ڈاکٹر مشتاق احمد وانی
صوبہ جموں کا خطئہ چناب اگرچہ فلک بوس پہاڑوں، سدابہار جنگلوں، ندی نالوں اور دریائے چناب کی لرزہ خیز موجوں پہ مشتمل ہے لیکن اسی خطے میں ایک ایسی دلربا وادی بھی ہے جو قدرت کی صناعی کے دلکش مناظر پیش کرتی ہے۔اس وادی کا نام بھدرواہ ہے۔ اس وادی کے کہساروں، آبشاروں، سبزہ زاروں اور خوشگوار ماحول وآب وہواکی بنیادپر اسے چھوٹا کشمیر بھی کہا جاتا ہے۔اس علاقے کا اپنا ایک مخصوص کلچر ہے۔بھدرواہ شہر میں اگرچہ کشمیری بولنے والوں کی ایک خاصی تعداد ہے؛لیکن اسکے باوجود بھدرواہ اور اس کے مضافاتی علاقوں میں بھدرواہی بولی بولنے والوں کی ایک کثیر تعداد ہے۔علاقہ بھدرواہ علمی، ادبی، ثقافتی اور سیاسی اعتبار سے کافی ذرخیز تصور کیا جاتا ہے۔اس علاقے سے کچھ ایسے ادبا وشعرا، دانشور اور سیاسی رہنما ابھرے کہ جنھوں نے نہ صرف ریاستی بلکہ ملکی سطح پہ اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔اگر میں اس علاقے کے ادیبوں اور شاعروں کے نام لکھنے بیٹھوں تو فہرست طویل ہوجائے گی۔لیکن اس خوف کے باوجود میں چند اہم ادبا وشعرا کے نام لکھے بغیر آگے نہیں بڑھوں گا کہ جن میں کچھ اپنے رشحات قلم سے اردو زبان وادب کی خدمات انجام دے چکے ہیں اور کچھ اب بھی اردو کی خدمت میں جٹے ہوئے ہیں۔ان اہم ادبا وشعرا کی فہرست میں گھمبیر چند، عبدالغفار احقر، رسا جاودانی، عبدالرحمان دیوانہ، غلام محی الدین وفا، کنول نین، نگہت جان، محمد تشنہ، مادھولال پادہ، بشیر احمد خطیب،بال کرشن چوہان، ماسٹر ہربنس راج ہنس، غلام نبی گونی،محمد الیاس تنویر بھدرواہی، طالب حسین رند، محمد شفیع بالم، محمد شفیع دلکش، محمدسبحان کیل،؛ عبدالجبار زائر، عبدالقیوم ساغر صحرائی، شاذ شرقی، عبدالغنی بے بس، عبدالمجید راز قاضی، عبدالقیوم آس اور ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی شامل ہیں۔
عبدالمجید بھدرواہی کو محکمئہ صحت سے بحیثیت ڈپٹی ڈائریکٹر سبکدوش ہوئے کافی عرصہ ہوچکا ہے۔وہ ایک انسان دوست؛منکسرالمزاج، مخلص، نیک سیرت اور سب کا بھلا چاہنے والے انسان ہیں۔ایسے لوگوں کی تعداد عصری معاشرے میں بہت کم ہے جو نیک نیتی کے ساتھ اچھا کام کرنے کی للک رکھتے ہوں۔دراصل منافقت، موہ مایا اور نمود ونمائش کا اجگر دلوں میں کنڈلی مار کے بیٹھا ہے۔جس کے باعث آج کے آدمی کے قدم نیکی کے بجائے بدی کی طرف تیزی سے بڑھتے ہیں۔مجھے یہ جان کر حیرت ہورہی ہے کہ عبدالمجید بھدرواہی کسی کالج یا یونی ورسٹی میں اردو کے پروفیسر یا اسسٹینٹ پروفیسر نہ ہونے کے باوجود اردو میں افسانے لکھتے ہیں۔ میری نظر میں وہ لوگ خوش نصیب ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ کی جانب سے علمی وادبی ذوق وشوق عطا ہوا ہے ؛مانا کہ علم بھی دوطرح کا ہوتا ہے ایک سفید دوسرا سیاہ یا ایک نوری دوسرا ناری۔نوری علم انسان کو خداشناسی، خود شناسی اور اسلامی تہذ یب وشائستگی کی دولت سے مالا مال کرتا ہے جبکہ سیاہ علم انسان کو سیاہ کاریوں کی دلدل میں دھنسا دیتا ہے۔زندگی چونکہ ایک قیمتی سفر ہے اس لیے آدمی کو ہر حال میں نیک نیتی کے ساتھ ہر نیک کام کرنا چاہیے۔
عبدالمجید بھدرواہی اپنی پوری مومنانہ وضع قطع اور نیک نیتی کے ساتھ تحریری صورت میں اصلاح معاشرہ کا فریضہ انجام دینے کی کوشش کرتے ہیں۔مجھے یوں تو ہر اچھے آدمی کا ادب واحترام کرنے سے خوشی محسوس ہوتی ہے لیکن ڈاکٹر اور وکیل کو کچھ زیادہ ہی احترام کی نظر سے اس لیے دیکھتا ہوں کہ ڈاکٹر طرح طرح کے مریضوں کے امراض کا پتا لگاتا ہے؛انھیں جینے کا حوصلہ دیتا ہے۔انھیں امراض سے لڑنے کے نسخے سمجھاتا ہے۔ان کے چہروں پہ رنگت اور ہونٹوں پہ مسکان دیکھنے کا متمنی ہوتا ہے۔اس اعتبار سے وہ ایک طرح کا ماہر نفسیات بھی ہوتا ہے۔جہاں تک ایک ماہر قانون وکیل کا تعلق ہے وہ حق تلفیوں، نا انصافیوں،اور ظلم وزیادتیوں کے خلاف لڑنا سکھاتا ہے۔دونوں اپنے پیشے کے اعتبار سے نہایت حساس ہوتے ہیں۔کوئی مانے یا نہ مانے لیکن یہ بات اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ ڈاکٹر اور وکیل کے پاس ہر روز مجسم صورت میں طرح طرح کی کہانیاں آتی ہیں۔چناں چہ ادبیات عالم سے قطع نظر اگر اردو شاعری اور فکشن کی تاریخ پہ نظریں دوڑائیں تو بہت سے ڈاکٹر اور وکیل ایسے ضرور نظر آئیں گے جنھوں نے خاص طور سے فکشن میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیںمثلاً کرشن چندر پیشے سے وکیل تھے اور کیول دھیر پیشے سے ڈاکٹر ہیں۔ جن کی فکشن نگاری پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔عبدالمجید بھدرواہی بھی طویل عرصے سے ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ چناں چہ دوران ملازمت انھیں انسانی نفسیات کا اچھا خاصا گیان دھیان حاصل ہوا ہے۔ ریاست جموں وکشمیر کے ایک اہم قلمکار جنھیں میں اردو؛انگریزی اور کشمیری کا حسین امتزاج کہتا ہوں میری مراد ولی محمد بٹ المعروف اسیرکشتواڑی سے ہے۔ انھوں نے عبدالمجید بھدرواہی کے بارے میں جو رائے قائم کی ہے وہ درست معلوم ہوتی ہے۔وہ لکھتے ہیں-
’’ ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی پیشے ایک ڈاکٹر ہونے کے ناطے انسانی نفسیات سے اچھی طرح واقفیت رکھتے ہیں۔ انھیں اردو ادب کے ساتھ والہانہ محبت ہے۔ان کا مطالعہ کافی وسیع ہے۔ بڑے بڑے شاعروں، ادیبوں اور افسانہ نگاروں کے ساتھ تعلقات قائم کیے ہوئے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے انھیں ایک دلآویز شخصیت اور خوش مزاجی سے نوازہ ہے۔وہ چچے تلے لفظوںمیں ہنستے مسکراتے اپنا ردعمل تیکھے انداز میں ظاہر کرنے کے فن میں یکتائے روزگار ہیں۔جس چیز کو سنجیدگی سے لیتے ہیں اس کی سرجری کرنے سے عار نہیں کرتے۔کسی کے دباو میں نہیں آتے۔ زودرنج اور انتہائی چاک وچوبند انسان ہیں‘‘
ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی کو کسی واقعے، خیال، جذبے اور حادثے کو افسانہ بنانے کی تحریک عشرت کشمیری سے ملی۔انھوں نے ہی ڈاکٹر موصوف کے تخلیقی جوہر کو نکھارنے سنوارنے میں نمایاں رول ادا کیا ہے۔بقول ڈاکٹر عبدالمجید ’’ افسانہ لکھنے کی تحریک مرحوم عشرت کشمیری نے دی۔پہلا افسانہ ان کی اصلاح سے جموں کے اخبارمیں چھپا۔دوسرا افسانہ انھوں نے خود لکھا مگر مجھے تحریک دینے کے لیے اسے اسی اخبار میں میرے نام سے چھاپا‘‘
ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی کے تیرہ مختصرافسانے میری نظروں کے سامنے ہیں۔یہ تمام مختصر افسانے ’’ اڑان‘‘ کشمیرعظمیٰ ‘‘اور’’ ہند سماچار‘‘ جیسے اخبارات میں شائع ہوچکے ہیں۔ان شائع شدہ مختصرافسانوں کے عنوانات اس طرح ہیں-’’یادوں کے مہیب سائے‘‘ احساس ندامت‘‘ جان من‘‘ بہتان‘‘ تنہائی کا آسیب‘‘ خواب اور آنسو ’’ جلتا گلاب‘‘ پڑیئے گر بیمار تو‘‘ یادوں کی پتوار‘‘ وہ ماں کا آنچل‘‘ کچھ دیر تو رک جاتے‘‘ ماں‘‘ اور ’’چبھن‘‘ یہ تمام مختصر افسانے افسانہ نگار کی داخلی خودکلامی سے تعلق رکھتے ہیں۔افسانہ نگار نے سماج میں جوکچھ دیکھا، سنا اور محسوس کیا ہے اسے بیانیہ انداز میں پیش کردیا ہے ذاتی تجربے اور مشاہدے کو افسانہ بنانے کے بعد یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ جگ بیتی سے زیادہ آپ بیتی ہے۔لیکن اگر ان افسانوں میں پیش کیے گئے مسائل اور معاملات پر غور کریں تو اس بات کا انکشاف ہوگا کہ یہ مسائل ذاتی ہوتے ہوئے بھی عمومی حیثیت رکھتے ہیں۔مثلاً افسانہ” یادوں کے مہیب سائے”ہی کو لیجیے اس میں ایک بچے کی زبانی جموں وکشمیر کے بحرانی حالات کی جو تصویر بیان کروائی گئی ہے وہ مایوس کن تو ہے لیکن اسکے پس پشت اس بچے کا دادا ہے جو اپنے پوتے سے بہت زیادہ پیار کرتا ہے مگر بچے کے والدین اس بات پر ناراض ہونے لگتے ہیں کہ دادا کے بہت زیادہ پیار کرنے سے بچہ بیمارپڑ جائے گا۔توگویا ایک بالیدہ ذہن شخص کا ذاتی کرب ایک طرح کی گھٹن اور کوفت کا علامیہ بن گیا ہے۔مثلاً مذکورہ افسانے کی ان سطور پر دھیان دیجیے:
“میرے ابو کو بھی اس قسم کا پیار کرنا اور بوسے لینا بالکل نا پسند تھا۔وہ تڑخ سے کہہ دیتے تھے یہ کیا ، بچہ تنگ پڑجاتا ہے اور اس سے Infectionہوجاتی ہے۔میرے دادا ابو کو کہتے بیوقوف پیار کرنے کا اور کونسا طریقہ ہے؟آپ ہی بتاو اور کہاں کیInfectionدادا دادی کے پیار سےInfectuon”‘‘ گویا بوڑھے والدین اور ان کی اولاد کے درمیان ایک طرح کے ذہنی بعد یادوری کو افسانہ نگار نے نہایت طنز آمیز الفاظ میں بیان کیا ہے کہ والدین بچوں سے پیار کرنے کو ترستے ہیں مگر انھیں بچوں سے ور رہنے کو کہا جاتا ہے۔ پورے افسانے میں کچھ جملے مضحکہ خیز بھی ہیں لیکن افسانہ نگار نے مجموعی تاثر کو برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔ افسانہ’’ احساس ندامت‘‘ میں ریاکاری اور اخلاص نیت کے درمیان حد فاصل قائم کی گئی ہے۔اس میں نہایت اختصار کے ساتھ دراصل یہ بات ذہن نشین کروائی گئی ہے کہ انسان کو ریاکاری سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے کیونکہ اللہ رب العزت کو ریاکاری پسند نہیں ہے۔صیغئہ واحد متکلم میںافسانہ نگار نے بڑے موثر الفاظ میں اللہ تعالے ٰکے حضور میں اعتراف ریاکاری اس طرح کیا ہے۔
’’میری تمام عبادتیں صرف اور صرف ریاکاری ہیں۔بڑی کوشش کے باوجود میں یہ بناوٹ کی عبادت چھوڑ نہیں سکتا۔میں تو اس ریاکاری والی عبادت میں روز بروز مزہ پاتا ہوں۔ جب بھی لوگوں کا ہجوم دیکھتا ہوں تو جھٹ سے جیب سے تسبیح نکال کراس کے دانے گھمانا شروع کرتا ہوں۔ایسا حلیہ اورلباس زیب تن کرتا ہوں جس سے لوگ آسانی سے مجھے ذاہد وپرہیز گار سمجھنے لگتے ہیں‘‘
افسانہ’’ احساس ندامت‘‘ کی یہ چند سطور ہر شخص کو ہوش کے ناخن لینے پر مجبور کرتی ہیں۔اس افسانے میں ہمیں افسانہ نگار ادب برائے تزکیئہ نفس یا احتساب نفس کے نظریے کاحامل نطر آتا ہے ’’ جان من‘‘ افسانے اور انشایئے کے درمیان کی چیز معلوم ہوتی ہے۔یہاں بھی پوتے اور دادے کے درمیان بے لوث و بے ساختہ محبت کی اک لطیف سی کسک ابھر آئی ہے۔ صیغئہ واحد متکلم میں جس جذباتی کیفیت کو بیان کیا گیا ہے وہ لمحہ بھر کے لیے سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ ’’بہتان ‘‘ ایک ایسا افسانہ ہے جو سچ اور جھوٹ کو عیاں کرتا ہے۔سماج میں شکم پروری کی خاطر لوگ کیسے کیسے حربے استعمال کرتے ہیں مذکورہ افسانہ کی قرات قاری کو حیرت میں ڈالتی ہے۔اس افسانے میں ایک بڑھیا کو میٹا ڈور میں افسانے کا راوی اس کو نہ صرف سیٹ دیتا ہے بلکہ اس کا کرایہ بھی دیتا ہے لیکن بڑھیا جب افسانے میں پیش کیے گئے
کردار ’’میں‘‘ کے روپے سے بھرے پرس پر نظر ڈالتی ہے تو اس کی نیت بدل جاتی ہے اور وہ اسٹاپ پرنیچے اترتے ہی اپنی جیب کٹ جانے کا رونا روتی ہے اور کرایہ دینے والے پر بہتان باندھتی ہے کہ اس نے اسکی جیب کاٹ لی۔بلآخر معاملہ پولیس تک پہنچتا ہے، جہاں بڑھیا بری طرح رسوا ہوجاتی ہے۔ اس طرح کی وارداتیں ہمارے سماج میں اکثر ہوتی ہیں۔
’’ خواب اور آنسو‘‘ ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی کا نہایت دلچسپ؛سبق آموذ اور پر اثر افسانہ ہے۔جس میں وحدت تاثر کی کار فرمائی قاری کو اس طرح اپنی گرفت میں لیتی ہے کہ وہ موت وحیات کی صداقتوں کو دل سے قبول کرنے لگتا ہے۔اس افسانے کی ایک خاص خوبی یہ ہے کہ افسانہ نگار نے شروع ہی میں ایک المناک منظر کو نسوانی کردار کی صورت میں اس طرح بیان کیا ہے کہ یہ گمان ہی نہیں ہوتا کہ یہ واقعہ خواب وخیال سے تعلق رکھتا ہے۔ افسانے کے اختتام پر قاری اس بات پہ لبیک کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ عملی زندگی میں بھی تو یہی سب کچھ ہوتا ہے۔یہاں نمونے کے طور پر مذکورہ افسانے سے ماخوذ چند جملے ملاحظہ فرمایئے:
’’اس کمرے میں کافی لوگ جمع تھے۔ عورتیں بھی اور مرد بھی۔کچھ اس کے پلنگ کے ارد گرد کھڑے اور کچھ بیٹھے ہوئے تھے۔اپنے اور پرائے سب زاروقطار رورہے تھے۔کچھ اس کے اوصاف حمیدہ بیان کررہے تھے۔میں یہ سب کچھ دیکھ اور سن رہا تھامگر مجھے ان سب سے قطعی کوئی دلچسپی نہیں نہ تھی۔میں اپنے ہی خیالوں میں گم صرف اسے دیکھ رہا تھا‘‘
عورت کی خوبصورتی بعض موقعوں پہ اسکے لیے باعث تشویش بن جاتی ہے۔سماج کے برے لوگوں کی ہوسناک نظریں اس کا تعاقب کرنے لگتی ہیں۔افسانہ ’’جلتا گلاب‘‘ کی اوشا انتہائی خوبصورت ہے لیکن اس کی زندگی کا دوسرا پہلو بہت زیادہ مایوس کن ہے۔وہ اس لیے کہ اس کا شوہر گھنشام جذامی ہے۔جذام جیسے موذی مرض میں مبتلا ہونے کی وجہ سے اس کی شکل بگڑ چکی ہے۔وہ اپنے شوہرکو ہر حال میں اس موذی مرض سے نجات دلانے کے لیے جہاں کہیں کسی ڈاکٹر کو دکھانے جاتی ہے توڈاکٹروں کی نطریں گھنشام کے بدلے اوشا کے حسین وجودپہ گھومتی رہتی ہیں۔بلآخر وہ تنگ آکریہ چاہتی ہے کہ اسے کوئی ڈاکٹر ایسی دوائی دے جو اسے جذام کے مرض میں مبتلا کرے۔ ’’ جلتا گلاب‘‘ بہت مختصر افسانہ ہے مگر معرکے کی چیز ہے۔
ایک اور مختصر افسانہ’’ پڑھیے گربیمار تو‘‘ میں ایک ملازم کی دفتری مصروفیات سے تنگ آکر گھر میں بیماری کا بہانہ کرکے لیٹے رہنا، اپنی بیوی اور بہن بہنوئی کو پریشان کرنے اور ان سے اپنی خدمت کروانے کاذکر بڑے دلچسپ انداز میں کیا گیا ہے۔اس افسانے میں بہت حدتک نااہل ڈاکٹروں پر طنز کیا گیا ہے۔ہم جس دور میں سانس لے رہے ہیں وہ انسانی رشتوں اور قدروں کی شکست وریخت کا دور ہے۔خاص طورسے ماں باپ کی عظمت اور خدمت کا جذبہ اولاد کے دلوں سے رخصت ہورہا ہے۔تمام مذاہب عالم میں ماں کو دنیا کی عظیم ترین ہستی قراردیا گیا ہے۔ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی کے تین مختصر افسانے’’ کچھ دیرتو رک جاتے‘‘ وہ ماں کا آنچل‘‘ اور ’’ ماں‘‘ میں ماں کی عظمت، ممتااسکی یادیں،خلوص بیکراں اور اسکے آنسووں کو نہایت جذباتی انداز میں احاطئہ تحریر میں لایا گیا ہے۔مثلاً افسانہ ’’کچھ دیرتو رک جاتے‘‘ سے ماخوذ یہ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’ با ہراب بھی گھپ اندھیرا تھا اور بارش مسلسل ہورہی تھی لگتا تھا رات کافی بیت چکی ہو۔اب فجر کی نماز کا وقت ہونے والا تھا۔محلہ کی
مسجد سے موذن نے اذان دینا شروع کی۔میں اذان کی طرف متوجہ ہوا۔وہ بھی انہماک سے اذان کے الفاظ دہراتی اور یہ کہتی ہوئی
کمرے سے باہر جانے لگی
“بیٹا خدا حافظ میں اب چلتی ہوں۔میں نے اتنی ہی اجازت لی تھی۔میں صرف تیرا حال معلوم کرنے آئی تھی۔اپنا خیال رکھنا بیٹا۔یہ کہہ کر
وہ کمرے سے باہر نکل گئی۔دور- بہت دور اور میں بس دیکھتا ہی رہ گیا۔یہ میری ماں تھی؛ جسے میں نہ جانے خیال میں یا عالم خواب
میں ایک سراب کی طرح دیکھ رہا تھا۔میرے لبوں پر یہ الفاظ ایسے منجمد ہوکر رہ گئے”ماں کچھ دیر تو رک جاتے”
افسانہ”تنہائی کا آسیب”پڑھنے کے بعد قاری رنجیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ حیرت میں پڑجاتا ہے۔شاہد جیسے کمسن بچے کی ماں پروین ؛ تین سال کے بعد اسے دودھ نہیں پلاتی ہے۔ایک روز شاہد کو بخار ہوجاتا ہے اور وہ دم توڑ دیتا ہے۔پروین کی دنیا اجڑ جاتی ہے اور وہ تنہائی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ افسانے کے اختتامی حصے میں یہ انکشاف قاری کو چونکاتا ہے کہ شاہد پروین کو ایک ناجائز اولاد کی صورت میں حاصل ہواتھا۔یہ افسانہ کہانی پن سے عاری نہیںہے۔کہانی کار یا افسانہ نگار نہایت حساس ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہیے۔بڑا بدنصیب ہے وہ شخص جو احساس کی رمق اور خوشبو سے عاری ہو۔افسانہ “یادوں کی پتوار”میں افسانہ نگارکی حساسیت زندگی کی بے ثباتی اور ناپائداری کا احساس دلاتی ہے۔نجمہ اس افسانے کا مرکزی کردار ہے جوکینسر کی مریضہ ہے۔لیکن ڈاکٹر اسے یہ احساس نہیں ہونے دیتا کہ وہ اس جان لیوا مرض میں مبتلا ہے۔یہ اتفاق کی بات ہے کہ ڈاکٹر کی بیوی کا نام بھی نجمہ ہے۔نجمہ کو تسلی دینے کے لیے ڈاکٹر ہر ممکن کوشش کرتا ہے اور آخرکار کچھ عرصے کے بعد اس کا انتقال ہوجاتا ہے۔
افسانہ”چھبن”میں یادوں کا ایک تسلسل ہے جو افسانہ نگار کے ذہن میں اس طرح نقش ہوکے رہ گیا ہے کہ بقول کسی شاعر کے یاد ماضی عذاب ہے یا رب … چھین لے مجھ سے حافظہ میرا۔سعدیہ؛امجد اور سردار جی جیسے کرداروں سے افسانے کاتانابانا تیار کیاگیا ہے۔امجد کا بچپن میں بیمار ہونا اور پھر صحتیاب ہونا یہ تمام باتیں یادوں کے بھنور میں ڈھل گئی ہیں۔اہم نقطہ یہ ابھارا گیا ہے کہ گردش ایام میں سب کچھ فنا ہوجاتا ہے۔ افسانہ یاکہانی فنی تقاضوں کی متقاضی ہوتی ہے پلاٹ سازی؛ کردارنگاری؛مکالمہ نگاری؛ماحول وفضا؛وحدت تاثر اور اختتام یہ تمام عناصر ترکیبی کہانی یا افسانے کو دلچسپ بناتے ہیں۔شاعری کی طرح فکشن کی بھی الگ زبان ہوتی ہے۔فکشن نگار کا مطالعہ وسیع اور مشاہدہ گہرا ہونا چاہیے۔ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی کے مختصر افسانے ہمیں چھوٹے چھوٹے حالات وواقعات؛احساسات اور حادثات پہ غور وتدبر کی دعوت دیتے ہیں۔ہمیں جھنھوڑتے ہیں اور اچھے برے کا خیال رکھنے کادرس دیتے ہیں۔میرا یہ ماننا ہے کہ جس طرح ہر کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا ؛اسی طرح دنیا کا کوئی بھی آدمی اپنے آپ میں مکمل ہوہی نہیں سکتااور پھر انسان تو بشر ہے لہذا بشریت اس کی سرشت میں ہے۔میں بہت خوش ہورہا ہوں کہ ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی اپنے افسانوی سفر پہ رواں دواں ہیں۔اللہ کرے زور قلم اورزیادہ۔
�����
ڈاکٹر مشتاق احمد وانی
اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ اردو بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری
( جموں وکشمیر)
7889952532