ملکی بازارمیں کشمیری سیب کی مانگ کم،نرخوںمیں بھی کافی کمی
سری نگر:۱۲،جنوری//کشمیر ی پھلوں کے کاشتکاروں اورتاجروں نے ایرانی سیب کی درآمد پر پابندی کا مطالبہکرتے ہوئے وزیراعظم نریندرمودی سے کہا کہ وہ’میک ان انڈیا نعرہ کو برقرار رکھیں‘۔مالکان باغات اوربیورپاریوں کی تنظیم نے ’ایرانی سیب کی مبینہ غیرقانونی درآمد کوکشمیرکی میوہ صنعت پرکاری ضرب سے تعبیر کرتے ہوئے کہاکہ ایرانی سیبوں کی دستیابی کی وجہ سے منڈیوں میں کشمیری سیبوں کی مانگ کم ہوئی ہے۔انہوںنے یرانی سیب کی درآمدات پر پابندی عائد کرنے کامطالبہ کرتے ہوئے کہاکہ بیرون ملکی پھلوں کی مبینہ غیر قانونی درآمد نے وادی میں صدیوں پرانی سیب کی صنعت کو خطرہ میں ڈال دیا ہے۔جے کے این ایس کے مطابق کشمیر ویلی فروٹ گروورس وڈیلرس ایسوسی ایشن اور نیو کشمیر فروٹ ایسوسی ایشن کے صدر بشیر احمد بشیر نے یہاں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں ایرانی سیب کی سپلائی سے مارکیٹ میں کشمیری سیب کے نرخوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔انہوں نے بتایاکہ وافرمقدارمیںایرانی سیبوں کی دستیابی کی وجہ سے منڈیوں میں کشمیری سیبوں کی مانگ کم ہوئی ہے۔بشیر احمد بشیر نے کہا کہ ملک کی منڈیوں میں گزشتہ چند دنوں میں سیب کے نرخ 1200 روپے فی ڈبہ کم ہو کر 600 روپے تک پہنچ گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ سیب کے ایک ڈبے کی پیداواری لاگت 600 روپے ہے، اس کے علاوہ ٹرانسپورٹ چارجز فی ڈبہ 300 روپے ہیں,جی ایس ٹی12 فیصد سے بڑھ کر 18 فیصد ہو گیا ہے۔ انہوںنے متفکر لہجے میں سوالیہ اندازمیں کہاکہ اب ایک کاشتکار اپنی پیداوار کو اتنے کم نرخوں پر کیسے زندگی گزارسکتا ہے؟۔کشمیر ویلی فروٹ گروورس وڈیلرس ایسوسی ایشن اور نیو کشمیر فروٹ ایسوسی ایشن کے صدر نے کہا کہ بار بار درخواستوں کے باوجود، مرکز ی سرکارنے اس معاملے پر کوئی توجہ نہیں دی ہے، جس سے کشمیری سیب کے کاشتکار پریشان ہیں۔ انہوںنے کہاکہ ہم نے مرکزی وزیر زراعت سے ملاقات کی لیکن انہوں نے سپلائی روکنے کیلئے کوئی کارروائی نہیں کی۔ پھر ہم نے وزیر اعظم،اورلیفٹنٹ گورنرکے دفتر کولکھا، لیکن ابتک اسکابھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔بشیراحمدبشیر کے بقول خط میں،کشمیریپھلوں کے کاشتکاروں نے کہا تھا کہ ہندوستانی مارکیٹ میں آنے والے ایرانی سیبوں کو’بھیس بدل کر‘ افغانستان کے راستے روانہ کیا جاتاہیتاکہ جنوبی ایشیائی آزاد تجارتی علاقہ (سافٹا) معاہدے کے تحت صفر ڈیوٹی حاصل کی جا سکے،جس کے مطابق رکن ممالک ایک دوسرے سے درآمد نہیں کرتے۔انہوں نے کہا کہ اگر وزیراعظم نریندر مودی میک ان انڈیا کا نعرہ لگاتے ہیں تو پھر ہم باہر سے سامان کیوں درآمد کر رہے ہیں جب ہماری اپنی پیداوار ہے۔بشیراحمدبشیر نے کہاکہ وزیراعظم نریندرمودی کو اپنے ہی نعرے کو برقرار رکھنا چاہئے۔کشمیر ویلی فروٹ گروورس وڈیلرس ایسوسی ایشن اور نیو کشمیر فروٹ ایسوسی ایشن کے صدر نے کہا کہ باغبانی کی صنعت جموں و کشمیر کی معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور حکومت کو اس شعبے کی حفاظت کرنی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ یہ واحد شعبہ ہے جو ان تمام تر ہنگاموں میں زندہ رہا ہے۔ تقریباً 70 سے80 فیصد آبادی اس صنعت سے وابستہ ہے اور اس سے اپنی روزی روٹی کما رہی ہے۔بشیر احمدبشیرنے کہا کہ ان کی معلومات کے مطابق بہت سے لوگوں نے ایرانی سیب ممبئی اور چنئی کی بندرگاہوں پر پھینک دیتے ہیں جنہیں بعد میں وہ کشمیری سیبوں کے مقابلے ہندوستانی منڈیوں میں کم قیمت پر فروخت کرتے ہیں۔انہوںنے کہاکہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ ایران میں ایک کلو سیب کی قیمت 20 روپے ہے۔ لہٰذا، یہ لوگ سیب درآمد کرتے ہیں اور پھر اُنہیں یہاں کے سی اے اسٹورز میں پھینک دیتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ ایرانی سیب پر ٹیکس لگایاجانا چاہیے۔کشمیر ویلی فروٹ گروورس وڈیلرس ایسوسی ایشن اور نیو کشمیر فروٹ ایسوسی ایشن کے صدر بشیر احمد بشیر نے کہاکہ ہم وزیر اعظم نریندر مودی سے مداخلت کرنے اور بازار میں ایرانی سیب کی درآمد پر پابندی لگانے کی اپیل کرتے ہیں۔
79