( ایک اور اینٹ گر گئی دیوار حیات سے)
شوکت احمد بڈنمبل
ہر چیز کی قدر تب آجاتی ہے جب وہ چھن جاتی ہے۔ پھر چاہے یہ وقت ہو ،زندگی ہو، مال و ذر ہو۔،صحت ہو، والدیں ہو یا ایماں جیسی عظیم دولت۔غرض جو بھی نعمت ہو ۔ ایسے میں پھر انسان کے پاس پشیمانی اور زہنی تناؤ کے سوا کچھ نہیں رہتا۔ ٹھیک اسی طرح جب سال گزرنے کو ہوتا ہے تو انسان عجیب کیفیت کا شکار ہوجاتا ہے۔ دل و دماغ پہ اک بوجھ سا آن پڑتا ہے۔ ایسے میں انسان کا دل و دماغ مختلف مراحل سے گزرتا ہے۔ جہاں ایک طرف اُسے گزرے پل یاد آتے ہیں وہیں آنے والے کل کی امید و خوف اسے ستانے لگتا ہے۔ اسے گزرے وقت میں اپنے سب کئے ہوئے کام سامنے آجاتے ہیں۔ جہاں اسے اپنی کامیابیوں پہ نظر پڑتی ہے تو اسے پھر جینے کی آرزو اور حوصلہ مل جاتا ہے۔ لیکن وہیں اسے اپنی ناکامیاں بھی یاد آجاتی ہے اور نا امید ہوجاتا ہے۔ غرض ایسے میں اس کے اندر امید اور نا امیدی کے بیچ ایک جنگ سی چھڑ جاتی ہے۔
کیوں گردش مدام سے گھبرا نہ جائے دل
انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں
جہاں اس نے زندگی کے کئی خواب سجائے ہوئے ہوتے ہیں۔ اسے وقت کے رفتار کا کوئی اندازہ نہیں رہتا اور ایسے میں اس کیلئے ماضی کل اور آج سب ایک ساتھ رواں دواں سے لگتے ہیں ۔ اس کے دل میں بے بہا خواہشات اور چاہتیں عروج پر ہوتی ہیں جیسے سمندر میں لہروں کا بہاؤ ہوتا ہے۔ یہ پوری کائینات کو سمیٹنا چاہتا ہے۔ اس کے دل میں لیکن ایسا ہرگز اس کے بس میں نہیں۔ کیوں کہ دراصل لمحہ لمحہ اس جہاں سے دور ہونے کو ہوتا ہے۔ لیکن ہر خواہشات کے نیچے دبے انسان کو اس کا احساس اور مشاہدہ نہیں رہتا۔ اسلئے اس موڑ پہ اس میں عجلت کا مظاہرہ دیکھنے کو ملتا ہے۔وہیں پہ اس کے دل و دماغ میں گزرے وقت کے ناگوار موڑ اور مرائل گشت کرنے لگتے ہیں اور اس کا حوصلہ توڑنے کے در پہ ہوتے ہیں۔ ایسے میں اسے ایسا لگتا ہے کہ جیسے کوئی اسے بس کہہ کر رکنے کو کہہ رہا ہو۔ اسکی ابھرتی خوائیشات سب اس کو ناممکن اور سراب سی لگتی ہے۔ اسے حقائق بھی فریب لگتے ہیں۔
دراصل دنیا کی ہر چیز بے ثبات ہے۔ یہاں کسی چیز میں ٹھہراؤ نہیں۔ جہاں ہمارے ساتھ خوشی کے لمحے ہمیشہ کیلئے میسر نہیں رہتے ہیں۔ وہی پہ ناگوار اور دلخراش لمہے بھی ہمارے ساتھ زیادہ دیر نہیں رہتے۔ ایسے میں خوشیوں کیلئے غم اور مصائب کیلئے خوف ہمارے پورے وجود کو درہم برہم کرکے رکھ دیتے ہیں۔ انسان اصل میں وقت کے رفتار اور نظام کو دلی اور ذہنی طور سے سمجھنے سے قاصر ہے۔ ایسا اصل میں اسی لیے کہ درحقیقت یہ پورے جہان ایک آزمائشی گاہ کے سوا کچھ نہیں۔ یہاں ہر شے میں ایک تفاوت و تقرار سی ہے۔ جہاں موت زندگی کے ارد گرد گھومتی پھرتی رہتی ہے۔ وہیں دن رات کے ، خوشی غم کے نفس روزی کے دل دماغ کے زمیں سورج کے ارد گرد گھومتے رہتے ہیں۔ نیکی بدی کے، کمی زیادتی کے، ہستی نیستی کے اور زمیں سورج کے ارد گرد گھومتی رہتی ہیں۔ ہر چیز کے درمیان متضاد ردعمل فطرت کے رموض کو فاش کرنے کے درپہ ہوتے ہیں۔ لیکن انسان جسے عقل کا گمان رہتا ہے۔ ان اسرار کو جاننے سے کوسوں دور بے بس رہ جاتا ہے۔
اسے آج تک اپنے اندر کے متضاد اوامر کا علم اور ادراک نہیں ہوسکا۔ اس کے پاس اسرار کو سمجھنے پہ قدرت نہیں۔ ایسے الجھن میں اس کے پاس کوئی راستہ آسانی سے دکھائی نہیں دیتا اور رہنمائی کا ذریعہ اسے میسر نہیں دکھتا۔ یہ سب حالات اسکے زندگی کے ہر گوشے ہر شے میں پیش آتے ہیں۔اور وقت وہ شے ہے جو سبھی نعمتوں پہ فوقیت اور مرطبت رکھتی ہے جسے سمجھنا قابو کرنا انسان کے بس میں نہیں۔ ایسے میں صبر اور قناعت واحد چیزیں ہیں جس اسے اس الجھن میں صحیع راستہ فراہم کرتی ہے اور اچھا برا، فنا بقا اور سود و زیاں سمجھنے اور عبور کرنے کی راہ ہموار کرتی ہے۔ وقت کا رخ ہمیشہ آگے کی طرف رہتا ہے۔ اور انسان کو اسے آگے سے ہی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وقت وہ شے ہے جس کا انسان سامنا کیے بغیر نہیں رہتا اور ایسے میں وقت کے ساتھ چلے بغیر انسان کا وجود ناممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سارے انسان وقت کے بدلاؤ کو نہیں سہہ سکتے ہیں اور وقت سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں۔ یہی کیفیت اسے بےبس اور ناکام بناکر چھوڑ دیتی ہے۔
وہی زمانے کی گردش پہ غالب آتا ہے
جو ہر نفس سے کرے عمر جاوداں پيدا
انسان کو اللہ تعلی نے سب مخلوق پہ فوقیت دی ہے اور اسے اپنا خلیفہ گردانا ہے۔ لہذا اس میں کچھ خدا داد اوصاف ہونے چائیے۔ اسے اس کم قلیل فانی زندگی میں کچھ ایسا کرنا چاہیے کہ اس کے ارادوں ،آرزوں اور کارناموں کے اگے وقت بھی بے بس پڑنا چائیے۔ نہ کہ وقت سے خوف کھاکر اپنے زمہ داریوں اور مرطبت سے دستبردار ہوکر وقت سے شکوہ کرنے والا بننا چائیے۔ بلکہ وقت کے سامنے ایسا احداف پیش کرنے چائیے کہ آنے وقت بھی اس پہ ناز کرنا چائیے۔ دراصل انسان وقت کے بہاؤ میں ڈھوب کر مر نہیں جاتا ہے بلکہ وقت پاکر اسے استعمال کرکے اپنا بنیادی مقصد نا پانا ہی موت ہے۔ باقی انسان کی روح پرواز کرنا دراصل ایک ہجرت ہے جس میں یہ فانی دنیا سے نکل عالم بقا میں جاتا ہے اور دنیا یعنی ازمائیش گاہ میں اپنے کیے کے نتائج سے محرم ہوجاتا ہے۔ غرض وقت اسی کا ہوتا ہے جو وقت کا۔ انسان کی نظر ہمیشہ وقت کے گزرجانے پہ ہوتی ہے۔ وقت ہر کسی کا گزرجاتا ہے۔ لیکن وقت بننا ہی واقعی کارنامہ ہے۔ وقت کسی کسی کا بنتا ہے۔ یہ قابلہ فکر اور قابل مشاہدہ ہے۔
دنیا میں ہر شے کا وقت گزرتا ہے۔ ایک خاک کے ذرے سے لیکر تابناک سورج تک۔ لیکن سورج وقت کے رفتار پہ چل کر سارے عالم کو دن و رات کے متضاد عمل دکھا کر خوبصورت اور معنی خیز بنادیتا ہے۔ جبکہ ایک ذرہ وہی ذرہ رہ کر اپنا وقت گنواں دیتا ہے۔ تحقیق کی بات یہ ہے کہ ایک ذرہ تک کی شے اپنے مقصد کے پیچھے رواں دواں ہوتی ہے۔ لیکن غافل انسان ہی ہے جو معمولی رکاوٹ اور ناگوار کیفیت سے مقصد سے انحراف کر جاتا ہے۔ اور وقت کو دوش دے کر دراصل وقت سے ہارجاتا ہے۔
تماشا ہے کہ جن کے واسطے گردش میں تھے عالم
انہیں بھی سوجھتے ہیں گردشِ ایام کے شکوے
لیکن جہاں اللہ ہی نے انسان کو کمزور اور مجبور بنایا ہے وہیں پہ ایسے اسرار بھی نہاں رکھے ہیں۔ جسے یہ آشکار کرکے سارے اس فانی نظام کو مات دے سکتا ہے۔ ایسے میں انسان کو تحقیق و تفکر اور صبر و استقلال جیسے عظیم رموز کو سمجھکر آگے بڑنا ہے۔
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
جہاں انسان کو لگتا ہے کہ وقت کا منبع و مرکز زمیں و آفتاب اور چاند کی گردش میں پوشیدہ ہے۔ لیکن حقیقت میں یہ سب راز اس کے اپنے وجود میں ہی پوشیدہ ہے۔ اور سورج و چاند اور زمیں کی گردش بس فقط اس کے اندر اسی راز کو فاش کرنے کے اُکسانےکےدرپہ ہے۔ داناں انسان اپنے مشاہدات کو اپنے تخیلات سے جوڑ کر اپنے اندر چھپے تحقیق و تفکر کے ترازو میں ڈال کر اصل حقائق سے ہم کنار ہوجاتا ہے۔
اللہ تعلی قرآن کریم میں انسانوں کی رہنمائی کیلئے ارشاد فرماتے ہیں۔وه اللہ تعالیٰ ایسا ہے جس نے آفتاب کو چمکتا ہوا بنایا اور چاند کو نورانی بنایا (١) اور اس کے لیے منزلیں مقرر کیں تاکہ تم برسوں کی گنتی اور حساب معلوم کرلیا کرو(٢)۔ اللہ تعالیٰ نے یہ چیزیں بے فائده نہیں پیدا کیں۔ وه یہ دلائل ان کو صاف صاف بتلا رہا ہے جو دانش رکھتے ہیں۔
دنیا میں جو آج رواج سا ہوگیا ہے کہ وقت کے آنے جانے کو منایا جاتا ہے۔ دراصل انسان کے شایان شان یہ سبھی حرکات انسان کے بنیادی مرطبت اور منزلت کے منافی ہے۔ بلکہ انسان کا سفر و فکری گہوارہ ان سب حقیر چیزوں سے بالا تر ہے۔ نئے سال کے آمد پہ جشن منانا یہ سب فرضی اور مقاصد سے دور ہے۔ وقت کیا ہے؟ وقت مہلتِ عمل ہے۔ اس میں جو چاہو کرلو۔اچھے عمل کرکے کامیاب انسان بننا چاہو یا برے اعمال سے ایک ناکام بدبخت۔ یہ بہتے دریا کی طرح رواں دواں ہے جو کبھی واپس نہیں پلٹتا۔ اکثر لوگ سال کے آخری دن جشنوں اور ہنگاموں سے وقت کو وداع کرتے ہیں۔ لیکن دراصل وہ نادان ہیں اور سمجھ نہیں پاتے کہ اصل میں وہ زندگی سے ایک سال دور چلے گئے اور موت کے قریب آگئے۔ لیکن دانا لوگ قدرت کے ہر رمز کو سمجھ لیتے ہیں۔ اور زندگی کے ہر لمحے کو ابتدائی اور آخری لمحہ سمجھ لیتے ہیں۔ اور ہر گزرتے لمحے پر احتساب سے کام لیتے ہیں۔ اور فرصت کو مشغولت اور زندگی کو موت سے پہلے غنیمت جانتے ہیں۔
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ایک آدمی کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
اغْتَنِمْ خَمْسًا قبلَ خَمْسٍ : شَبابَكَ قبلَ ھِرَمِكَ ، وصِحَّتَكَ قبلَ سَقَمِكَ ، وغِناكَ قبلَ فَقْرِكَ ، وفَرَاغَكَ قبلَ شُغْلِكَ ،
وحَیاتَكَ قبلَ مَوْتِكَ (الحدیث)
ترجمہ:پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو، جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، صحت کو بیماری سے پہلے، مالداری کو محتاجی سے پہلے، فراغت کو مشغولیت سے پہلے، اور زندگی کو موت سے پہلے۔
خدا کے نظام کو سمجھنے کیلئے انسان کو خدائی راستہ اور خدائی ضابطے پہ ہی عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ورنہ ظاہراً حیوانات بھی اپنے اپنے انداز میں چلتے پھرتے، ڈوڑتے اور پھدکتے ہیں۔ لیکن انسان ان شب چیزوں سے بالا تر ہے۔ اور اس کا آئینہ نظر اور فکر ان چیزوں سے بڑا ہے۔ اللہ نے انسان کو جو چند پل کی فرصت دی ہے تاکہ اسے آزمائیں کہ اسے کس طرح دنیا کے اس فانی نظام کو پرکھنے کا ادراک ہوگا اور یہ اسے ہمیشہ رہنے والی ابدی زندگی کے مقصد کے حصول کیلئے بروئے کار لائے۔ دنیا جسے ظاہراً آزمائیش کیلئے عیش و عشرت کی صورت دے کر تخلیق کیا گیا ہے تاکہ انسان مقصد آخرت سے غافل ہونے کا احتمال رہے اور اسے ایک امتحان سے گزرنا پڑے۔ اللہ تعلٰی نے انسانیت کیلئے ایک دستورِ حیات اور آئینِ خداوندی قرآن مقدس کی صورت میں عطا کیا ہے جس پہ عمل پیرا ہوکر ہی انسان دنیا کے اصل سراغ پاسکتا ہے اور اور اپنے اصلی مقصد اور منزلت سے سرفراز ہوسکتا ہے۔۔۔قرآن پاک میں اللہ تعلی ارشاد فرماتے ہیں ترجمہ: پس بے شک تمھارے پاس تمھارے ربّ کی طرف سے ایک روشن دلیل اور ہدایت اور رحمت آچکی، پھر اس سے زیادہ ظالم کون ہے جو اللہ کی آیات کو جھٹلائے اور ان سے کنارا کرے۔ عنقریب ہم ان لوگوں کو جو ہماری آیات سے کنارا کرتے ہیں، برے عذاب کی جزا دیں گے، اس کے بدلے جو وہ کنارا کرتے تھے۔
آخرت کی فکر اور دنیا طلبی چھوڑنے سے ہرگز یہ مطلب نہیں کہ انسان ہاتھ پر ہاتھ دھرے بے عمل رہے بلکہ دنیا کو خرچ کرکے اسے سامان ِ اخرت پانے میں استعمال کرے اور دنیاوی زندگی کو خوش اعمال سے پر وقار اور معنی خیز بنائے۔ دراصل وقت اسی کا ہے۔ جو وقت سے مانگتا نہیں بلکہ وقت کو کچھ دیتا ہے۔ وقت پہ انحصار کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ اور اپنے عزائم سے وقت کو ہی متزلزل اور بے قرار کردیتا ہے۔ اور ایسا ماحول پیدا کردیتا ہے۔ کہ وقت ہی اسکو رکنے کو کہتا ہو۔ جیسے سفر میں وہی ساتھی دوسرے ساتھی کو رکنے کو کہتا ہے جو پیچھے رہ جاتا ہے۔ ٹھیک ایسے ہی عظیم لوگ وقت کو ہی مات دے جاتے ہیں۔لیکن اکثر انسان یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا مکافات عمل ہے اور یہ صرف محنت و مشقت ،حرکت اور گردش کی جا ہے نہ کہ ارام و نید اور غفلت کی۔ لیکن پھر بھی انسان نہ جانے یہ کیوں عمل کو مسقبل کیلئے موخر کردیتا ہے۔ اور عمل کی جگہ میں بیٹھ کر آرام کی کھوج میں بھٹکا ہے۔ یہ سمجھتا ہے کہ یہ چند پل کے فانی لمحے گزرجانے والے ہیں۔ اور آنے والے ہمیشہ رہنے والے لمحات عمل کیلئے نہیں۔ لیکن پھر بھی یہ غفلت کی نیند کو ترجیح دے کر غیر منطقی بن کر مسقبل پہ چھوڑ دیتا ہے۔خبر نہیں کیا ہے نام اس کا، خدا فریبی کہ خود فریبی عمل سے فارغ ہُوا مسلماں بنا کے تقدیر کا بہانہ دورِ حاضر کے انسان نے مشینوں کا سہارہ لے کر صرف آرام کرنے کو مقصد بنایا ہے۔ بلکہ اب تو انسان کا جسم بھی حرکت کیلئے ترسنے لگا ہے۔ انسانی خون کیلئے جو ضروری بہاؤ چائیے تھا۔ اس نے اب اسے بھی مشینوں کے نظر کیا ہے۔ایسا لگتا ہے جیسے معاز اللہ بلا تمثیل و تشبیح انسان اب “کُن فیکن” کا مالک یعنی خُدا بننا چاہتا ہے۔ جو کہ صریحاً اس کے تخلیق و وجود کے منافی اور نا ممکن ہے۔ اسے چائیے تھا ویسا ہی بننا جیسا اس کے مالک و خالق کو مقصود تھا۔ لیکن ” فیکن” کے بجائے “کن” کا گماں لیکر دراصل انسان مالک کے خلاف جاکر خود ہی کیلئے سامانِ حلاقت بن بیٹھا۔ جہان یہ مجبور و کمزور پیدا کیا گیا ہے۔ لیکن اسے اپنے الگ کے بنائے ہوئے دنیا میں اپنا آپ مغرور و مختار لگتا ہے۔ اور اس طرح اسے اپنے آپ کو نہ جاننے کی بڑی بھول کرجاتا ہے اور اپنے مقصد سے دستبردار ہوجاتا ہے۔ ایسے میں اس کے دل میں صرف شکوے اور ناامیدیاں ہی رہ جاتی ہیں۔ اور اس کا انجام فقط ناکامی ہی ہوتی ہے۔ غرض خود کے اندر کی خوبیاں اور خامیاں جاننا اور پھر انہیں خدائی ضابطے پہ چل کر بروئے کار لاکر ہی انسان اپنا اصل مقصد، مرطبت اور منزلت پاسکتا ہے۔ یعنی اپنی قوت سے کم اور قوت سے تجاوز کرنا دونوں نادانیاں ہیں۔ وقت جس کی ابتدا اور انتہا کو سمجھنا انساں کے بس میں نہیں ہے۔انسان نے اس کو خود کے قریب ہونے پہ سالوں اور مہینوں کا نام دے کر کوزے میں سمیٹا ہے۔ اسی بےبس کوشش کے باعث آج 2021 اختتام ہونے کو کہلاتا ہے۔ جسے طرح ماضی کے سالوں کو اوداع کیا گیا۔ ٹھیک اسی طرح اس سال کو ابھی الوداع کہہ رہے ہیں لیکن آنے والے سال کے متعلق کہنا ہماری بس میں نہیں کیوں کہ وہ ابھی انسان کے دماغی کوزے کے گرفت میں نہیں ہے۔ دراصل انسان وقت سے مجبور ہے۔ لیکن حوصلہ رکھنے کیلئے اور وقت کا سامنا کرنے کیلئے وہ وقت ہی کو مجبور کی صورت میں پیش کرتا ہے۔ معمول کی طرح اچھا برا خشی غمی کا نام دے کر وداع کرتے ہیں۔ کسی کیلئے پھر وہی مظلومیت کا سال اور کسی کیلئے ازادی و ھریت ۔کسی کیلے ظلم اور بربریت کا سال اور کسی کیلئے انصاف و عدل کا، کسی کیلئے زندگی اور کسی کیلئے موت ۔ غرض آہ و پکار اور ہنسی شوخیاں سب وہی ہیں لیکن انسانی چہرے اور ان کے انداز بدلے بدلے ۔ کوئی تب رویا اور کوئی اب رویا ، کوئی تب ہنسا اور کوئی اب ہنسا۔ کوئی تب بگڑا کوئی اب اور کوئی تب سنبھلا ، کوئی اب۔
تقدیر بنانے والے تو نے کمی نہ کی
اب کس کو کیا ملا؟ مقدر کی بات ہے
آج ہماری زندگی کا قیمتی سال 2021 کی شکل میں ہماری زندگی سے گھٹ گیا۔ یہ گھڑی جشنوں کی نہیں بلکہ ہر آدم زاد کیلئے غور و فکر اور ایک آئینے کے مانند ہے۔ جس میں اسے اپنے گزرے لمحوں کے سبھی کئے اعمال و اوامر سامنے آجاتے ہیں اور احتساب کا تقاضا کرتے ہیں۔ اللہ پاک سے دعا کہ ہمیں ہمیشہ سرخرو رکھے اور ہمیں اپنے مرطبت، منزلت اور مقاصد سے سرفراز کرے۔ اللہ تعلی ہر لمحہ ہر گھڑی اور ہر سال ہمارے حق میں خیر اور شادمانی کا سامان بنائے۔
80