45

آیندہ مالی بجٹ میں چھوٹے تاجروں کے مفاد دات کی ضمانت ہو

مرکز آسان قرضوں کی دستیابی، ادائیگی کی مدت میں اضافہ اور واجبات کی ادائیگی ملحوظ نظر رکھی //کشمیر اکنامک الاینس
سرینگر24جنوری /کشمیر اکنامک الاینس نے پارلیمنٹ میں آیندہ ماہ شروع ہونے والے بجٹ سیشن کے دوران جموں کشمیر میں چھوٹے دکانداروں، کاروباریوں، ٹرانسپوٹروں، تعمیرات کاروں اور صنعت کاروں کا خیال رکھنے کی وکالت کرتے ہوے کہا کہ معیشت کو مستحکم کرنے میں چھوٹے تاجروں کی ہی محنت اور پسینہ کا فرما ہوتا ہے۔اکنامک الاینس کے شریک چیئرمین فاروق احمد ڈار نے سرینگر میں نامہ نگاروں سیبات کرتے ہوے کہا حالیہ”سی اے جی” رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوے کہا کہ کتوڑوں روپے کی رقم زے وہ تاجر اور صنعت کار مستفید ہوے جنہیں اس کا حق نہیں تھا، اور انہوں نے چھوٹے تاجروں، کاتوباریو اور تعمیراتی معماروں کے حقوق پر شب خون مارا۔انہوں نے کہا کہ اس تقم سے ہزاروں کی تعداد میں چھوٹے دکاندار اور تاجر مستفید ہوسکتے تھے، تاہم جس کی لاٹھی اس کی بھینس اور اثر رسوخ نے ایک بار ہھر چھوٹے تاجروں کو مایوس کیا۔ڈار نے کہا کہ 2014 کے سیلاب کے بعد مسلسل یہ چھوٹے کاروباری ہستء جا رہے ہیں اور اسکیموں پر بڑے مگر مچھوں نے ہاتھ صاف کیا۔انہوں نے کہا کہ تاہم اب انکا یوم حساب آگیا ہے، اور ان سے یہ رقومات واپس لیکر حق داروں تک پہنچایا جانا چاہے۔کشمیر اکنامک الاینس کے شریک۔چیرمین نے امید ظاہر کی کہ آیندہ ماہ جب پارلیمنٹ میں مسلسل تیسری مرتبہ آیندہ مالی سال کا میزانیہ پہش کیا جاے گا، اس میں چھوٹے دکانداروں، تاجروں، ٹرانسپورٹروں اور ٹھیکیداروں کو فراموش نہیں کیا جاے گا۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ، ھوٹے کاروباریوں کے بنکوں سے لی گئے قرضوں کے سود میں رعایت، ادایگی کی مدت میں توسیع، آسان قرضوں کی دستیابی، فروغ کاروبار کیلئے معاونت اور ہاتھ تھامنے سے متعلق اسکیموں کو نافذ کرنے سے ان، ھوٹے تاجروں کے ٹھنڈے چولہوں کو ہھر اے جلانے کیلئے راہ ہموار ہوسکتی ہے۔فاروق احمد ڈار نے ٹھکیداروں کی واجب الادا رقومات کی واگزاری کی وکالات کرتے ہوے کہا کہ اس عمل سے تعمیراتی و ترقیاتی کاموں کی سست رفتار میں جہاں اضافہ ہوگا وہی سالہا سال سے تعمیراتی ٹھیکیداروں کی واجب الادا رقم کی واگزاری سے ان کے مسائل کا ازالہ بھی ہوگا۔ڈار نے کہا کہ وادی میں بیشتر اوقات موسمی ماراور دگر گو حالات کے نتیجے میں تعمیراتی کاموں کیلئے مشخص کی گئی رقم لیپس ہوتی ہے، تاہم تعمیر کاروں کا دیرینہ مطالبہ ہے کہ لداخ کی طرز ہر علیحدہ چسٹ بمایا جاے جس میں یہ رقم جمع رہیں گی اور لیپس میں ہوگی۔انہوں نے کہا ہمارے مستقبل کے بجٹ میں مینوفیکچرنگ کی مقامیت کی راہ ہموار ہونی چاہیے۔ فاروق احمد ڈار نے کہا کہ ہم 60 ہزار کروڑ روپیسالانہ مالیت کا سامان درآمد کرتے ہیں۔۔ اس کا سیدھا مطلب ہے کہ اس قابل استعمال کھپت کا زیادہ تر فائدہ جموں و کشمیر سے باہر جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں مقامیت پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے تاکہ استعمال کی رقم نہ صرف مقامی سرمایہ کاری کی طرف جائے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں مدد ملے بلکہ سپلائی سائیڈ افراط زر کو پائیدار طریقے سے قابو کرنے میں بھی مدد ملے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں