آزاد قیدی..۔۔۔۔۔۔۔۔مغربی مورال پر کراس 50

افسانہ’’میں کیا کروں۔۔۔۔؟‘‘ ایک تجزیہ

تجزیہ نگار:ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری

ڈاکٹر نذیر مشتاق ایک سینئر ڈاکٹر ہیں ۔کئی دہائیوں سے مختلف قسم کے امراض میں مبتلا افراد کا علاج معالجہ کرنے کے دوران ان کی خصوصی توجہ نفسیاتی امراض کی علامات پرمرکوزرہتی ہے ۔کیونکہ نفسیاتی بیماری ایک وائرس کی طرح نظروں سے اوجھل (Invisible) ہوتی ہے۔ اسلئے نفسیاتی امراض سے متعلق کہا جاتا ہے کہ ’’یہ ایسے ناسور ہوتے ہیں جو اگرچہ جسم پر دکھائی نہیں دیتے لیکن رستے زخموں سے زیادہ گہرے اور مضررساں ہوتے ہیں ۔‘‘
”There are wounds that never show on the body that are deeper and more
hurtful than anything that bleeds.” (L.K. Himilaton)
چونکہ نذیر مشتاق صاحب طبی ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک افسانہ نگار بھی ہیں ۔ ان کے جو افسانے یا افسانچے نفسیاتی مسائل کو کہانی کا حصہ بناتے ہیں ‘ان میں’’میں کیا کروں‘‘’’دوسرا شوہر‘‘ ’’میں نشے میں ہوں‘‘’’پہلا مریض‘‘ ’’شرمیلا بابا‘‘ ’’زندہ مردہ‘‘ ’’کھیل‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔اس نوعیت کے افسانوں میں زیادہ تر نفسیاتی مسائل کی علامات (Symptoms of psycho -problems) پرزیادہ ارتکاز نظر آتا ہے اور قاری اس خطرناک مرض کی بنیادی وجوہات سے بھی واقف ہوجاتا ہے۔اس طرح یہ افسانے سماج کے ایک اہم مسئلے کو ڈسکورس بناکر کئی مریضوں کے لئے ادبی سائیکوتھراپی (Literary psycho therphy) کا کام انجام دیتے ہیں‘ جس کااعتراف کئی لوگوں نے رسائل اور اخبارات میں ان افسانوں یا افسانچوں کو پڑھ کر کیا ہے۔جس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ مقصدی ادب سماج کی تعمیر میں بھی اہم رول ادا کرتا ہے۔اس تعلق سے موصوف کا افسانہ’’ میں کیا کروں۔۔۔؟‘‘زیر گفتگو رہے گا۔اس افسانے کا کردار نفسیاتی مرض میں مبتلا ہوتاہے اور اس کا بنیادی سبب اچھی ہنرمندی سے کلائمکس میں اجاگرکیاگیا ہے۔
افسانے کے مرکزی کردار’’ڈاکٹر‘‘ اور ’’نفسیاتی مریضہ۔۔۔گلنار ‘‘ہیں۔موضوع کے مطابق عنوان ’’ میں کیا کروں۔۔۔؟ استفہامیہ نوعیت کا حامل ہے یعنی کوئی انسان اتنا پریشان ہے کہ وہ بے بس ہوکر یہ پوچھنے پر مجبو ر ہوجائے کہ ’’میں کیا کروں؟۔اس کے بعد کہانی شروع ہوجاتی ہے۔ ڈاکٹر کے چیمبر میں دوالماریاں ہوتی ہیں جن پر A اور B کا لیبل چسپاں ہوتا ہے۔A لیبل کی الماری شفایاب مریضوں کی فائلوں کے لئے مختص ہوتی ہے جبکہ Bلیبل والی الماری ‘لاعلاج یا جو شفایاب نہیں ہوتے ہیں‘ کے مریضوں کی فائلوں کے لئے مخصوص ہوتی ہے۔ایک دفعہ ڈاکٹر ایک مریضہ کی فائل نا چاہتے ہوئے بھی Bلیبل کی الماری میں رکھنا چاہتا ہے ۔یعنی ڈاکٹر بھی الجھن کا شکار ہے کہ وہ مریضہ کا علاج کرنے میں ناکام کیوں ہورہا ہے۔وہ سوچتا ہے:
’’جانے مجھے کیوں ایسا لگ رہا ہے کہ میں اس مریض کی بیماری کی تہہ تک نہیں پہنچ سکا۔مجھ سے کوئی
کوتاہی ہوئی یا پھر مریض نے مجھ سے کچھ چھپایا۔‘‘
افسانے کا یہ خیال کہانی کے مرکزی موضوع کی طرف اشارہ کررہا ہے۔ڈاکٹر اپنے تجربے اور مریض کے احوال کے بارے میں اضطراب میں پڑجاتا ہے کہ ’’کیا اس نے سچ کو پردے میں رکھا۔۔۔؟‘‘اس کے بعد ہر اس مایوس مریض کی طرح جو کسی ڈاکٹر کے پاس جاکر علاج کی آس لگائے بیٹھتا ہے کہ ڈاکٹر اسے ضرور ٹھیک کرے گا‘ لڑکی کی اسی امید کے بارے میں ڈاکٹر سمجھتاہے کہ ’’جانے کیوں مجھے اس لڑکی کے ساتھ عجیب سی ہمدردی ہوگئی ہے اور اسے بھی مجھ میں ایک ہمدرد مسیحا نظر آنے لگا تھا۔‘‘
اب افسانہ تخیل کی طرف بڑھتا ہے یہاں پر افسانہ نگار تخلیقی اسلوب میں لڑکی کے سراپے کی فنی عکاسی کرتا ہے یعنی اس کا خوبصورت لباس‘ کالی گھنیری زلفیں‘ رخساروں کی گلابی رنگت وغیرہ ۔افسانہ بنیادی موضوع کی طرف اس وقت اشارہ کرتا ہے جب لڑکی پہلی بار ڈاکٹر کے سامنے میز پر رسپشن سے لیا ہوا کارڈ رکھتے ہوئی کہتی ہے کہ ’’ڈاکٹر صاحب میں شدید ڈپریشن میں مبتلا ہوں‘میری مدد کیجئے میرا مطلب ہے میرا علاج کیجئے۔‘‘یہ سن کر ڈاکٹر مسکراتے ہوئے پوچھتا ہے کہ آپ کو کیسے معلوم کہ آپ شدید ڈپریشن میں مبتلا ہیں۔‘‘ا س سوال کے بعد لڑکی ڈپریشن کی ساری علامتیں بتاتی ہیں اور ڈاکٹر کوبھی یہ سن کراحساس جاتا ہے کہ یہ ڈپریشن کی زد پر ہے۔
اس کے بعدافسانہ ڈرامائی انداز سے ٹرن کرتا ہے اور ایک ذیلی کردار اسسٹنٹ محمد زمان سامنے آتا ہے جو جاسوس ایم زڈ کے نام سے کلینک میں مشہور ہوتا ہے۔اس کے ذمہ رازدارانہ انداز سے نفسیاتی مریضوں کی نجی‘سماجی اور گھریلوں حالات وواقعات کی تفصیل جمع کرکے ڈاکٹر تک پہنچانا ہوتی ہے‘جس سے ڈاکٹر کو بھی مریض کے علاج اور کونسلنگ میں مددملتی ہے۔مریضہ کی گھر اور یونیورسٹی کی پوری معلومات حاصل کرکے جاسوس ایم زیڈ کو دی جاتی ہے۔چند دن گزرنے کے بعد جاسوس گلنار کے بارے میں ساری تفصیل جمع کرکے لاتا ہے کہ وہ شہر کی پوش کالونی کے ایک بڑے بزنس مین کی بیٹی ہیں‘یونیورسٹی میں ایم اے کرتی ہیں۔وہاں پر اس کا کوئی دوست نہیں ہے۔ان کا مشترکہ خاندان ہے۔جس میں ان کے والدین کے علاوہ ان کا چچا بھی رہتا ہے۔دونوں بھائی شہر کے معروف پشمینہ تاجر ہیں۔ ان کا کاروبار کشمیر سے لیکر دنیا کے کئی ممالک تک پھیلا ہوا ہے۔ان کا والد اور چچا دینی احکامات کے پابند ہیں ۔چچا مقامی مسجد کا صدر اور امام کی غیر حاضری میں امامت کے فرائض بھی انجام دیتا ہے۔ بستی کے لوگ دونوں بھائیوں کوفرشتے سمجھتے ہیں۔گلنار کا ہمسایوں سے کچھ زیادہ میل جول نہیں رہتا ہے ۔ان کے گھر میں بھی کوئی ذہنی مریض نہیں ہے وغیرہ۔
تکنیکی سطح پر دیکھیں تویہ تفصیل بتانے کے لئے افسانہ نگار نے جاسوس ایم زڈ کا کردار عمدہ فنکاری سے خلق کیاہے نہیں تو اگر یہ سب کچھ مریضہ کی زبانی بیان کیا جاتا تو افسانے کا یہ حصہ ایک اخباری رپورٹ جیسا ہوتاجو کہ پلاٹ میں سقم پیداکردیتا۔ایک ہفتہ گزر جانے کے بعد جب گلنار دوبارہ کلینک پر حاضر ہوجاتی ہے تو ڈاکٹر کی سائیکو تھراپی شروع ہوجاتی ہے اور وہ ہر سوال کا جواب واضح انداز سے دیتی رہتی ہیں۔ دوماہ تک اس کی پازیٹو سائیکو تھراپی ہونے کے باوجود اس کے ڈپریشن میں کوئی خاص کمی نہیںآتی ہے۔یہ دیکھ کر ڈاکٹر بھی پریشان ہوجاتا ہے کہ گلنار کی بیماری میں کوئی کمی کیوں نہیں آجاتی ۔ایک دن جب ٹرافک جام کی وجہ سے ڈاکٹر کلینک دیر سے پہنچتا ہے تو یہ سن کر مایوس ہوجاتا ہے کہ گلنار خفا ہوکر وہاں سے چلی گئی ہے۔اب ڈاکٹر اس کے کیس پر دوبارہ غور کرنے پراس نتیجے پر پہنچنے ہی والا ہوتا ہے کہ اس فائل کو Bلیبل کی الماری میں رکھا جائے تو اسی دوران لڑکی کی کال آتی ہے اور وہ دوسری باتوں کے علاوہ اپنے ڈپریشن کی اصلی جڑ کا اظہار کرتی ہے۔اب افسانہ ایک ایسے سماجی موضوع کی طرف قاری کی توجہ مبذول کرتا ہے جس کو پڑھ کر انسان سکتے میں آجاتا ہے۔انسان سوچتا ہے کہ کیا کوئی انسان ایسا بھی ہوسکتا ہے جو لوگوں کی نظروں میں فرشتہ اور نائب امام بھی ہے۔لڑکی اپنے ڈپریشن کی بنیادی وجہ کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہے:
’’وہ میرا چاچو ہے۔۔۔۔وہی میری ڈپریشن کا ذمہ دار ہے۔۔۔اب آپ ہی بتائے کہ میں کیا کروں۔۔۔۔؟‘‘
اس طرح سے افسانہ قاری کے سامنے سوال کھڑا کرتا ہے کہ ایک ایسا سماج جہاں پر ایسے حیوان صفت لوگ موجود ہوں جو بظاہر دینی احکامات کی پابندی کرتے ہوئے فرشتہ صفت نظرآتے ہیں لیکن نجی زندگی میں کتنے سیاہ کار ہوتے ہیں‘ کے بارے میں سماج کیوں خاموش ہوجاتا ہے؟ایسے لوگوں کی وجہ سے کتنی معصوم لڑکیاں ڈپریشن کی شکار ہوجاتی ہیںجو گھر کے دباؤ یا سماج میں بدنام ہونے کے ڈر سے کسی کو کچھ نہیں بتا سکتی اور اندر سے گھٹ گھٹ کر مرتی رہتی ہیں۔افسانہ مشاہداتی تجربے کی عمدہ فنی عکاسی کرتا ہے اور قاری کوبہت کچھ سوچنے پر آمادہ کرتا ہے۔
�����
Address:Wadipora Handwara Kashmir 193221 Cell:7006544358

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں