53

ہمیں کرگل اور لیہہ کے لوگوں سے سبق سیکھنا چاہئے

نئی دلی کی طرف سے جموں وکشمیر کی آوازکو تقسیم کرنے کی سازشیں آج بھی جاری : عمر عبداللہ
سرینگر /14دسمبر/سی این ایس/ نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ ’’ہمیں کرگل اور لیہہ کے لوگوں سے سبق سیکھنا چاہئے، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کرگل اور لیہہ کے لوگ ایک ہی سٹیج پر بیٹھ کر بات کریں گے، لیکن آج وہ ایک ہی آواز میں بات کرتے ہیں۔ کل جس طرح سے دونوں اضلاع میں مطالبات کو لیکر جو ہمہ گیر ہڑتال دیکھنے کو ملی وہ نہ صرف ہمارے لئے مشعل راہ ہے بلکہ مرکز کیلئے بھی چشم کُشا ہونی چاہئے۔‘‘ ان باتوں کا اظہار انہوں نے تنظیمی انتخابات کے بعد ضلع سطح پر ورکروس کنونشنوں کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے گاندبل میں پارٹی عہدیداروں اور کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ پارٹی جنرل سکریٹری حاجی علی محمدساگر، سینئر لیڈر میاں الطاف احمد، صوبائی صدر ناصر اسلم وانی ،وسطی زون صدر علی محمد ڈار اور ضلع صدر حاجی غلام نبی راتھر نے بھی کنونشن سے خطاب کیا۔ عمر عبداللہ نے اپنا خطاب جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’’لیہہ والے بہت عرصے سے یوٹی یوٹی کا مطالبہ کرتے تھے اور وہ کہتے تھے کہ کشمیریوں نے ہمارا سارا حق کھایا ، اگر چہ ہم نے اُن سے بار بار کہا کہ جو کچھ آپ کے پاس ہے اُس کی قدر اور حفاظت کیجئے لیکن اُن کو سمجھ نہیں آیا اور جس دن دفعہ370کا خاتمہ ہوا وہاں پٹاخے سرکے گئے ،مٹھائیاں بانٹی گئی اور جشن منایا گیا اور کہا گیا کہ ہم آزاد ہوگئے اور یہ ایک نئی شروعات ہے لیکن کچھ عرصے گزر جانے کے بعد ہی اُنہیں معلوم پڑ گیا کہ دفعہ370کے جانے سے اُن کو کتنا نقصان ہوا ہے ۔ دو سال کے اندر اندر اُن کو سمجھ آگیا کہ اُن کو کچھ نہیں ملا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ جو لوگ کل تک یو ٹی کیلئے لڑ رہے تھے وہی آج ریاست کی مانگ کررہے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمیں اسمبلی دی جائے، ہمیں وہ تمام اختیارات دیئے جائیں جو دفعہ370کے تحت حاصل تھے ،ہمیں آئینی حفاظت دیا جائے اور اس کیلئے وہ کرگل کے لوگوں کے ساتھ مل کر جدوجہد کررہے ہیں‘‘۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ ’’ہم بھی چاہتے تھے کہ ہماری آواز متحدہ رہے اور اس کیلئے نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے ہر ایک جماعت کے لیڈر کو ساتھ لایا، مقصدکرسی حاصل کرنا نہیں تھا، مقصد اقتدار حاصل کرنا نہیں تھا، مقصد وزیر اعلیٰ بننے کا نہیں تھا ، مقصد صرف یہ تھا کہ جموں و کشمیر کے عوام کی بکھری ہوئی آواز کو درست کیا جائے اور اسے مضبوط کیا جائے، لیکن وہ بھی ہمارے کچھ مہربانوں کو پسند نہیں آیا، پہلے اتحاد میں آئے اور پھر چلے گئے ۔ مرکز نے اس اتحاد کو توڑنے کی سازشیں بھی کیں اور یہاں کے کچھ لوگ بھی آگے نکلنے کی سوچ لیکر اس اتحاد سے علیحدہ ہوگئے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ کبھی نہیں کہا کہ یہاں پر اقتدار کا حق ایک ہی جماعت یا ایک ہی خاندان کو ہے لیکن ہم اس بات کے بھی حامی نہیں کہ غیر جمہوری طریقوں سے اقتدار حاصل کیا جائے۔ ’’لوگوں کو سچ بول کر اور سچ کی بنیاد پر لوگوں سے ووٹ مانگئے، اگر آپ جیت گئے تو بے شک آپ اقتدار پر براجمان ہوجائے لیکن جھوٹ اور دھوکے کی بنیادو اور لوگوں کو گمراہ کرنے سے آپ نہ صرف اس ریاست کے لوگوں کے ساتھ دھوکہ کررہے بلکہ آپ خود کو بھی دھوکہ دے رہے ہیں اور پھر اس کاخمیازہ ریاست کے لوگوں کو بھگتنا پڑتا ہے‘‘۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ ابھی بھی ہماری کوشش یہی ہے کہ ہماری آواز بکھر نہ جائے، ابھی بھی ہماری یہی کوشش ہے کہ ہم ایک متحدہ فرنٹ کے ذریعے 5اگست2019کو چھینے گئے حقوق کیلئے ایک آواز میں بات کریں۔ انہوں نے کہا کہ ’’میں نے لوگوں کو ہوشیار کرتا تھا اپنے ووٹوں کو تقسیم مت ہونے دو،آپ کی آواز کمزور ہوجائیگی، اگر آپ نیشنل کانفرنس کو پسند نہیں کرتے ہو تو کسی دوسری جماعت کی رسی پکڑو لیکن تقسیم مت ہو، بدقسمتی سے دلی کی لگاتار یہی کوشش رہی ہے کہ ہم تقسیم ہوجائے، کبھی ایک جماعت تو کبھی دوسری جماعت تو کبھی تیسری جماعت کو کھڑاکیا گیا اور آج بھی یہی کوشش ہے، روز نئی جماعت اور ہر کسی کا نشانہ صرف نیشنل کانفرنس ، بجائے یہ کہ وہ مرکز کی مخالفت کریں ، بجائے یہ کہ وہ موجودہ حکومت کی مخالفت کریں ، بجائے یہ کہ وہ موجودہ انتظامیہ کے بارے میں کچھ کہیں ،ان کی زبانوںپر صرف نیشنل کانفرنس کی مخالفت ہوتی ہے، ایسا کیوں؟ کیونکہ نیشنل کانفرنس کی مضبوطی نئی دلی کو راس نہیں آتی، اور اس مخالفت کا مقصد یہی ہے کہ ہم کسی طرح بکھر جائیں۔رنگریٹ اور زیون واقعات پر مرکزی حکومت کو ہدف تنقید بناتے ہوئے این سی نائب صدر نے کہاکہ 5اگست2019کو اعلان کیا گیا تھا کہ دفعہ370ختم ہوگا تو بندوق ختم ہوجائیگا اور خوشیوں کی لہریں آئینگی، امن و امان ہوگا اور علیحدگی پسند سوچ ختم ہوجائیگی اور یہی شوشے پوری دنیا میں پھیلائے گئے۔ اگر یہ دعوے صحیح تھے تو کل رنگریٹ میں انکائونٹر کیسے پیش آیا؟ زیون میں پولیس کے جوانوں سے بھری بس پر حملہ کیسے ممکن ہوپایا؟ اور کپوارہ میں بی جے پی لے عہدیداروں اور ذاتی محافظ بندوقیں لیکر کیوں فرار ہوگئے؟ان سوالوں کے جواب کون دے گا؟ کنونشن میں دیگر لوگوں کے علاوہ پارٹی لیڈران تنویر صادق، سلمان علی ساگر، احسان پردیسی، سارا حیات شاہ، یوتھ زونل صدر مشتاق احمد میر، یوتھ ضلع صدر شیخ گوہر ،ضلع صدر خواتین ونگ کونثر مجید ، ضلع صدور اور ڈی ڈی سی ممبران بھی موجود تھے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں