عقیل فاروق
راقم الحروف آج سے ٹھیک پانچ سال پہلے اس وقت جونؔ ایلیا کے نام سے آشنا ہوا جب میرے چچا زاد بھائی مرتضی حسین نے موصوف کا یہ شعر سنایا ؎
کل دوپہر عجیب سی اِک بے دلی رہی
بس تیلیاں جلا کے بجھا تا رہا ہوں میں
اس حیرت انگیز شعر نے اس قدر متاثر کیا کہ یہ اُسی وقت زہن نشین ہوا اور اس کے خالق کا نام دریافت کرنے کی لگن سی پیدا ہوئی ۔ مرتضی شعر و شاعر کا شوقین ہے تو اُس نے زرا سہج کر بولا کہ یہ جونؔایلیا کا شعر ہے ۔ اس وقت بہت سارے سوالات زہن میں آئے کہ یہ جونؔ ایلیا کون ہے ، کہاں سے تعلق رکھتا ہے اور اُردو شاعری میں اس کا کیا مقام ہوگا۔ ایک لمہے کولگا کہ انگریزی زبان کے مشہور ادیب John Eliteشاید اُردو زبان کی طرف راغب ہوئے ہیں اور یہ اُن ہی کا شعر ہے ۔ پھر مرتضی سے جواب طلبی پر معلوم ہوا کہ موصوف پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک ہمہ جہت اور برگزیدہ شاعر گذرے ہیں۔ اس کے بعد انٹر نیٹ اور دیگر ذرایعہ سے اِن کے متعلق معلومات ، مواد اور کلام کھنگال کر نکالا اور ان کے پانچوں شایع شدہ شاعری مجموعوں کا مطالعہ کرتے کرتے جون ؔ ایلیا میرا پسند یدہ شاعر کب بنا ، اس بات کا پتہ ہی نہیں چلا۔
نام سیدسبطِ اصغرنقوی ،تخلص جونؔ ایلیا ۱۴ دسمبر ۱۹۳۱ء کو امروہہ اترپردیش میں پیدا ہوئے ، ان کا تعلق ایک ایسے خاندان سے تھا جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ، دین دار اور کئی پشتوں سے دادِ سخن پروری دے رہا تھا ، ان کے والدسید شفیق حسن ایلیا کو فن اور ادب سے گہرا لگاؤ تھا ، اس علمی ماحول نے جونؔ کی طبیعت پر ایسا اثر کیا کہ انہوں نے اپنا پہلا اُردو شعر محض 8سال کی عمر میں لکھا ؎
چاہ میں اس کی طمانچے کھائے ہیں
دیکھ لو سرخی میرے رخسار کی
جون ایلیا ِ ـ ِ ؔ لڑکپن سے ہی بہت حساس تھے ، ان کی ابتدائی شاعری ڈرامے کی مقالماتی فطرت کا تاثر تھی۔ ۱۹۵۷ء میں تقسیم ملک کے سبب انہیں امروہہ سے ہجرت کرکے کراچی جانا پڑا ، اور وہی سکونت پزیر ہوئے ، اسی اثنا ء میں وہ پورے پاکستان کے ادبی حلقوں میں چھا گئے ۔
جونؔ صرف شاعر ہی نہیں بلکہ ایک فلسی ،نقاد ، ادیب ، سوانح نگار ، مشاہد اور مترجم بھی تھے ۔ اتنا ہی نہیں وہ ایک بہت بڑے زبان دان بھی تھے ، اُن بیک وقت اُردو ، انگریزی ، عربی ، سنسکرت فارسی اور عبرانی زبان پر غیر معمولی مہارت حاصل تھی ۔ پاکستان کے مشہور شاعر شامل شمسِ جو کہ اِن کے شاگرد بھی رہ چکے ہیں ، رقم طراز ہیں کہ ’’ اُردو زبان کے مشہور ادیب مشتاق یوسفی نے بہت بار کہا بھی ہے اور لکھا بھی کہ جب ان کو اُردو زبان میں کوئی دقت پیش آتی تھی تو وہ جون ؔ صاحب سے رجوع کرتے تھے ، یہاں تک کہ بابائے اُردو مولوی عبد الحق بھی ان کے معترف تھے ۔
اِ ن کی شایع کردہ تخلیقات کی طرف توجہ مبذول کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اب تک اِن چھہ شاعری مجموعے اور ایک نژی تصنیف منظر ِعام پر ا ٓ چکے ہیں، جن کے نام ’’ شاید‘‘ یعنی ، گمان ’’لیکن‘‘ ’’گو یاـ ‘‘ ـــ ــــــــــــــــــــــ ’’راموز ‘‘ اور ’’فرنود‘‘ہیں ۔ فطرتاً سخنوری سخنور کے احساسات و جذبات کی ترجمانی اور عکاسی ہوتی ہے ـ،جو قاری کو بے حد متاثر کرتی ہے ، لیکن جونؔ ایلیا اس چیز کو ایک درجہ اوپر لے گئے ۔ انہوں نے اپنے زخم اپنی تکلیف اپنے دکھ کو اتنا اُجاکر کیا کہ ان کی شاعری پڑھ کر لوگوں کو تمنا ہونے لگتی ہے کہ کاش یہ برباد اور تکلیف دہ زندگی ہمیں بھی نصیب ہوجائے ۔ کاش یہ شعر ہمارے لئے بھی اتنے ہی متعلقہ ہوسکیں ۔ کاش اس طرح کی شاعری ہمارے لئے بھی بر موقع اور برمہل ہوجائے ۔ موصوف اپنے غیر روایتی یعنی Unconventionalانداز کی وجہ سے بھی بہت معروف ہیں اور یہی انداز انہیں اپنے ہم عصروں میں نمایاں اور ممتاز مقام عطاکرنے میں ایک امتیازی رول ادا کرتا ہے ؎
تم سے بھی تو جاچکا ہوں میں
دور ہادور آچکا ہوں میں
اب ببرشیر اشتہاہے میری
شاعروں کو تو کھا چکا ہوں میں
یہ بہت غم کی بات ہو شاید
اب تو غم بھی گنوا چکا ہوں میں
نہیںاملہ درست غالبؔ کا
شیفتہ کو بتا چکا ہوں میں
جہاں تک راقم نے جونؔ ایلیا کی شاعری کا مطالعہ کیا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی زندگی کی پیدا شدہ صورتحال کا اثر اِن کی شاعری میں نمایاں ہے ۔ اِن کی زندگی کا بیشتر حصہ رنج و غم ، درد و الم اور آلام و مصائب میں گزرا ۔ انہوں نے اپنی زندگی کی تلخ حقیقتوں کو شاعری کا سانچہ عطا کیا اور پھر ان کے اظہار کے لئے ایک ایسے اسلوب ، زبان و بیاں اور لب و لہجے کی بنیاد ڈالی کہ دیکھتے ہی دیکھتے ان کا نام اُردو شاعری میں بام ِعروج تک پہنچا ۔ موصوف نے کئی اصناف سخن پر طبع آز مائی کی ہے ۔ جن میں نظم ، قطعہ اور غزل خاص طور پر قابل ذکر ہے ۔ انہوں نے صنف غزل میں روایتی طرز اختیار کرنے کے بجائے روایت شکنی کی اور غزل میں اظہارِ خیال کے لئے ایک ایسے منفرد لب و لہجے سے کام لیا جو اِن سے پہلے اُردو غزل میںشا ید ہی کہیں مو جود تھا ۔ وہ لہجہ مکالماتی لہجہ ہے ۔ یوں جونؔ ایلیا نے اُردو غزل میں مقالماتی لہجے کی بنیاد ڈالی اور اس کے بانی بن گئے ۔
اِن کی یہ غزل مقالماتی لہجے کی ایک عمدہ مثال ہے ؎
گاہے گاہے بس اب یہی ہو کیا
تم سے مل کر بہت خوشی ہوکیا
اب میری کوئی زندگی ہی نہیں
اب بھی تم میری زندگی ہو کیا
میرے سارے طنز بے اثر ہی رہے
تم بہت دور جا چکی ہو کیا
ہاں فضایاں کی سوئی سوئی سی ہے
تو بہت تیز روشنی ہو کیا
کیا کہا عشق جادوانی ہے
آخری بار مل رہی ہو کیا
سہی معنوں میں شاعر کی شخصیت تب جلوہ گر ہوتی ہے جب اس کا ایک مصر اس کے شعر سے ، شعر اس کی غزل سے اور غزل اس کے پورے کلام سے مل کر جو شخصیت پیش کرتا ہے تب جاکر فیصلہ ہوتا ہے کہ شاعر کے شخصیتی نقوش کیسے ہیں یہ کس نویت کا ہے اور اس کی عزمت کیا ہے ۔ لیکن جونؔ کے یہاں معاملہ بالکل الگ ہے اِن کی شخصیت ، نویت اور عزمت کا مشاہدہ کرنے کے لیے قاری کو ان کی بہترین تخلیقات ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں پڑتی ، ان کے کسی بھی کلام کو اگر کہیں سے بھی کھولا جائے تو ان کی شخصیت کے ہلکے پھلکے نقو ش جلوہ گر ہوتے ہیں ۔ ان کا کلام قاری کو سوچ ، شعور اور احساس کی بلند ترین سطع پر لے جاتا ہے اور انسان کے زہن پر سکتہ طاری ہوتا ہے ؎
حالتِ حال کے سبب حالات حال ہی گئی
شوق میں کچھ نہیں گیا شوق کی زندگی گئی
عمر گزار دیجیے عمر گزار دی گئی
تیرے وصال کے لئے اپنے کمال کے لئے
حالتِ دل کی تھی خراب اور خراب کی گئی
بعد میں تیرے جانِ جان دل میں رہا عجب سماں
یا د رہی تیر ی یہاں پھر تیری یاد بھی گئی
صحنِ خیالِ یا رمیں کی نا بسر شب فراق
جب سے وہ چاند نا گیا ، جب سے وہ چاندنی گئی
موصوف کی شاعری منفرجہ ، متوسط اور استدلائی مضامین کا احاطہ کرتی ہے جس میں زندگی کے الگ الگ رنگ و روپ ابھر آتے ہیں ۔ بنیادی طور پر انسان کا وجود اس کے ’’ ہونے‘‘ سے ہے اور یہی ثبوت ہے کہ انسان اس کار گاہِ ہستی کا حصہ ہے اس معاملے میں جونؔ کا نظریہ حیرت انگیز ہے ، ان کے یہاں شروع سے آخر تک ’’ہونے‘‘ اور ’’ناہونے‘‘ کے تئیں خوب بحث ملتی ہے ، اور انہوں نے براہ راست کہا ہے کہ میں نہیں ہوں ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کس’’ناہونے‘‘ کی طرف اشارہ کررہے ہیں ، چنانچہ وہ سماج کے مرتب شدہ قواعد و ضوابط کے بے حد خلاف تھے اور یہ سارے قواعد و ضوابط توڑ کر منفرد اور آزاد زندگی گزارنے کے خواہاں تھے جس میں وہ ناکام رہے ؎
تم نہیں چاہتے میرا ہونا
چلو اچھا ہے میں نہیں ہوتا
کام مجھ سے کوئی ہوا ہی نہیں
بات یہ ہے کہ میں تو تھا ہی نیں
موصوف کی شاعری کا اہم وصف یہ کہ انہوں نے جس موضو ع کو بھی مستعمل میں لایا اس کا تیسرارخ پیش کیا ، اگر ایک تصویر کو لیا جائے تو اسکے دو رُخ ہوتے ہیں ،ایک رُخ وہ ہوتا ہے جو سامنے نظر آتا ہے اور تصویر پلٹتے ہی اس کا دوسرا رخ ظاہر ہوتا ہے ، تصویر کے یہ دو رخ پیش کرنے میں انسان کو کبھی کسی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ۔ نہ اس میں کوئی سماجی دباؤ سامنے آتا ہے اور ناہی روایتی ، انسان بڑی آسانی کے ساتھ یہ دو روپ ظاہر کرتا ہے لیکن دشواری تب پیش آتی ہے جب تصویر کا تیسرا رخ دریافت کرنا پڑے ۔ جون ؔصاحب کو اپنے ہم عصروں سے یہی بات ممتاز کرتی ہے کہ وہ تصویر کا تیسرا رخ دکھاتے ہیں ۔ شاعروں نے دوسرے روپ بہت دکھائے لیکن تیسرا روپ صرف اِ ن ہی کے یہاں نمایاں ہے چاہے وہ ہجر وصل کی بات کرے ثقافت و روایت اور تہذیب و سیاست زیر بحث لائے ، جس موضوع پر بھی بات کرے تیسرا رخ ابھر کر سامنے آتا ہے ۔
اِ ن کی ہمہ جہت شاعرانہ خصوصیات کی بنا پر بیسویں صدی کے معروف شاعر مجروح سلطان پوری نے انہیں ’’ شاعروں کا شاعر‘‘ قرار دیا ہے ۔ اسی طرح دیگر شعراء ادباء نے انہیں کئی خطاب سے نوازا ہے ۔ بڑی سے بڑی بات صاف ، سادہ ، سلیس اور عام فہم انداز میں کرنا جونؔ کا خاصہ تھا ۔ یہاں تک کہ ان کی پوری زندگی کا خلاصہ انکے ایک ہی شعر میں ہوتا ہے جو گزاری نہ جاسکی ہم سے
ہم نے وہ زندگی گزاری ہے
جونـ صاحب کی زندگی کے آخری بیس بائیس برس بے تحاشہ ابتر حالت میں گزرے جس کی وجہ ان کی اہلیہ زاہدہ حنا سے علٰحیدگی تھی یہاں تک کہ انہوں نے مینوشی بھی اختیار کی ، اور اسی عالم مِدہوشی میں8نومبر2002کو طویل علالت کے بعد اُردو ادب کے اس مایہ ناز سخنور نے د اعی اجل کو لبیک کہا ۔
کیا بتاوں کہ زندگی کیا تھی
خواب تھا جاگنے کی حالت کا
زندگی کی غزل تمام ہوئی
قافیہ رہ گیا محبت کا
ختم شد
مضمون:۔عقیل فاروق
متعلم : شعبہ اُردو کشمیر یونیورسٹی
فون نمبر :۷۰۰۶۵۴۲۶۷۰
93