آبپاشی سہولیات کی عدم دستیابی سے زمیندار پریشانِ حال/ حسنین مسعودی 52

رکن پارلیمان حسنین مسعودی کا مرکزی وزیر خزانہ کو تحریری خط

تمام عارضی ملازمین کی مستقلی، تنخواہی تفاوت کے خاتمے اور بقایا اُجرتوں کی فوری ادائیگی کی اپیل
سرینگر/24جنوری/ نیشنل کانفرنس کے ممبر پارلیمنٹ جسٹس (ر) حسنین مسعودی نے مرکزی وزیر خزانہ سے مطالبہ کیا ہے کہ جموں و کشمیر میں یومیہ اجرت پر کام کرنے والے ڈیلی ویجروں اور کنٹریکچول ملازمین کی مستقلی اور ان کی تنخواہوں میں تفاوت دور کی جائے۔سی این آئی کے مطابق مرکزی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن کو لکھے ایک خط میں مسعودی نے جموں و کشمیر کے مختلف سرکاری محکموں، بلدیاتی اداروں، پبلک سیکٹر کے اداروں اور دیگر محکموں میں خدمات انجام دینے والے ڈیلی ویجروں، عارضی، کیجول، کنٹریکٹ، نیڈبیسڈ، سیزنل اور دیگر ورکروں کو درپیش سنگین مسائل اور مشکلات اُجاگر کئے۔ اس معاملے پر اپنی اپیلوں کے بعد متعلقہ وزارت کی کارروائی پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے مسعودی نے کہایہ بات قابل اطمینان ہے کہ یکم دسمبر 2021کو وقفہ صرف کے دوران میرے ذریعہ اٹھائے گئے مسئلے پر وزارتِ داخلہ نے ضروری معلومات کے حصول کے لئے جموں وکشمیر انتظامیہ سے رجوع کیاہے۔ اُمید ہے کہ متعلقہ تفصیلات اب تک جمع کر دی جائیں گئیں ہونگی۔ انہوں نے کہا کہ 61000 سے زیادہ عارضی ملازمین کی حالتِ زار انتہائی تشویشناک ہے۔ انہوں نے تحریر کیا کہ یہ عارضی ملازمین تقریباً تمام سرکاری محکموں میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، جن میں پی ڈی ڈی، جنگلات، وائلڈ لائف پبلک ہیلتھ انجینئرنگ، آبپاشی اور فلڈ کنٹرول، سیاحت، امور صارفین اور عوامی تقسیم کاری، صحت اور خاندانی بہبود، تعلیم، زراعت، پشوپالن اور دیگر محکمے بھی شامل ہیں۔ مسعودی نے مزید کہا کہ کنٹریکٹ کی بنیاد پر ملازمین کو ملازمت دینے کا رجحان جموں و کشمیر کے لئے منفرد نہیں تھا۔وقت وقت پر اضافی افرادی قوت کیلئے ورکروں کو کام پر لگایا گیا اور بیشتر اوقات آسامیوں کی تخلیق، مالیاتی اثرات وغیرہ پر کام کرنے والے طریقہ کار سے گزرنے کے لئے بہت کم وقت تھا، کیونکہ حالات و واقعات کے نظر اُس وقت حالات کا تقاضہ عارضی، موسمی، کنٹریکٹ، یومیہ اجرت اور بیسڈ افرادی قوت کی خدمات حاصل کی جائیں۔ جس سے عارضی ، کنٹریکچول اور کیجول ملازمین کی بڑی تعداد کی وضاحت ہوتی ہے۔پارٹی کے رکن پارلیمنٹ نے مزید کہا کہ یہ لوگ کئی دہائیوں سے مل کر کام کرتے آرہے ہیں۔ لگن اور عزم کے ساتھ لوگوں کی خدمت کر رہے ہیں اور زیادہ تر معاملات میں اپنے کمبوں کے واحد کمائو ہیں۔ ریاست اس حقیقی استحصال زدہ طبقے کو سماجی اور معاشی انصاف فراہم کرنے کی ذمہ داری سے غافل نہیں رہ سکتی۔انتظامیہ کے اس اہم جزو کو درپیش مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے مسعودی نے کہا کہا کہ 61000 عارضی ملازمین کئی دہائیوں سے مستقلی کے منتظر ہیں۔مستقلی میں تاخیر کے ساتھ یہ لوگ پے سکیل، گریڈ پے، ایچ آر اے، ایجوکیشن الاؤنس جیسے بہت سے فوائد سے محروم ہو جاتے ہیں۔مستقلی کے لئے جو اسکیم وضع کی گئی ہے اس میں اجرت کے اجراء کی تاریخ کے بجائے سروس کی طوالت کو مدنظر رکھنا چاہیے اور مستقل ملازمین کے لئے دستیاب تمام مراعات کو بھی فراہم کرنا چاہیے۔انہوں نے کہاکہ کافی طویل عرصے سے زیر التوا یہ مسئلہ فوری انصاف کا مطالبہ کرتا ہے۔مرکزی بجٹ کی جاری تیاریوں اور جموں و کشمیر کے سالانہ بجٹ کے مقامات کے پیش نظر مسعودی نے مرکزی وزیر خزانہ سے اپیل کی کہ جموں و کشمیر کے بجٹ میں 61000 عارضی ملازمین کو مستقل کرنے اور کم از کم اجرتیں فراہم کرنے کیلئے خاطر خواہ فنڈز فراہم کئے جائیں۔ اور ہر ایک شعبے کام کرنے والے عارضی ملازمین کے تمام بقایات جات کو بروقت ریلیز لیا جائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں