ڈیسک 117

ندائے کشمیر ’’مجھے کچھ کہناہے ‘‘

نـــوٹ:۔ معزز قارئینِ کرام ہفتہ روزہ ندائے کشمیر میں ’’مجھے کچھ کہناہے ‘‘ کے نام سے ایک سلسلہ وار کالم جاری ہے ، جس میں ہر ہفتہ کسی مخصوص موضوع پرمختلف طبقہ ہائے فکر سے وابستہ لوگوں کا نقطہ نظر جاننے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہفتہ ھٰذا کے لیے جس موضوع کا انتخاب کیا گیا ہے وہ ہے ’’اُستاد‘‘۔ اگلے ہفتے کا موضوع (آف لائن ، آن لائن تعلیم) ہے

 

ایس حسن انظر

اُستاد عام طور پر ایک ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جو زندگی کے کسی خاص شعبے میں کمال کی مہارت رکھتا ہو مثلاً مکانات، سڑکیں اور پُل بنانے کی بہترین صلاحیتوں والے ترکھان اور گلکار، مٹی کے برتن بنانے کی اہلیت والے کمہار، حجامت کے ماہرین حجام یا نائی یا گاڑی چلانے والے ڈرائیور، تعلیمی اداروں میں درس و تدریس پر مامور لوگوں کو بی اسی طرح اُستاد ہی کیا جاتا ہے بلکہ حق تو یہ ہے کہ زیادہ تر ہمارے سکولوںکالجوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم و تربیت کے پیشے سے منسلک خواتین و حضرات کو ہی ہمارے یہاں اساتذہ کہا جاتا ہے ۔ تعلیم و تربیت پر ان اساتذہ کو ماضی میں بڑی عزت اور احترام کا حقدار سمجھا جاتا تھا لیکن اب یہ رویہ بڑی حد تک بدل چکا ہے۔ اس تبدیلی کی وجہ یہ ہے کہ جہاں پہلے پہل ایک اُستاد، گرو یا معلم اپنے شاگردوں کو محض لکھنا پڑھنا ہی نہیں سکھلاتا تھا بلکہ اس کے ساتھ ہی ساتھ اخلاقی تربیت بھی دیتا تھا یعنی ذہنی نشوونما کیساتھ ساتھ روحانی تربیت اور راہنمائی بھی فراہم کرتا تھاوہیں بدلتے حالات کے زیر اثر اب زیادہ تر زور لکھائی پڑھائی اور حصول معاش کےلئے درکار ہنر مندی وغیرہ پر ہی دیا جاتا ہے۔ یوں جہاں کل ایک گرو یا استاد انبیا کرام اور اولیا عظام کی طرح ایک تقدیس کے ساتھ اپنے شاگردو کیلئے معلم اخلاق اور راہبر و رہنما ہوا کرتا تھا وہیں اب اساتذہ کو بھی کسی بھی دوسرے تنخواہ یاب ملازم یا خدمت گذار سروس پرویڈر کی طرح ہی خالصتا تاجرانہ نظروں سے ہی دیکھا جاتا ہے، خدا کرے کہ ہمارے اساتذہ ایکبار پھر پہلے کی طرح ہی سچے رہبر و رونما کا درجہ پالیں اور ہم علامہ اقبال کے ہم نوابن کر گنگنانے لگیں۔
شیخ مکتب ہے اک عمارت گر جس کی صنف ہے روح انسانی

غلام محمد دلشاد

دنیا کے تمام مذاہب ممالک اور اقوام عالم نے اپنے اپنے انداز اور الفاظ میں استاد کے مقام اور مرتبہ کو مقدم اور معظم جانا اور مانا ہے اور عالم انسانیت میں پائے گے اور پائے جانے والے بلند اقدار، اخلاق اور عظمتوں کو بدرجہ اتم پہنچانے میں استاد کے بنیادی کردار کو تسلیم کیا ہے۔”استاد” اس نام میں حکمت بھی ہے اور حرمت بھی حتیٰ کہ ہمارے پیغمبر کریم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے معلم بنا کر بیجھا گیا۔ حضور ﷺ نے فرمایا آپ کے لئے تین ابو/باپ ہیں۔ اول!، جو اپ کے اس دنیا میں آنے کا سبب بنا۔ دوسرا، جس نے آپ کو اپنی بیٹی بخشی اور تیسرا، جس نے آپ کو تعلیم دی۔فرمایا کہ تیسرا آپ کے لیے افضل ترین ہے۔استاد کے مقام کو بیان کرنے کے لئے ان سے زیادہ بہتر الفاظ نہیں مل سکتے۔ علامہ اقبال نے ہمارے لیے ایک مثال قائم کی ہے جب اس نے انگریزوں سے “سر”کا خطاب پاتے وقت کہا کہ پہلے میرے استاد کو اعزاز سے نوازے جس نے اقبال کو “اقبال” بنایا۔غرض ہر ایک سماج کے ہر فرد کو استاد کا احترام کرنا چاہئے کیونکہ سماج کا ایک ایک انسان بلواسطہ اور بلااوسطہ استاد کے رول سے مستفید ضرور ہوتا ہے

عبدالرحمان فدا

جُملہ انبیا کرام کے سوا دُنیا کی جن عظیم ترین شخصیات نے جو بھی عظیم ترین کارنامے انجام دئے وہ صرف اُن کے اُاستادوں کی بدولت ہے۔ کسی بھی میدان کسی بھی شعبے میں ایک انسان ایک قدم بھی آگے چلنے کے قابل نہیں ہے جب تک اُس میں اُس کے اُستاد کا عمل دخل شامل نہ ہو۔ خواہ تعلیمی میدان ہو یا اور کوئی شعبہ اُستاد کے بغیر ممکن ہی نہیں بلکہ نا ممکن بھی۔ اولیائے کا ملین نے جو روحانی مقامات طے کئے ہیں اُن میں اُن کے استادوں کی رہنمائی یقینی طور شامل حال ہے۔ اُستاد یا مرشد ایک ہی بات ہے ۔ ایک مختصر مثال کے ذریعہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ حضرت غوث الاعظم شیخ سید عبدالقادر جیلانی کو حضرت عماد، حضرت امیر کبیر میر سید علی ہمدانی کو حضرت شیخ شرف الدین محمد مزدگانی، حضرت سلطان العارفین کو حضرت جلال الدین بُخاری ، حضرت بابا دائود خاکی کو حضرت شیخ حمزہ، حضرت زین الدین ریشی کو حضرت شیخ العالم ، حضرت سید میرک شاہ کاشانی کو حضرت عبدالقدوس، رحمت اللہ علیہم اجمین کی تعلیم و تربیت سے ہی اعلیٰ مقامات حاصل ہوئے ہیں۔ اکثر و بیشتر بُزرگان دین اپنے مرشدوں سے کہیں آگے کے منازل طے فرما چکے ہیں مگر پھر بھی مرشد یا اُستاد کی رہبری کسی بھی حال میں نظر انداز نہیں کی جاسکتی ہے۔ الغرض والدین کے بعد قابل قدر اور قابل احترام رشتہ جو ہے وہ صرف اور صرف استاد کا ہے۔ اور اُس کی حق ادائی کبھی بھی ادا ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا ہے۔

غلام نبی پروانہ

استاد کے پیشے کو پیشہء پیغمبری مانا جاتا ہے کیونکہ پیغمبر اور استاد دونوں لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر اجالوں میں لاتے ہیں ۔ دنیا کے ہر ملک اور ہر سوسائٹی میں استاد کا کو اعلیٰ ترین مقام حاصل ہے استاد کو سماج کا معمار مانا جاتا ہے دیکھا گیا ہے کہ جب کوئی شخص انجانے میں یا جان بوجھ کر کسی غلطی کا مرتکب ہو جاتا ہے تو ناقدین اسکے استاد پر انگلی اٹھاتے ہیں مفکر استاد کو سنگ تراش مانتے ہیں جو اپنی ماہرانہ صلاحیتوں سے پتھر میں سے ایک ایسی مورت کو نکالتے ہیں جس کے سامنے مغرور سر بھی جھک جاتے ہیں دین اسلام میں ماں باپ کے ساتھ ساتھ اللّٰہ سبحان وتعالی سے استاد کے لیے بھی مغفرت مانگنے کا حکم دیتا ہے وہ اس لیے کیونک والدین کی گود کے فوراً بعد بچے کو استاد کی تربیت گاہ کے سپرد کیا جاتا ہے ہر دور میں ہر سماج نے استاد کی تعظیم کی ہے مگر آجکل نہیں ۔میرا ماننا ہے کہ آج کل کا استاد اسکے لئے خود زمہ دار ہے کیونکہ وہ دوسروں کی دیکھا دیکھی میں مادہ پرستی کے دلدل میں پھنس گیا ہے۔

ڈاکٹر عریف جامعی

استاد کو حکماء اور دانشوروں نے معاشرے کا معمار کہا ہے۔ ظاہر ہے کہ معمار کے ذمہ تعمیر ہوتی ہے، اس لئے استاد کے ذمہ بھی دراصل تعمیر ہی ہے۔ البتہ استاد کے ذریعے ہونے والی تعمیر کا وسیلہ تعلیم ہوتی ہے۔ لسانی اعتبار سے لفظ “تعمیر” اور “تعلیم” پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ دونوں الفاظ ایسے اعمال (کام) کو ظاہر کرتے ہیں جن میں تواتر، تسلسل اور استمرار کی ضرورت ہوتی ہے۔ یعنی نہ تو راتوں رات تعمیر کا کام ہوسکتا ہے اور نہ ہی تعلیم کے بار گراں کو بغیر کسی واضح منصوبہ بندی کے سر انجام دیا جاسکتا ہے۔ مادی تعمیر کی طرح اگر تعلیم کی پہلی اینٹ ٹیڑھی رکھی جائے، تو تعلیم کی پوری عمارت نہ صرف یہ کہ ٹیڑھی ہوجائے گی بلکہ اس کے دھڑام سے گرنے کا ہمیشہ خطرہ لاحق رہے گا۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ استاد اپنے پیشے (profession) میں ایسا تعمیری جذبہ (passion) شامل کرنے کی سعی کرے کہ معاشرے کی تعمیر صحیح خطوط پر ہوسکے۔
(ڈاکٹر عریف جامعی، استاد، محکمہ اعلی تعلیم) رابطہ: 9858471965
ای۔میل: alhusain5161@gmail.com

غلام رسول مشکور

استاد کے عظمت سے کوئی بے خبر نہیں۔ پہلا انسان جو دنیا میں آدم کے نام بھیجا گیا اسے علم سے نوازا گیا۔ تبھی سے آج تک پیغمبروں اور سکالروں کے ذریعے سے عوام الناس کو اخلاق و اوصاف حمیدہ اور علمی ذہانت میں ارتقاء کے لئے کوششیں جاری و ساری رہیں تاکہ ایک تہذیب یافتہ متمدن قوم پروان چڑھے ۔استاد اور تعلیمی اداروں کی ہی مرہون منت سے آج کے دور میں سماج سائنس، ٹیکنالوجی اور دیگر علوم میں ترقی کے اعلیٰ مراحل طہ کررہا ہے۔ جن خطوں میں استاد ذہین، مخلص بے لوث ،محنتی ،ایماندار انسان دوست رہے ہے وہ خطے آج بھی دنیا میں اوروں سے ہر شعبے میں بہت آگے ہے۔ایک آئیڈیل استاد ماں باپ کے رتبہ سے بھی افضل درجے کا مالک ہے۔استاد اور طلاب کا رشتہ باہمی اعتماد ،احترام و محبت پر مبنی ہو نتائج ہمیشہ مثبت ظاہر ہوتے ہیں۔واقعی استاد کو معمار قوم کے لقب سے نوازا جاتا ہے۔

سبزار احمد بٹ

اساتذہ قوم کے نہ صرف معمار بلکہ سب سے بڑے خیر خواہ اور ہمدرد ہوتے ہیں اساتذہ کا امین ہونا نہایت ضروری ہے کیونکہ قوم کا اہم ترین اثاثہ اساتذہ کے ہی سپرد ہوتا ہے اساتذہ کرام ہی اس نافہم طبقے کو فہم و فراست اور اگاہی سے روشناس کراتے ہیں۔ موجودہ وقت میں اساتذہ کرام کو وہ عزت اور احترام نہیں دیا جا رہا ہے جس کے اساتذہ کرام حقدار ہیں بے حد دکھ ہوتا ہے یہ جان کر کہ استادِ محترم کی مدد سے ہی چار حروف لکھنے والا شخص اپنے الفاظ کا استعمال ایک استاد کے ہی خلاف مختلف عوامی رابطہ سائٹوں پر کرتا ہے ۔میں گزارش کرنا چاہوں گا کہ معاشرے کو اساتذہ کی قدرومنزلت تسلیم کر کے اس طبقے کو عزت اور احترام سے نوازنا چاہئے تب جا کر ہمارا معاشرہ ترقی کی بلندیوں کو چھوئے گا اور ہم واقعی ترقی یافتہ کہلائیں گے۔میں اساتذہ سے بھی بے حد ادب سے گزارش کرنا چاہوں گا کہ وہ اپنی صلاحیتوں کا بھر پور استعمال کریں اور طلاب کے ساتھ ہمدردی اور محبت کا رشتہ استوار کریں۔کیوں کہ اس مقدس رشتے میں کہیں نہ کہیں دراڑ پڑتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے تاکہ اساتذہ اپنا کھویا ہوا مقام اور وقار پھر سے حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔شکریہ

واحد وحید

ایک سنہرا نام جس سے ہر کوئی واقف ھے۔ جس کو ہر کوئی عزت کی نگاہوں سے دیکھتا ھے اور دیکھنا بھی چاہیے۔ جس نے ملکوں قوموں کو بدلا ھے۔ جو ہر وقت اپنے شاگرد کو اپنے سے اونچا دیکھنا چاہتا ھے۔ جس کی ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ اپنے فرائض خوشاسلوبی سے انجام دے۔ان سب باتوں سے تو ہم سب بخوبی واقف ہیں لیکن کچھ خاص اوصاف ایک آدمی کے ہوتے ہیں جو اسے انسان اور پھر انسان سے استاد بنا دیتے ہیں۔
استاد کی چار آنکھیں ہوتی ہیں۔بھائی میں استاد کی بات کرتا ہوں کسی عام آدمی کی نہیں۔جی ہاں استاد کی چار آنکھیں ہوتی ہیں۔دو سے یہ خود دیکھتا ہے اور دو آنکھوں سے شاگرد بن کر دیکھتا ہے۔اور جب یہ شاگرد بن کر دیکھتا ہے تبی اس کے دل میں ایک آرزو جنم لیتی ہے۔ وہ اپنے شاگرد کو ستاروں سے آگے دیکھنا چاہتا ھے۔
اس کے چار ہاتھ بھی ہیں۔دو سے خود لکھتا ہے اور دو سے شاگرد کو لکھواتا ہے۔
دیکھا ہوگا آپ نے یہ کبھی چھوٹے بچے کی طرح بھی لکھتا ہے۔اس کے پیچھے بھی ایک راز ہے۔ یہ بچے کی نفسیات اور احساسات کوہمیشہ خوش دیکھنا چاہتا ھے۔اور جب انسان نفسیاتی طور پر خوش ہو اس کے سامنے کوئی بھی مقام پانا مشکل نہیں۔
استاد کے چار کان ہیں۔دو سے خود سنتا ہے دو سے شاگرد بن کر سننا پسند کرتا ھے۔ اور جب یہ شاگرد بنکر سنتا ہے تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ سی پھیلتی ہے جیسے یہ بچوں کے چھوٹے کاموں کو عظیم کارنامے سمجھتا ہے۔ایسی خوشی کا اظہار دنیا میں اور کوئی نہیں کرسکتا۔
استاد ایک ایسی ہستی ہے جس کے پاس جتنا بھی ہے وہ سب کچھ دیتا ہے اور اللہ کا کرشمہ دیکھئے اس کا خزانہ کبھی خالی نہیں ہوتا۔ یہ وہ ہیں جو خوشی سے دیتا ہے اور خوشی ان کا اجر ہوتا ھے۔ اس کی خوشی کا نظارہ اس وقت دیکھنے کو ملتا ہے جب یہ اپنے شاگرد کو کسی اچھے کام میں مشغول دیکھتا ھے۔
استاد وہ ہستی ہے جو کبھی بھی آپ کو اپنی حکمت تک محدود نہیں رکھنا چاہتا ۔ بلکہ آپ کو آپ کے دماغ کی دہلیز تک لےجانا چاہتا ھے۔
وہ چاہتا ہے آپ میں سے ہر ایک اپنی سمجھ میں منفرد ہو۔

غلام حسن طالب

یوں تو لوگ اُستاد یا معلم سے پڑھنے پڑھانے والا اور لکھنا سکھانے والا مراد لیتے ہیں۔ حقیقت میں اُستاد کے اس مفہوم پر تصدیق کی مہر خالق کاینات نے اس وقت ثبت کی ہے جب روح الامین کا خاص پیغام عرش سے فرش تک لیکر آئے تھے۔ غرض پڑھنے پڑھانے اور لکھنا سکھانے کے علاوہ استاد کا اہم اور بنیادی کام انسان سازی ہوتا ہے۔ تعمیر انسانیت اور کردار سازی کیلئے استاد کا خود ایک اچھا ور با کردار ہونا ضروری ہے۔ استاد کو دنیا کی بہترین ہستی تسلیم کیا گیا ہے۔ جب علامہ اقبال نے ایک بار شمس العلما خطاب کیلئے اپنے استاد میر حسن کا نام پیش کیا تھا، اراکین نے پوچھا ان کی کوئی تصنیف؟ علامہ اقبال نے جواب دیا ’’میں ہوں اُن کی تصنیف‘‘! کسی بھی انسان کی کامیابی کے پیچھے اچھے استاد کی تربیت کاار فرما ہوتی ہے۔ اخلاق کا سبق پڑھایا نہیں جاتا بلکہ دیکھ کر پکڑا اور اختیار کیا جاتا ہے۔ لہذا ایک استاد سے پڑھنا لکھنا سیکھنے کے دوران بچے اس کی سیرت اور صورت سے بہت کچھ تربیت پاتے ہیں۔ اس طرح سے وہ اپنے طالب علموں کیلئے رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے۔

( عابد حسین راتھر )

حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ کائنات کا ہر ایک ذرہ ایک اچھے استاد کے لیے دعائے مغفرت کرتا ہے بس اس سے اعلیٰ رتبہ اور اعلیٰ مقام کس انسان کا ہوسکتا ہے۔ اس اعلیٰ مقام کے ساتھ ساتھ سب سے زیادہ زمہ داریاں ایک استاد پر ہی عائد ہوتی ہے ۔ایک معاشرے کے اچھے یا برے ہونے کا دار و مدار ایک استاد پر ہی منحصر ہوتا ہے کیوں کہ معاشرے کی اصلاح کا بنیادی کام ایک استاد کے کاندھوں کا ہی بھوج ہوتا ہے۔ یوں تو انسان کے اندر فرشتہ صفات کے ساتھ ساتھ حیوانی جبلتیں بھی موجود ہوتی ہے۔ لیکن ایک استاد ہی وہ واحد ذات ہوتی ہے جو انسان کے ان فرشتہ صفات کو نکھار کر ایک انسان کو حیوانات کی صف سے نکال کر ایک با کردار ہستی بناتا ہے اور اس طرح ایک بہترین معاشرے کی تشكیل دیتا ہے۔ لہذا ایک استاد کا حق انسان زندگی میں کبھی بھی ادا نہیں کر سکتا ہے اسلئے استاد کو شاگرد کا حقوقی باپ بھی کہا گیا ہے۔ معاشرے کے باقی تمام اعلیٰ پیشہ ور لوگ ایک استاد کی محنت کا ہی پھل ہوتے ہے لہذا ایک معاشرہ میں سب سے زیادہ عزت کا مستحق ایک استاد ہی ہوتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے جس قوم نے بھی استاد کی عزت کی اس نے آسمان کی بلندیوں کو چھو لیا اور جو قوم استاد کی عزت کرنے سے قاصر رہا وہ قوم ہمیشہ تاریکی میں رہ کر پسماندہ ہی رہا۔ بد قسمتى سے ہم آجکل ديکھ رہے ہیں کہ آج کے سماج میں ایک استاد کو وہ مقام حاصل نہیں ہے جو پہلے ہوا کرتا تھا۔ اس معاملے میں استاتذہ کرام کی بھی کچھ کوتاہیاں ہیں اور کچھ بگاڑ ہمارے معاشرے میں بھی آیا ہے جسکی وجہ سے ایک استاد اور ایک شاگرد کے رشتے میں بہت ساری تبديلیاں رونما ہوئی ہیں جن کو سدھارنا وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ ایک استاد سماج میں اپنا کھویا ہوا مقام پھر سے حاصل کرے۔ بقول حضرت علیؓ میں اُس شخص کا غلام ہوں جس نے مجھے زندگی میں ایک لفظ بھی سکھایا ہو پھر وہ چاہے مجھے آزاد کرے یا قید میں رکھے

میسر ناشاد

استاد سکھانے والے کو کہتے ہیں ۔ اس لحاظ سے والدین ہی بچے کے پہلے استاد ہوتے ہیں جو بِنا کسی لالچ کے بہترین تربیت دینے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے ۔ اس کے بعد انسان کو دنیا سب کچھ سکھا دیتی ہے جو کہ ماں باپ سکھانا نہیں چاہتے ۔ ہر دور میں استاد کو معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا گیا مگر کشمیری سماج میں اسکے برعکس ہے ۔ ہر وہ انسان عظیم اور محترم ہے جس نے کسی کو کچھ سکھایا ہو جعلسازی ، دغابازی ، بےوفائی ، چغلخوری ، گالی گلوچ ، جھوٹ ، مکاری کو چھوڑ کر ۔ اللہ ہمیں ہدایت عطا فرمائے ۔

منتظر مومن وانی

استاد ایک ایسی ہستی کا نام ہے جس کے وجود سے ہی کائنات کے ہر چیز کا وجود ممکن ہے. استاد اس محسن کو کہتے ہے جو زندگی کے ہر نشیب وفراض کا سبق پڑھا کر انسان کو کائنات کے مشکل راہوں میں چلنے کا فن سکھاتا ہے. یہی وہ ذات ہے جسے امام کائنات محمد عربی ﷺ نے عظیم انسان کا لقب دیا ہے اور اپنی امت پر اس کا احترام انتہائی ضروری قرار دیا ہے۔جہاں پر ہر دور کی تاریخ میں استاد کی عزت اور عظمت کے بارے میں آب زر سے الفاظ قلمبند ہوئے ہے وہی پر موجودہ دور میں اس ہستی کے احترام میں کمزوری نظر آتی ہے جس کے لیے کئی نہ کئی موجودہ دور کا استاد بھی ذمہ دار ہے کیونکہ موجودہدور کے اکثر اساتذہ بردباری اور بالغ طبعیت میںکمزور نظر آتے ہیں. تربیت کی مکمل کمزوری کے سبب بھی ہم نے اساتذہ کے احترام کو نظر انداز کیاہے جس کے سبب یہ ہستی اپنا مقام کھورہی ہے۔موجودہ دور کے اساتذہ کو بھی اپنے حال کا جائزہ لینا چاہیے تاکہ وہ مقام پھر سے واپس آئےجس کی وکالت تاریخ کے ہر باب میں درج ہے.اللہ ہمارے اساتذہ کو سلامت رکھے اور جوموت کو لبیک کہہ کر چلے گئے ان کی مغفرت فرمائے۔

گل تنویر

استاد ھر ایک فرد کی زیست کا سرمایہ ہے۔یہ اندھیروں میں روشنی اور بکھری زندگیوں کا سہاراہے۔اگر استاد نہ ہوتے تو یہ زندگی نفی ہوتی۔ استاد ہر شخص کو تعلیم کے نور سے منور کرتاے۔ماں باپ کے بعد اس کی عظمت کو ہاد کیا جاتا ہے۔ جہالت سے دور رکھنا۔ بڑے بڑے عہدون پر فائض ہونا۔ ایوانوں۔ مجلسوں۔ درسگاہوں میں استاد کے دم سے ہی کار گاہ دنیا کا وجود جاویدو تابناک ہے۔استاد ایک ایسا جوھر ہے جس کی قیمت دنیا کی کوی بھی شے نیہں لگا سکتی ہے۔وزیر اعظم سے لے کر کلرک تک استاد کا سایہ بھار بن کر الجھنوں کو سنوارتا اور نکھارتاہے۔اسی کے سوز اور تربیت سے دنیا کی خوبصورتی باقی ہے۔ بچپن میں اس کی ڈانٹ جوانی کو شادابی اور آنکھوں کو روشنی میسر کرتی ہے۔استاد کے حوالے سے جتنا بھی لکھا جاے وہ کم ہے۔افلا طون سقراط۔عالم و فاضل ادیب و شاعر۔قلمکار۔استاد کی ہی دیں ہیں۔ افکار و فکر کی منزلوں سے گزر کر انسان اپنے آپ کو استاد کے رتبے کا ہی مرہون منت ہے۔اگر استاد نہ ہوتا تو ایک فرد کو انسانیت کہاں نصیب ہوتی۔ کاینات کو سمجھنے کی قوت کہاں سے آتی نشیب و فراز کو پھچاننا دشوار ہو جا تا۔ لکھنے پژھنے کے بغیر ایک فرد مانند حیوان ہوتا۔زندگیوں کو اجالا کرنے میں استاد کا رتبہ سب سے اعلی اور محترم ہے۔بقول شاعر ہوا پھولوں کی خوشبو سے مہکاتی ہے۔اور استاد دلوں کو سرشار کرتا ہے۔

سعید مسعود ہاشمی

انسان ییلہ ماجہ چھ زیوان سہُ چھُ آسان پنہ نہ پانہ تہ باقی تمام اندی پکی کیو ھالاتو نشہ بالکل بے خبر۔ وار وار ییلہ سہ ہوشس منز یوان چھُ یعنی سدبود تعمسنز چھ کیہنتانی آنیان تہ تمس چھ تجسُس پادہ گژۃان تہ ہیوان چھ شعوری تہ غا شعوری طور تہ معلوم کرن یہ نہ تمس معلوم چھ آسان۔ تہ امی ساتہ پیٹھ چھ اکس انسانس وستاد سنز ضرورت ۔ یتھ کنہ چھُ یی ننان زِ اگر نہ وستاد آسہِ اکھ انسان ہیکہ نہ یہ زندگی گزارتھی تہ کیاز تیلہ چھُ سہُ بالکل ان پڑھ۔ تہ اکہِ لہذہ چھ سہ گاشہ رُس یعنی آما۔ اتی چھ اندازہ سپدان وستادس کوتا تھوددرجہ چھ تھاواں تہ وستادس ورای چھُ یہ زندگی نہ آسنس برابر۔ لہذا پادہ کرن والی سند پتہ اگر یزت شوبہ یتھ زندگی منز سہ شوبہ وستادس۔ یمہ سنداسی ہمیشہ مرحون منت چھِ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں