک خاتون شمیمہ اختر اہلیہ نذیر احمد ٹیر گیس شلنگ سے دم گھٹنے کی وجہ سے لقمہ اجل بن گئی۔اہل خانہ نے بتایا کہ مذکورہ خاتون گھر میں تھی،اور اس دوران ٹیر گیس شلنگ بھی ہو رہی تھی،اور اس نے سینے میں درد کی شکایت کی،اور بے ہوش ہوئی،تاہم اگر اس کو اسپتال پہنچانے کی کوشش کی گئی،تاہم ڈاکٹروں نے اس کو مردہ قرار دیا۔پولیس کے مطابق انہیں بھی خاتون کی موت کی اطلاع ملی،تاہم موت کے وجوہات کا پتہ نہیں چلا۔یکم جولائی کودیلگام اسلام آباد میں جنگجوئوں اور فوج وفورسز کے درمیان خونین معرکہ آرائی مخالف مظاہروں میں لشکر طیبہ کے معروف کمانڈر بشیر احمد وانی عرف بشیر لشکری سمیت2جنگجو اور ایک44سالہ خاتو ن طاہرہ بیگم سمیت2عام شہری جاں بحق ہوئے۔پولیس کے مطابق دیگر شہریوں کو اگرچہ باہر نکالا گیا،تاہم مذکورہ خاتون کو عسکریت پسندوں نے انسانی ڈھال بنادیا،تاہم پولیس کے اس بیان کو مقامی لوگوں نے مسترد کیا۔جنوبی قصبہ ترال میں 21ستمبر کو وزیرتعمیرات نعیم اخترکے قافلے کونشانہ بنانے کیلئے پھینکاگیا ،جسکے نتیجے میں ایک جواں سالہ یونیورسٹی طالبہ پنکی کور ساکن ترال سمیت 3 تین عام شہری ازجان ہوگئے۔سیرجاگیرترال میں22اکتوبر کو اسلحہ برداروں کی فائرنگ کے نتیجے میں 18سالہ مہما ن دوشیزہ یاسیمن ساکن کھنموہ،جبکہ روبینہ شدیدزخمی ہوگئی ۔10اور11دسمبر کی درمیانی رات کو ’دوران شب برستی بارش میں انکائونٹر‘‘کے دوران ’’یونسولنگیٹ میں3عدم شناخت شدہ جنگجواورایک جواں سالہ خاتون میسرہ ازجان‘‘ہوئی۔میسرہ جان کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ3ماہ کے شیر خور بچے کی والدہ تھی۔ سیکورٹی ایجنسیوںکے مطابق مذکورہ خاتون کراس فائرینگ کے دوران جان بحق ہوئی۔18شام کو شوپیاں کے کیلر علاقے میں خونین معرکہ آرائی میں2جنگجوئوں کے جاں بحق ہوجانے کے بعد19دسمبر وارکو فورسز کی گولی سے24سالہ خاتون روبی عرف بیوٹی جان زخموں کی تاب نہ لاکرلقمہ اجل بن گئی ۔پولیس کے مطابق خاتون کراس فائرنگ کے دوران لقمہ اجل بن گئی،تاہم مقامی لوگوں کے مطابق بیوٹی جان گھر میں اپنے شیر خور بچے کے ساتھ موجود تھی،جس کے دوران فورسز کی طرف سے اندھا دھند فائرنگ کے دوران اس کو گولی لگی،اور وہ لہو لہان ہوئی،جس کے بعد اس کی موت واقع ہوئی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں