غزوہ بدر! اسلامی تاریخ میں حق و باطل کے معرکے کا عظیم الشان دن 63

امت کے تابناک مستقبل کیلئے لائحہ عمل!

تبصرہ کتاب” ‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌اسلامی نظامِ تعلیم ” سید ابو الاعلی مودودی (رح)
فہیم الاسلام اچھن پلوامہ

آج امت مسلمہ کے موجودہ حالات کو دیکھ کر کوئی بھی با ضمیر فرد ملت اپنے آپ کو سکون کی چار دیواری میں نہیں بٹھا سکتا۔ آج جن چلینجز سے امت مسلمہ گھیری ہوئی ہے شاید ہی کوئی ایسا اسلام کا دعویٰ دار ہوگا جو ان سے مقابلے کیلئے اپنے دن رات کی محنت کو بروے کار لاکر امت کی ڈوبتی کشتی کو کنارے لگا سکے۔ لیکن کہتے ہیں نا جہاں اندھیرا ہو اس کے بعد طلوع آفتاب ہونا لازمی ہے۔ اسی طرح جب اسلام کے نام کو محض ایک رسم تصور کیا جاتا تھا،جب اسلام کو باقی ادیان کی طرح من مانی کا طریقہ سمجھا جاتا تھا تو اللہ تعالیٰ نے ایک ایسے انقلابی شخص کو اسلام کے صحیح تصور اور فکر کے ساتھ دین کے کام میں لگا دیا۔ مولانا مودودی رحمتہ اللہ ۲۵ ستمبر۱۹۰۳ء کو اورنگ آباد میں پیدا ہوئے۔ مولا نا بیسویں صدی کے عظیم المرتب اسلامی سکالر، انقلابی مفکر اور ایک ایسے رہنماء جنہوں نے اپنی پوری زندگی اسلام کے غلبہ کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ مولانا نے بچپن سے ہی بے انتہا محبت اور محنت کے ساتھ اسلام کی صحیح ترجمانی کی۔ صحیح اسلامی افکار کو نوجوانوں میں بیدار کرنے کی بے لوث خدمات انجام دیے۔ ان کی تحریریں ایک انسان میں قرآن کی صحیح نمائندگی کے ساتھ ساتھ صحیح طرز فکر اور طرز عمل کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا طریقہ سمجھاتی ہے۔ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے سو سے زائد کتابیں لکھیں جن میں تفہیم القرآن، خطبات،دینیات، حقوق الزوجین کو اہم تصانیف سمجھا جاتا ہے۔ ان کی تحریریں دنیا کی کم وبیش ۴۰ زبانوں میں ترجمہ کے ساتھ امت مسلمہ کی خدمات کے لئے مشعلِ راہ ہے۔اور آخر کار یہ چراغ میں اللہ کے قانون کو لبیک کر کے ۱۹۷۹ میں اس دنیا سے رخصت کر گی۔
آج میں نے اسی شخص کی ایک ایسی تحریر کا مطالعہ کیا جو آج موجودہ سماج میں امت مسلمہ کے لئے بہت ہی زیادہ اہم ہے۔ مولانا کی ایک کتاب اسلامی نظام تعلیم جو مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی سے شائع ہوئی ہے کا مطالعہ کرنے کا شرف حاصل ہوا جس میں مولانا موجودہ سماج میں تعلیمی نظام کو دیکھ کر امت مسلمہ کا صحیح رخ اور صحیح مقصد تعلیم کو سامنے رکھتے ہیں تاکہ امت مسلمہ کے لیے مستقبل میں یہ تمام طلبہ و طالبات اسلام کے صحیح نمائندے ہونے کا ثبوت دیں۔
مولانا مودودی نے اس کتاب کے آغاز میں قدیم نظام تعلیم اور جدید نظام تعلیم میں فرق سمجھاتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ جس پرانے نظام تعلیم کو ہم ایک مکمل تعلیمی نظام سمجھتے ہیں وہ اصل میں سول سروس کا نظام تھا جو قدیم زمانے میں مسلمان حکومتوں کی ضروریات کے لئے تجویز کیا گیا تھا اور بعداز اس تعلیمی نظام کی افادیت اسی روز ختم ہوگئی جس روز انگریزی حکومت یہاں مسلط ہوئی کیونکہ اس کے تحت تعلیم پائے ہوئے لوگوں کے لئے نئی مملکت میں کوئی جگہ نہ رہی۔لیکن‌اس نظام تعلیم میں ہماری صدیوں کی میراث کا سامان مہیا تھا اسی لیے اس کو بچانے کیلیے بہت سے لوگ سامنے آۓ تاکہ کہیں ہماری قوم کا وجود بلکل ہی ختم نہ ہو جاۓ۔لیکن پھر وقت کے تقاضے کے ساتھ جو ہیں ہیں حالات بدلتے گئے اتنی ہی زیادہ اس کی افادیت گھٹتی چلی گئی کیونکہ اس نظام تعلیم کے تحت جو لوگ تعلیم پاکر نکلے ان کو وقت کے مسائل سے کوئی مناسبت ہی نہ رہی رہی پھر جب کوئی اس نظام تعلیم سے سے فارغ ہوتا عطا وہ امت مسلمہ کے لئے کچھ نہیں سوائے ہمارے مسجدوں تو سنبھال لیتے یا کچھ مدرسہ کھول لیتے ،کیونکہ جو اسلامی تعلیمات کا صحیح روح ہے اسکا اس تعلیمی نظام میں فقدان تھا تو الغرض یہ نظام تعلیم ہماری ان مذہبی ضروریات کے لیے بھی سخت ناکافی ہے جن کی خاطر اس کو باقی رکھا گیا تھا رہی دنیوی ضروریات تو ان کے ساتھ جو کچھ بھی اس کو سروکار تھا وہ گزشتہ صدی کے آغاز میں ہی ختم ہو چکا تھا۔
اس کے بعد مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ جدید نظام تعلیم کی بات کرتے ہیں اور وہ یہ کہتے ہیں کہ جدید نظام تعلیم وہ تعلیم کا نظام ہے جو انگریزوں نے یہاں قائم کیا جب انگریزوں کی حکومت یہاں مسلط ہوئی، تو اس کے بعد انہوں نے اپنا طریقہ کار یہاں پہ نبھانے کی کوشش کی، انہوں نے ایک ایسا نظام تعلیم یہاں پہ رائج کیا جس کی وجہ سے وہ ایسے افراد تیار کرنا چاہتے تھے جن پہ وہ یہاں کام کرے ان کے ذریعہ سے باقی لوگوں تک اپنا پیغام پہنچائے۔ مطلب اخلاقیات اور اصلی تعلیم کے رح سے اس کا فقدان مل رہا تھا، لیکن جب کوئی قوم غلام بنتی ہے تو وہ اپنا ماضی بھی بھول جاتی ہے اور اپنے مستقبل کے لیے کام کرنا چھوڑ دیتی ہے ،وہی امت مسلمہ کے ساتھ پیش آیا جہاں پہ ہم نے انگریزوں کے نظام تعلیم کو تسلیم کرکے اپنے تابناک ماضی اور اللہ تعالی کے فرمان سے سے دور بھاگنے کی کوشش کی جس کی بنا پر اخلاقیات کا جنازہ امت مسلمہ سے اٹھ گیا۔اس نظام تعلیم میں اس نے جتنے علوم پڑھائے ان میں اسلام کا کوئی شائبہ نہ تھا اور نہ ہو سکتا تھا خود یورپ میں ان سارے علوم کا جو ارتقاء ہوا تھا وہ تمام تر خدا سے پھرے ہوے لوگوں کی رہنمائی میں ہوا تھا تو پھر امت مسلمہ کا کوئی ایسا فرد کیسے توقع کر سکتا ہے کہ جس تعلیمی نظام کو اللہ تعالی کی حکومت کے خلاف بنایا گیا وہ ایک انسان کو انسان بنا دے گا، وہ ایک مسلمان میں اسلام کا صحیح تصور پیدا کردے گی، یہ امت مسلمہ کی سب سے بڑی غلطی ہوئی اور آج خاص کر امت مسلمہ انہیں مشکلات سے دوچار ہے جن کی وجہ سے اخلاقیات کا جنازہ ہمارے سماج میں اٹھ گیا ہے جہاں پر دین سے بے رخی اور آخرت کا تصور مافوق الفطری عناصر کے طور پر لیا جاتا ہے۔اس تعلیمی نظام کے تحت جو لوگ پڑھ کے ڈاکٹرز، انجینئرز یا قانون دان بنے وہ ہمیشہ سے اللہ تعالی کے نظام کے خلاف اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں کیونکہ جس تعلیم سے ان کی پرورش ہوئی وہ تعلیم اللہ تعالی کے قانون کے مخالف ہے جس قانون دان نے عدل و انصاف کی ڈگری حاصل کرنے کے لئے انگریزوں کی کتابیں پڑھی وہ اللہ تعالی کی قانون کی پاسداری کیسے کرسکتا ہے۔مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ تعلیم خدا پرستی اور اسلامی اخلاق سے تو خیر کھا لی ہے غضب یہ ہے کہ ہمارے ملک کے نوجوانوں میں وہ بنیادی انسانی اخلاقیات بھی پیدا نہیں کرتی جن کے بغیر کسی قوم کا دنیا میں ترقی کرنا تو درکنار زندہ رہنا بھی مشکل ہے۔اس کے زیر اثر پرورش پاکر جو نسلیں اٹھ رہی ہے وہ مغربی قوموں کے عیوب سے تو ماشااللہ پوری طرح آراستہ ہے مگر ان کی خوبیوں کی چھینٹ تک ان پر نہیں پڑی ہے ان میں نہ فرض شناسی ہے ،نہ صبر و ثبات ،نہ عزم و استقلال، نہ ضبط نفس، نہ اپنی ذات سے بالا کسی چیز کی وفاداری ۔وہ بالکل خود رو درختوں کی طرح ہے جنہیں دیکھ کر یہ محسوس نہیں ہوتا ہے کہ ان کا کوئی قومی کریکٹر بھی ہے ان کو معزز سے معزز پوزیشن میں ہو کر بھی کسی ذلیل سے ذلیل بددیانتی اور بدکرداری کے ارتکاب میں دریغ نہیں ہوتا۔
اس کے بعد مولانا تمام امت مسلمہ کے افراد سے ایک عہد لینا چاہتا ہے کہ ہمیں ایک انقلابی قدم کی ضرورت ہے کیونکہ اب نہ قدیم نظام تعلیم کو مٹا دیا جاسکتا ہے اور نہ ہی جدید نظام تعلیم کو ختم کیا جا سکتا ہے ، ان دونوں کی جگہ ہمیں ایک ایسا نیا نظام تعلیم بنانا چاہئے جو ان کے نقائص سے پاک ہو اور ہماری ضرورت کو پورا کر سکے جو ہمیں ایک مسلمان قوم، ایک آزاد قوم اور ایک ترقی کی خواہش مند قوم کی حیثیت سے اس وقت لاحق ہے ۔ہم سب کو چاہیے کہ ہم پہلے مقصد کا تعین کرے کہ ہمارے نزدیک تعلیم کا مقصد کیا ہے کچھ لوگوں کے نزدیک تعلیم کا مقصد بس علم حاصل کرنا ہے وہ کہتے ہیں کہ لوگوں کو بالکل غیر جانبدار تعلیم دینی چاہیے تاکہ وہ زندگی کے مسائل اور معاملات اور حقائق کا بالکل معروضی مطالعہ کرے اور نتائج اخذ کرسکیں۔ہمارے نزدیک تعلیم کا مقصد ہونا چاہیے کہ ہم ایسے افراد تیار کرے جو ہماری قومی تہذیب کو اور ہماری قومی تہذیب ہمارا دین کے سوا اور کیا ہے؟ لہذا ہمارے دین کو اچھی طرح سمجھتے ہو اس پر سچے دل سے ایمان رکھتے ہوں اس کے اصولوں کو خوب جانتے ہوں اور ان کے برحق ہونے کا یقین رکھتے ہوں اس کے مطابق مضبوط سیرت اور قابل اعتماد اخلاق رکھتے ہیں اور اس قابلیت کے مالک ہوں کہ ہماری اجتماعی زندگی کے پورے کارخانے کو ہماری اس تہذیب کے اصولوں پر چلا سکے اور مزید ترقی دے سکے کے۔ہمیں دین اور دنیا کی تفریق کو ختم کرنا ہے کیونکہ اسلام خود ہی کہتا ہے کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے ہمیں دنیا میں کمانا ہے ہمیں اللہ تعالی کی عبادت کرنی ہے تو اس کی بنا پر دنیا میں جو ضروریات ہمارے لئے میسر ہے جو چیز ہمارے لیے درکار ہے ہمیں ان کو حاصل کرنا ہے لیکن اللہ تعالی کے اور اسلام کے حدود کے اندر اندر۔ہمیں اپنے بچوں کو ابتدائی تعلیم سے لے کر اختصاصی تعلیم تک اسلام کے صحیح معنوں کو سمجھنا چاہیے ان میں اخلاقیات کی صحیح نمائندگی کرنی چاہیے اور ان کو اسلام کی صحیح تصویر سامنے رکھنی چاہیے تب جا کے وہ کل امت مسلمہ کے لیے کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں۔مولانا اس کتاب میں عورتوں کی تعلیم کے بارے میں بھی فرماتے ہیں کہ اسلام عورتوں کی تعلیم کے بارے میں جس طرح مرد کے ساتھ پیش آتے ہیں اسی طرح ایک عورت کو علم حاصل کرنا فرض ہے کیونکہ عورت سے خاندان بنتے ہیں اور جب ایک خاندان کی صحیح پرورش ہو جائے تو کل سماج اور قوم کی صحیح نمائندگی کر سکتے ہیں لیکن عورتوں کی تعلیم کے بارے میں ہمیں مخلوط نظام تعلیم کو ختم کرنا ہے اور الگ نظام تعلیم ان کے لیے سامنے رکھنا ہے تاکہ ان کی خود کی عزت و آبرو کی حفاظت ہو جائے اور وہ صحیح معنوں میں اسلام کی نمائندگی کر سکے ۔
آخر پر مولانا یہی سمجھاتے ہیں کہ ایک انسان کو اس دنیا میں اللہ تعالی کا خلیفہ بنایا گیا ہے تو ہمیں میں اسی دین کے مطابق اپنی زندگی بسر کرنی چاہیے اور جب تک ہمارا تعلیمی نظام نام صحیح نہیں ہوگا تب تک اس قوم کے تابناک مستقبل کی خواہش کرنا بھی افسوس ناک ہوگا۔ ہم سب کو اس چیز کے بارے میں کام کرنا چاہیے تاکہ ہماری زندگی بھی سنور جائے اور قوم کا مستقبل میں ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے اللہ تعالی ہم سب کو اسلام کی صحیح روح سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور مولانا کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔
� ���
فہیم الاسلام اچھن پلوامہ
شعبہ سیاسیات علی گڑھ مسلم یونیورسٹی
رابطہ 9622223031

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں