اس جہاں میں جانے کتنے آدمی کے چہرے ہیں 115

“گور کن “

پرویز مانوس

تم سارے اس شہر کے وہ باشندے ہو
جنہوں نے یہ منظر سارے دیکھے ہیں
کاندھا دے کرجن کو بھی تم لاتے تھے
اُن کی لحد تو میں ہی کھودا کرتا تھا
میں اس بستی کا وہ فردِ واحد ہوں
جس کا کام ہی مُردوں کو دفنانا ہے
شاید تم کو یاد ہو کتنے تھے۔۔۔۔۔۔۔لیکن
مجھ کو اب تک ٹھیک سے یہ بھی یاد نہیں
میں نے اب تک کتنی قبریں کھودی ہیں
اور اُن میں کتنے مُردے دفنائیں ہیں
ہاں بس اتنا یاد ہے کہ چھلنی اجسام
رات اندھیرے میں بھی کچھ دفنائے ہیں
جن کو کفن نصیب ہوا نہ اپنوں کا
نہ ہی کاندھے اپنوں کے کام آئے ہیں
مجھ کو یاد ہے سب میتوں کے سینوں پر
اپنے ان ہاتھوں سے مٹی ڈالی ہے
میں اس قبرستان کے چپے چپے سے
واقف ہوں اور ہر چہرہ پہچانتا ہوں
ہر تُربت کا نام مجھے اب ازبر ہے
لیکن اُن کے گھر والے تو آج تلک
کھوج رہے ہیں اُن کو بستی بستی میں
اُن کو کیا معلوم کہ یہ تو سوئے ہیں
خون کی موٹی چادر اوڑھے مٹی میں
وہ اب لوٹ کے واپس پھر نہ آئیں گے
اُن کی تو سانسوں کے دھاگے ٹوٹ چُکے ،،،،
آج بھی میرے سامنے ہے اک لاش پڑی
جس کےبازو، ٹانگیں گردن ٹوٹی ہیں
اور کتنے ہی چھید ہوئے ہیں سینے میں
جن سے خون کے قطرے ٹِپ ٹِپ گرتے ہیں
اور آنکھیں آسمان کی جانب تکتی ہیں
آج میرے ہاتھوں میں اتنی سکت نہیں
گھینتی، بیلچہ اور کُدال چلا کر میں
اس مُردے کی خاطر کھڈا کھود سکوں
اور دفناؤں اس کو اپنے ہاتھوں سے
میں!گورکن بھی کتنا بد قسمت ہوں
جس کے سامنے لاش ہے اور بے بس ہوں میں
شاید اس کا میرا کوئی رشتہ ہے
جس کو دیکھ کے کمر ہے میری ٹوٹ چکی
کانپ رہے ہیں ہاتھ یہ میرے
اور ٹانگوں میں جان نہیں
یوں لگتا ہے سر تا پا اک پاپ ہوں میں
وہ ہے بیٹا اور بدقسمت باپ ہوں میں
وہ ہے بیٹا اور بد قسمت باپ ہوں میں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں