81

’’غبار ‘‘میں عبدالرحمان آزاد کی جلوہ فشانیاں

رشید راشد
درسو پلوامہ9906925007
فطرت پرست شاعری رنگین خیالی کو ایک اہم خوبی تصور کرتی ہے۔ یہ رنگین خیالی رنگین بیانی سے متصل ہے۔ اس طرح سیہ خوب رنگ ظاہر ہوتا ہے کہ کشمیری شاعری میں جہاں روسل میر اور مہجور کے بعد اس رومانی شاعری کا کارواں روادواں ہے۔ وہاں  عبدالرحمان آزاد اس کا اس کاران میں اپنی انفرادیت مختص کئے ہوئے ہیں۔ اس نے حسن و عشق کی جامہ پیرائی میں زندگی کے کہر باکُن گوشوں کا نظارہ کرایا ہے۔ دراصل یہ نظارے اُن فکری معاملات کی شناسائی ہے جو شناسائی آزاد کا قاری اُس کے نثری پاروں میں دیکھتا ہےہمہ پہلو موضوعات کی قلم روی اُس کے مطالعات زندگی کی بصیرت کا تقاضا کرتی ہے۔ جب اُس کی شاعری کے رنگین پہلو کا مطالعہ کیا جائے تو وہاں پہ آزاد خود کو مہجور اور رسل میر کے بہت قریب دیکھتا ہے۔
جس طرح کشمیری شاعر میں آزاد کی ایک مخصوص شناخت ہے اُسی طرح نثر میں بھی اُسے ایک خاص مقام حاصل ہے ۔ صحافت کی تاریخ میں اُس کا جرت مندانہ قلم کبھی سوکھے کی لغزش کا شکار نہیں ہوا۔ اُس نے زندگی میں مشکلات و مصائب کہُن بار پوشاک کی زیبائی خوشی خوشی قبول کی مگر قلم کی رفتار و بے باکی کو تھکنے نہ دیا۔ کشمیر ی نثری ادب میں عبدالرحمان آزاد کی خطوط نگاری سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اردو ادب میں ’’غبارِ خاطر‘‘ پر مغز موضوع اور انداز تکلُم کی وجہد سے انتہائی منفرد ومقام رکھتی ہے۔ اُسے ابوالکلام آزاد کی ہمہ جہت شخصیت بن کر قاری کے سامنے آئے ہیں۔ شاید ۔ شاید وہی جرس غیب عبدالرحمان آزاد کے ضمیر میں بجتی ہوگی تو مجموعہ خطوط’’غبار‘‘ کے نام سے کشمیری ادب کے منظر نامے میں نمودار ہوا۔
کشمیری زبان میں خطوط پر مبنی یہ کتاب ادب میں ایک نئی صنف کو متعارف کرتی ہے۔ آزاد نے یہ صنف صرف متعارف ہی نہیں کیا بلکہ اپنےدور کے سماجی ، ثقافتی، مذہبی، سیاسی اور ادبی تاریخ کو رقم کیا ہے۔ عبدالرحمان آزاد کو یہ صنف خالص متعارف کرانے کا ارادہ ہی نہیں تھا بلکہ کشمیری میں ادیبوںکو اس صنف کی طرف رغبت دلانا بھی مقصود تھا تاکہ مختلف انواع کے موضوعات پر بات ہو۔ جس کا برملا اظہار آزاد نے خود کیا ہے۔’’
ہماری کشمیری زبان ابھی دفاتر، کاروباری اداروں اور دیگر شعبہ جات تک نہیں پہنچی ہے۔ جس وجہ سے اس کے اندر خط و کتابت کا نام و نشان دیکھنے میں آئے۔ کشمیری زبان و ادب سے وابستہ لوگ بھی کشمیری میں خطوط نویسی کی طرف شعوری یا غیر شعوری طور متوجہ نہ ہوئے ہیں‘‘۔
یہ حقیقت ہے کہ جس صورت حال کی عکاسی عبدالرحمان آزاد نے کی ہے وہی صورت حال آج بھی دکھائی دے رہی ہے۔ ہاں یہ بات ضروری ہے کہ محدود میگزینوں میں تاثرات کالم کے نام خطوط دکھائی دیتے ہیں اُن کی وسیع زندگی کے معاملات و موضوعات دیکھ کر صرف شعرو ادب کے موضوع کی یک رنگی کی لپائی لبادہ کئے ہوئے ہیں۔ اگر کہیں اخبارات میں کشمیری زبان میں خطوط دکھائی دیں اُن کا بھی ایک ہی رنگ ہے۔ یعنی ادبی ۔ اپنے دور میں بھی صحافی کے طور عبدالرحمان آزاد نے اسے محسوس کیا اور اس طرف قائل کرنے کی کوشش بھی کی۔
عبدالرحمان آزاد نے اپنے خطوط کے ذریعے مسائل و معاملات کی مضوعی وسعت کو منظر قرطاس پر لانے کا بہت بڑا کام کیا ہے۔ اپنی کتاب مختلف مسائل کو اُجاگر کیا ہے اور اُجاگر کرنے کے بعد اپنی بصیرت کے مطابق اُس پر سیر حاصل رائے بھی دی ہے۔ اپنی رائے پیش کرنے میں اُس علمی اور فکری استفادہ سے باز نہیں رہے جس سے اُس کی رائے یا نقطہ نظر کو تقویت ملتی ہو۔ انسان۔ انسان کا ذات الہی کے ساتھ رشتہ۔ الہامی کُتب میں ان رشتوں کا ذکر ، وراثت، لین دین کی پختگی، شرعی زندگی کی اہمیت اور ضرورت ، شعری اصناف میں غزل کی اہمیت و وکالت، مادری زبان کے ساتھ جذباتی اور احساساتی رشتہ ایسے موضوعات ہیں جو عبدالرھمان آزاد کے خطوط میں زیر بحث آئے ہیں۔ غبار کتاب کا ہر ایک خط موضوع کے اعتبار سے یہاں تک اسلوب کے اعتبار سے ایک دوسرے سے جُداگانہ ہیں اور ہر ایک خط کا اشتیاقانہ انداز بحث کے شروعات کی گُدگدی اُجاگر کرتا ہے۔ ابھی تک ان کے خطوط کے پس منظر میں آیا ہوا کوئی بھی بحث دیکھنے میں نہیں آیا ہے۔ نا ہی خطوط نویسی میں کشمیری ادب میں کوئی ایسا خط نظروں میں آتا ہے۔ ناہی تدریسی نظام میں نصاب سازوں نے خطوط کی کوئی تمثیل دی ہے۔ البتہ کشمیری گرائمر لکھنے والوں نے طور کشمیری میں خطوط نگاری کے اصولوں کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی مثالیں دیکر اس راستے پر دھول دھلائی کی ہے۔ جن میں ڈاکٹر آفاقعزیز ، رشید راشد، اور ڈاکٹر گلزار کے نام آتے ہیں لیکن وہ بھی اُن کے گرائمر اصولوں کو بیان کرنے کی مجبوری تھی۔ بہر حال جن موضوعات پر عبدالرحمان آزاد نے اپنے خطوط میں بات کی ہے۔ اُن کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ عبدالرحمان آزاد کی شخصیت ایک عریض بوس شخصیت تھی۔
آزاد کا دور کشمیر کے مخصوص سیاسی خلفشاری کا دور تھا۔سیاسی گتھم گتھی سے سماجی توازن تبدیل ہورہا تھا اور نیاسماج وجود میں آنے کا دور شروع ہورہا تھا۔ اس طرح کشمیری ادب بھی ترقی پسندی شعرو ادب سے نئے پڑھائو کی طرف گامزن تھا۔ اس تبدیلی میں آنےو الے سماجی ٹوٹ پھوٹ اقدار کے الٹ پلٹ کو عبدالرحمان آزاد انتہائی حسیت کے ساتھ محسوس کررہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آزاد کا حسی پارہ اس زمہریری اور حُری جہد میں متحرک تھا۔ سرچشمہ حیات اخبار بار بار اسی وجہ نزع کا شکار ہورہا تھا۔ حالانکہ معاشرتی مسائل اور سماجی اصلاحاجاگر کرنا صحافت کے اس دور میں اسی بے قراری کا نتیجہ تھی۔
اپنے معاشرے کے کینواس کو لیکر اصلاح کے بُرش میں اُس نے اسلامی شرعیت کے رنگ کے ساتھ ساتھ دیگر مذاہب کی ہم آہنگی کی ۔ شام لعل پردیسی ، عامر عثمانی اور سعد الدین کے نام خطوط میں بے دھڑک بُرش کاری کی ہے۔ جناب سعد الدین کے نام خط میں آزاد نے مسلمانوں کی غیر اسلامی طریقہ زندگی پر واویلا کیا جو اُس کی کرب کا غماز ہے۔ ’’ کیا آپ اس بات کو ہضم کر پائوگے یا نہیں کہ موجودہ مسلمانوں کے سوا دیگر اقوام اور اُمتوں کے پاس انسانی ذات کی خاطر کام کرنے کے عمل کا حجم زیادہ ہے۔ اور اس کے برعکس آج کے مسلمان کے پاس منطق اولیٰ اور خدمت خلق کیعمل کے باوجود فقدان اور ناپیدگی ہے‘‘۔
یہ ایک اور اہم بات ہے کہ آزاد جس ماحول میں پلے بڑے وہ دہی تنگ ذہنی اور جہالت کا ماحول تھا۔ جبکہ آزاد کا خواب پاک ، سچا، شفاف ماحول تھا۔ اس خواب کا ذکر اُس کے خطوط میں گشت کردوں دکھائی دے رہا ہے۔ جہاں کہیں آزاد اظہار کو شدت سے بیان کرنا چاہتا یا اپنے نقطہ نظر کی طرف مایل کرانا چاہتا تو شعری اسلوب سے بھی گریز نہیں کرتا تھا۔
اسی طرح اپنی والدہ کو بعد از مرگ لکھے خط میں تابعداری اور وفاداری کے جذبات کی نمایندگی کسی بھی حالت یا ماحول یا رکاوٹ سے قطع نظر رہ کر کرنے کا اظہار کرتا ہے۔ حالانکہ یہ ایک مضبوط ترین اعصابی رشتہ ہے۔ جس میں اخلاقی اقدار کا لحاظ رکھ کرجوڑا جاتا ہے۔
اخلاقی اقدار کی پاسداری استوار کرنے سے ہی سماجی برائیوں کو رفع کیا جاسکتا ہے۔ اس خط میں اولاد کے حقوق کو عبدالرحمان آزاد نے اخلاقی اقدار کے ساتھ جوڑ کر آسان بیانی کے ساتھ پیش کیا ہے۔
’’ میری با ادب اور باہمت والدہ! آپ مجھے اکثر قرآن مجید کے سورہ زبانی یاد کرواتی تھی۔ رسول کریمﷺ کی سیرت طیبہ سے اور حضرت پیر رضی اللہ عنہ کی حالات زندگی سے کوئی نہ کوئی واقعہ سناتی تھی۔ علاوہ ازیں حضرت اویس قرنیؓ کے ورد للہ واکۃ اور شیخہ شرک بڑے اہتمام کے ساتھ سناتی اور بار بار آپ کی زبان سے جلوت و خلوت میں نعت شریف جاری و ساری تھے۔
ہزار شکر وثناداور چھُ میون یاور نبیؐ حجازی
اس غیر شعوری تربیت سے میرے ذہن کے کینواس پہ اسلام ، رسول کریم ﷺ، حضرت اولیا کرام کی محبت کا نقش متصور ہوا تھا۔ جس کا بیان میرے الفاظِ بیان سے بالا تر ہے‘‘۔
آگے چل کر عبدلرحمان آزاد چند ایک خطوط میں فلسفہ حیات کے نازک مسائل کو چھیڑتا ہے۔ یہان پر عبدالرحمان آزاد قاری کو ایک وسیع فکری کینواس پر بکھراو کی صورت پھیلا دیتا ہے۔ اور جس انتشاری عالم میں مذہبی افکار کا ظاہری ٹکرائو قابل ذکر ہے ان مسائل پر آزاد بات کرنے سے آزاد کی بصیرت و آگہی کا اندازِ گماں بھی آگے جاتاہے۔ مختلف مذاہب کے بنیادی عقائد کی ہم آہنگی کا ذکر اُس نے خوش اسلوبی کے ساتھ کیا ہے۔
خطوط جن جن اصحاب و اشخاص کے نام آزاد نے قلمبند کئے اُن میںمخاطب ذہنی استواریت کو مد نظر رکھ کر آزاد کے اسلوب میں لچک، الفاظ کی سادگی و روانی، شدت بیان و لُبنی بیان برتا گیا ہے۔ یہی عبدالرحمان آزاد کے خطوط نگاری کی کرامت ہے۔ حالانکہ شروع سے آخر تک اسلوب کی چاشنی و تیکھاوٹ گُھلی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ اس اسلوب کے تعریف میں حامدی کاشمیری رقم طراز ہیں۔
یہ (عبدالرحمان آزاد) کشمیری نثر میں ایک رومانی، شیرین طرح دار اور خوب صورت اسلوب متعارف کرتے ہیں۔ اور کشمیری نثر کو نئے باب کا اضافہ کرتے ہیں۔
نوٹ:۔۔۔۔رشید راشد کے مضمون میں عبدالرحمان آزاد کے چند اقتباسات آزاد کی غبار کے چند خطوط سے لئے گئے ہیں۔ اور اُن کا ترجمہ راشد صاحب نے کیاہے اور آخر پر حامدی کشمیری کی چند ستور کو بھی انہوں نے کشمیری لیکر اردو میں ترجمہ کیا ہے۔
����
������

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں