گوشہ اطفال
انسانیت
کہانی پرویز مانوس
ایک بار کی بات ہے کہ ایک گائوں میں پلیگ کی وباء پھیل گئی۔ سیٹھ ایشرد اس بھی اسی گائوں میں رہتا تھا۔ وہ نہایت ہی سیدھا اور عقلمند انسان تھا۔ وہاں سے ڈر کر لوگ بھاگنے لگے پھر رفتہ رفتہ سارا گائوں خالی ہو گیا لیکن سیٹھ ایشرد اس نے اس کی پرواہ نہیں کی اور اس نے اپنا گائوں نہیں چھوڑا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سیٹھ ایشرد اس بھی اس نامُراد بیماری کے حملے سے نہیں بچ سکا۔ یہ دیکھ کر سیٹھ ایشر داس کے سارے گھر والے ایک ایک کر کے بھاگ نکلے۔ یہاں تک کہ اُن کا اپنا خون… اپنا لختِ جگر، جس کو دل وجان سے محبت کرتے تھے۔ بیمار باپ کو وہیں چھوڑ کر بیوی کو لے کر دوسرے گائوں سُسرال چلا گیا۔ اس نے سوچا سیٹھ جی تو بیمار ہو ہی چُکے ہیں، ان کو تو اب مرنا ہی مرنا ہے لیکن وہ کیوں خواہ مخواہ اپنی جان کی قربانی دے۔ اُسے اپنے باپ کا ایک بھی احسان یاد نہیںرہا کہ کس طرح اس نے اُسے لاڈ پیار سے پال پوس کر اور پڑھا لکھا کر اس قابل بنایا۔ یہ اُس کی بدقسمتی اور کم عقلی تھی کہ وہ باپ کو چھوڑ کر بھاگ گیا۔ سیٹھ ایشر داس بیماری کی حالت میں تنہا چار پائی پر پڑا ہوا’ پانی۔۔۔ پانی‘ کراہ رہا تھا مگر اُس کی آواز سُننے والا کوئی نہیں تھا۔ اب تو وہ کافی ناتواں بھی ہو چُکا تھا۔ اُس نے سوچا اچھا ہوا اُس کی پتنی یہ دن دیکھنے سے پہلے ہی اس دنیا سے چلی گئی۔ ساری آبادی اپنی جان بچانے کے لئے’ النفسی النفسی‘ کرتے ہوئے وہاں سے ہجرت کر گئی۔ ایشر داس سوچنے لگا کہ کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ بُرے وقت میں اپنا سایہ بھی ساتھ چھوڑ جاتا ہے سچ مُچ دنیا کے سارے رشتے جھوٹے ہیں۔ میرے رشتے تو جیتے جی ٹوٹ گئے۔ خدا نے یہ کیسی عجیب بیماری بنائی ہے کہ جس کا نام سنتے ہی سارے عزیز اور رشتے دار ایسے غائب ہو جاتے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ اولاد ہونے کے باوجود اس وقت اس کو پانی پلانے والا بھی کوئی نہیں ، وہ اس وقت چار پائی پر پڑا زندگی کی آخری گھڑیاں گن رہا تھا کہ اُس کے گھر کا دروازہ کھلا۔ سیٹھ ایشر داس نے دھیرے دھیرے اپنا سر چار پائی سے اُپر اٹھا کر دیکھا تو ایک خوبصورت نوجوان اس کے سامنے کھڑا تھا، وہ اجنبی بندے کو دیکھ کر ڈر سا گیا۔ ایشر داس نے دھیمی آوازی میں پوچھا۔’’ تم کون ہو بھائی؟ اور یہاں کیسے آنا ہوا؟ ‘‘ اجنبی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ’’ آپ گھبرائیے مت بابا جی! میں اسی گائوں میں رہتا ہوں اور ایک طالب علم ہوں۔ ادھر سے گزر رہا تھا، آپ کی آواز کانوں میں پڑی تو اندر چلا آیا۔ میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بتائیے؟‘‘ یہ الفاظ سُن کر ایشر داس کے جسم میں جان آئی۔ اُس نے فوراً کہا’’ پچھلے چار دنوں سے اس چار پائی پر پڑا ہوں، پیاس سے میرا حلق سوکھ گیا ہے۔ پر ماتما کے نام پر مجھے دو گھونٹ پانی پلا دو‘‘ ایشر داس کی بے چینی دیکھ کر نوجوان نے کہا’’بابا جی کوئی بات نہیں، آپ فکر مت کیجئے۔ میں آپ کی خدمت کروں گا‘‘ ایشر داس نے اس نوجوان کی باتیں سن کر اور اس کا حوصلہ دیکھ کر اُس کی رحمدلی پر فخر کیا۔پھر اُس نوجوان نے ایشر داس کو پانی پلایا۔ اُس کے دل کو تھوڑا قرار آیا تو بولا’’ میں تمہارا شکر گزار ہوں بیٹا‘‘
نوجوان نے پوچھا’’ کیا میں جان سکتا ہوں بابا! کہ آپ کے باقی افراد خانہ کہاں ہیں؟‘‘ ’’وہ سارے مجھے اس حالت میں چھوڑ کر بھاگ نکلے‘‘ ایشر داس نے سر جھکاتے ہوئے جواب دیا’’بابا جی! جس کو اوپر والا نہ مارے، اس کو بندہ کیا مارے گا! یہ لیجئے آپ دوائی کھا لیجئے‘‘ نوجوان نے دوائی پکڑاتے ہوئے کہا۔ ’’دیکھو نوجوان! میں نہیں جانتا کہ میں تمہاری اس نیکی کا بدلہ کیسے چکا سکوں گا لیکن میں نہیں چاہتا کہ تم میرے لئے اپنی قیمتی جان کو خطرے میں ڈالو، میں تو بوڑھا آدمی ہوں، اپنی عمر جی چکا ہوں۔ دنیاکے سارے مزے لوٹ چکا ہوں لیکن تم تو ابھی جوان ہو ،اس لئے اپنی جوانی پر ترس کھائو اور جتنی جلدی ہو سکے ،یہاں سے چلے جائو۔ یہ بہت ہی خطر ناک اور چھوت کی بیماری ہے‘‘بابا کی باتیں سن کر نوجوان نے کہا’’بابا جی! آپ بھی تو کبھی جوان رہے ہوں گے۔ یہ جوانی تو چار دنوں کی بہار ہے، اس جوانی کا کیا گمان کرنا؟ ہر انسان کو اپنے بڑھاپے کی فکر کرنی چاہیے، یہ کرم خور کیڑے کی مانند ہے۔ پھر ایشور کو بھی جوانی کی عبادت زیادہ پسند ہے، اس لئے یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ میں آپ کو اس حالت میں چھوڑ کر یہاں سے چلا جائوں!۔۔۔۔ زندگی اور موت تو اوپر والے کے ہاتھ میں ہے۔ اُس کے حکم کے بغیر پتا بھی نہیں ہلتا، اگر میری قسمت میں جینا لکھا ہے تو میرا بال بھی بیکا نہیں ہو سکتا۔ وہ نوجوان بضد ہو کے وہیں سیٹھ ایشر داس کی خدمت کرنے لگا۔ دوسرے ہی دن گائوں میں میڈیکل ٹیم بھی پہنچ گئی۔ ڈاکٹروں نے پلیگ بیماری سے متاثرہ لوگوں کا علاج شروع کر دیا۔ نوجوان نے میڈیکل ٹیم کو گھر پر لایا اور ایشر داس کا علاج شروع کرا دیا۔ دن اسی طرح گزرتے رہے نوجوان کی تیمار داری سے ایشر داس آہستہ آہستہ صحت یاب ہونے لگا۔ وہ کمزور ضرور تھا لیکن چلنے پھرنے لگا تھا۔ وہ ہر وقت نوجوان سے کہتا’’میں تمہارا احسان کبھی نہیں بھولوں گا‘‘ نوجوان کہتا،،بابا جی! آپ میرے باپ جیسے ہیں، میں نے آپ پر کوئی احسان نہیں کیابلکہ میں نے انسانیت کا فرض نبھایا ہے۔ وہ دن بھی نہیں رہے، میڈیکل ٹیم نے اپنی محنت اور کوششوں سے اس وباء پر قابو پا لیا۔ پھر آہستہ آہستہ لوگ اپنے گھروں کو لوٹنے لگے تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ سیٹھ ایشر داس تو بالکل بھلا چنگا ہے اور اب تو وبا ء بھی دور ہو گئی ہے۔ گھر پھر آباد ہو گئے، گائوں میں پھر سے رونق لوٹ آئی اور ایک دن سیٹھ ایشر داس نے گائوں کے بڑے بزرگوں کو بلا کر پہلا کام یہی کیا کہ اپنے نا فرمان بیٹے کو اپنی پوری جائیداد سے بے دخل کر دیا۔ اس کے بعد اپنی کچھ جائیداد یتیم ٹرسٹ کو دے دی اور باقی کی ساری جائیداد اُس نوجوان کے نام کر دی، جس نے اپنی جوانی کی پرواہ کئے بغیر سیٹھ ایشر داس کی دل و جان سے خدمت کر کے انہیں نئی زندگی دی تھی۔ سیٹھ ایشر داس نے سب گائوں کے سامنے نوجوان کو اپنے سینے سے لگاتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ اُس کی آخری رسومات یہی ادا کرے گا۔
سیٹھ نے کہا ’’ اس دنیا میں دولت اور جوانی کا گمان کبھی نہیں کرنا چاہیے کیونکہ انسانیت ان تمام چیزوں سے بڑی اور اونچی ہے‘‘