راجہ یوسف
میری فریادرنگ لائی اوردو فرشتے میرے پاس بھیج دیئے گئے ۔ مجھے مریخ سے اُٹھایا گیا ۔ یہ مریخ کے ریتلے میدانوں میں انسان کا نیا کار نامہ تھا۔ صرف ایک ہزار سال پہلے جب ہم مریخ پر رہنے آیئے تھے تو یہاں پتھریلی زمین اوررتیلے میدانوں کے سواکچھ بھی نہیں تھا۔ پانی کا کہیں نام و نشان نہ تھا۔ ہم نے پتھریلے حصے میں آگ پیدا کرلی ۔آگ سے بھاپ اور بھاپ سے پانی بنا لیا۔ پھر رتیلے میدان میں مصنوعی بارش سے سبزہ اُگ آیا۔یہ کام ہم پانچ ہزار سال پہلے ہی چاند اور دوسرے کئی سیاروں پر کرچکے تھے۔تاریخ سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ جب پانچ ہزار سال پہلے زمیں انسان کے لئے کم پڑ گئی اور ہماری وجہ سے رہنے کے قابل بھی نہ رہی تو ہم نے چاند ستاروں پر کمندیں ڈال دی تھیں۔ان کو بھی آلودہ کرکے تب مریخ ہمارا مسکن بن چکا تھا۔ یہاں بھی اب ہم ایک ہزار سال سے رہ رہے ہیں لیکن اب لگ رہا ہے کہ مریخ کے بعد ہمیں کسی نئی کہکشان کی کھوج میں سر گرداں ہونا پڑے گا۔جب زمین کے اندرچھید پر چھید کرکے ہم نے ہزاروں میلوں کی مسافت کوکم کردیا، جس سے براعظموں کی دوریاں مٹ گیں۔ ہم نے بحرِالکاہل کے سمندر کو ہمالیہ کے سبھی سرسبزاور خشک پہاڑوں سے بھردیا، انٹارکٹکا کے یخ بستہ پانی سے افریقہ کے ریگستان نخلستان میں بدل دیئے تو یہ انسانی ترقی کی معراج تھی۔زمین کے بعدچاند ، خلا ء ، اڑوس پڑوس کے سیاروں کو ہم نے اپنا مسکن بنایا۔ کہکشان کو سیڑیوں کی طرح استعمال کیا اور مریخ تک جا پہنچے۔۔۔
دو فرشتے مجھے مریخ کی مخملی گھاس سے اٹھا کردودھیا بادلوں میں غوطہ دینے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے میرا تن اُجلے بادلوں کی طرح شفاف اور سفید دکھنے لگا۔ میں اپنے آپ کو ہلکا ہلکا سا محسوس کررہا تھا۔ پھر اوپر جا کرہم آسمان کی نیل گوں وسعتوں میںکھو گئے۔آگے جا کر کہیں روشنی کے رنگین ہالے جھلمل جھلمل کرتے میرے وجود کو روشن کرگئے تب میں خود کو دیکھ پایا۔پھر نورانی کرنیں ہماری سیڑیاں بنی اور اب جس مقام یا منزل پر ہم پہنچ گئے تھے اس کی تعریف یا تخصیص کرنے میں میری زبان گنگ تھی۔۔۔ بس ایک خوشگوار سکوت تھا۔ روشنیوں کا فرش تھا۔ روشنیوں کے دبیز پردے تھے اور سامنے سنہری مکیشی روشنی میں ہلکی نیلاہٹ کے ساتھ ساتھ قوسِ قزاح جیسے رنگ چھن چھن کر برس رہے تھے۔ جن کی طرف دیکھنا صرف محال ہی نہیں ناممکن لگ رہا تھا۔ میں نے ہزار بار دیکھنے کی کوشش کی لیکن ہر بار میری نظریں ان نورانی کرنوں سے چندھیاںگئیں تھیں۔ یہاں فرشتوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ کچھ کھڑے تسبیہ میں مشغول تھے۔ کچھ آرہے تھے اور کچھ جا رہے تھے۔ ہر طرف پرُسکوں اور راحت بخش ماحول تھا۔ جس میں میںبذاتِ خود موجود تھااور سوچ بھی رہا تھا۔ سامنے نورانی روشنی سے ایک آواز آئی جو میری سماعت کو بہت خوشگوار لگی۔
’’ اے آدم یہ تیری فریاد کیسی ہے۔؟ ایسی فریاد تو اب عنقا ہے۔ تم تو اب دعا کرنا بھی بھول چکے ہو۔ پھر تیری یہ فریاد کیسی ؟ جونہی تمہاری یہ فریاد ہم تک پہنچی ۔ ہم نے اسی وقت تم کو طلب کیا ہے۔ا ب بتاو کیا تم ہمارے قریب آکر بھی ایسی ہی خواہش رکھتے ہویا تم نے اب اپنا ارادہ بدل دیا ہے۔؟‘‘
’’ نہیں میرے مولا۔ میرے ارادے میں کوئی تغیر، کوئی تبدیلی نہیں آرہی ہے۔ میری اب بھی یہی فریاد ہے۔‘‘’’تم نے تو کب سے میری حکمِ عدولی شروع کی ہے۔اپنی حکمت اور اپنی شریعت نافذ کردی ہے۔ ساری کائنات کو اپنی میراث سمجھنے لگے ہو۔ اپنی تحقیق اور ترسیل پر نازاں ہو۔ اپنی نئی نئی تحقیقات کے لئے کوشاں ہو۔ ساری کائنات کو تسخیر کرنے کی دُھن میں میرے ساتھ ساتھ خود کو بھی بھول چکے ہو۔۔۔ اورآج تیرے لبوں پر یہ کیسی حیران کن فریادہے۔؟‘‘
’’ میرے مولا ۔۔۔میں ، ہم انسانوں کے لڑائی جھگڑے اورمرنے مارنے کی بات نہیں کررہا ہوں۔ مذہبی تعصب، فرقہ پرستی، سماجی نابراری اونچ نیچ کی غیر مہذبانہ لڑائیاں اُن سے بھی پریشان نہیں ہوں۔ یہ تو ہر دور میں ہوتا آرہا ہے۔ ہزاروں لاکھوں برسوں سے ایک انسان دوسرے انسان پر اپنی برتری دکھا رہا ہے۔ اپنے ظلم سے دوسرے کو دبارہا ہے۔ہم نے سائنس اور تحقیق میں عروج پایا۔ زمین کی تہہ تک پہنچ گئے اور آسمانوں کو کھنگالا۔ موت کو بس میں کرلیا اور زندگی کو امر بنایا۔ اس بھاگ دوڑ میں زمین کم پڑگئی توہم چاند پر پہنچ گئے۔ چاند چھوٹا پڑگیا توہم نے کہکشان کو پیروں تلے روندا۔ ہم نے چاند تاروں، مریخ یہاں تک کہ سورج کی طرف بھی قدم بڑھائے۔ مجھے ان چیزوں کی بھی پروا نہیں ہے۔ میں تو بس ایک بات کے لئے پریشان ہوں۔ آپ نے جو اپنی اس کائنات کو ایک جہت دی تھی۔ ایک محور دیا تھا۔ جس کے گرد تیرا یہ سارا کارخانہ چل رہا تھا۔ہم نے اسے آلودہ بنادیا۔ اس کا توازن بگاڑدیا۔ یہاں کی کوئی بھی چیز اب اپنے راستے پر نہیں چل رہی ہے۔سب الٹا پڑ رہا ہے۔ہم نے سب سے پہلے آپ کی دی ہوئی زمین کو خراب کردیا ۔ پھر چاند، پھر تارے اب مریخ۔ تمہاری ساری کائنات کا حقیقی توازن بگڑ رہا ہے۔ اسے جو نتائج سامنے آرہے ہیں وہ سب بھیانک ہیں۔خوفناک ہیں۔ اب ہم مر نہیں رہے ہیں ، انسان ہزاروں سال تک جی رہا ہے۔ ہمارے اعضا ء کٹ رہے ہیںتو ہم منٹوں میں پیوند کاری کرکے نئے اعضاء بنا لیتے ہیں۔ بیماریاں اور طاعون ہم سے ڈر کے کہیں اندھیرے غاروں میں چھپ گئے ہیں۔ کوئی مریخ پر گھر بنا رہا ہے تو کوئی چاند پر، کوئی خلاء میں چھپ رہا ہے تو کوئی سمندر میں۔ لیکن ہم جئے جا رہے ہیں۔اب ہم اتنے زیادہ ہوگئے ہیں کہ تمہاری ساری کائنات چھوٹی پڑ رہی ہے۔ سورج، قمر اور تارے اپنا محور بدل رہے ہیں۔ سمندروں کے سوتے خشک ہوگئے ہیں۔ آسمان سمندروں سے زیادہ پانی برسا رہا ہے۔ زمین اب اناج کے بدلے سونا چاندی اور ہیرے اگل رہی ہے۔‘‘
’’ بس بس اب تیرا بہت سن لیا ہے۔ تم کیا سمجھتے ہو جو کچھ تم میری کائنات میں کررہے ہو میں اسے غافل ہوں۔ غافل تو تم لوگ ہو۔ میں دیکھ بھی رہا ہوں اور سن بھی رہا ہوں۔ اب تم مختصراََ بتادو تم کیا چاہتے ہو۔‘‘
’’ میرے مولا میں تو اتنا سمجھ گیا ہوں کہ
گردشِ شام وسحر یوں ہی نہیں
پسِ پردہ تو کوئی ذات لگی
بس وہ ذاتِ واحد ، وہ حقِ معبود اپنی کائنات کو پھر سے اپنی ڈگر پر لائے۔ یہ پھر سے اپنے محور پر گھومتی رہے اس کا بگڑا توزن پھر سے بحال ہوجائے ۔ عمر جاویداں جیسا غیر فطری نظام ختم ہو جائے ۔ اور انسان پہلے کی طرح ہی مرتا رہے۔ ‘‘
مجھے اپنے ارد گرد لطیف سے تبسم کا احساس ہورہا ہے۔ جیسے میرے مولا نے میری بات پر ہلکا سا مسکرا دیا ہو۔ میرے انگ انگ میں مسرت اور جوش بھرگیا۔ میں نے جذبات میں آکر کہہ دیا۔
’’ میرے مولا اب آپ نئے سرے سے ہی کُن کہہ دیجئے ۔۔۔‘‘
تھوڑی دیر کے لئے خاموشی چھا گئی۔میں نے محسوس کیا میرے ارد گرد آتے جاتے اور تسبیہ میں مشغول سارے فرشتے رک گئے ہیں۔ میرے ساتھ کھڑے دونوں فرشتے حیرانی کے ساتھ میری طرف دیکھ رہے ہیں۔ جیسے قوسِ قزا ح کے رنگ بکھرا گئے ہوں۔ نورانی فرش ہل رہا ہو۔ روشنیاں سارے ماحول کو چکا چوندکررہی ہیں اور مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے میرے مولا نے’’ کن ‘‘ کہہ دیا ہو اور ’’ فیکون ‘‘ کا عمل جاری ہوگیا ۔ میں تحلیل ہورہاہوں۔ لیکن تحلیل ہوتے ہوتے مجھے اپنی فریاد پر افسوس ہورہا تھا ۔ کیا پتا اس کن فیکون کے بعداب جو نئی کائنات وجود میں آئے گی اس میں آدم کا ظہورہوگا بھی کہ نہیں ۔۔۔ اب جیسی بھی تھی یہ کائنات میری تھی اور میں اس کا واحدوارث تھا۔
55