سنو، محمد ہے نام ان کا 71

چُھوتے ہی جسم کو بن بیٹھا شرارہ پانی

غزل
ذکی طارق بارہ بنکوی

چُھوتے ہی جسم کو بن بیٹھا شرارہ پانی
اس نے جب میری طرف پیار سے پھینکا پانی

ایک مدت سے وہ، جو سوکھ چلا تھا پانی
غم ترا سن کے مری آنکھ سے نکلا پانی

ڈھالتا جاتا ہے ضوریز سے موتی جاناں
قطرہ قطرہ ترے بالوں سے ٹپکتا پانی

پوچھو مت لایا ہے بربادیاں کیسی کیسی
جب بھی مریادہ کی دہلیز کو لانگھا پانی

جس کی خنکی نے ترا لمس نوازا تھا مجھے
پھر کبھی ویسا کرم فرما نہ برسا پانی

یہ سدا جیتتا آیا تھا زمانے سے مگر
واسطہ جب پڑا مجھ سے تو ہے ہارا پانی

جامِ کوثر کے لئے بھی تو ضروری تھی پیاس
ورنہ میں ایڑی رگڑتا اور ابلتا پانی

شدتِ درد کی منزل سے گزر کر اکثر
ہم نے دیکھا ہے”ذکی” آگ کا بننا پانی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں