وقت کے ساتھ چلا توُ بھی نہیں میں بھی نہیں 57

تھک چکا ہوں اسقدر میں اب چلا جاتا نہیں

غزل

منظر زیدی، لکھنو ٔ

تھک چکا ہوں اسقدر میں اب چلا جاتا نہیں
سامنے منزل ہے لیکن کچھ نظر آتا نہیں
کیوں بضد ہو مجھ سے تم سننے کو میری داستاں
کٹ چکی میری زباں اب کچھ کہا جاتا نہیں
پتھروں کے اس شہر میں سب کے دل پتھرا گئے
آدمی ہیں پر کوئی انساں نظر آتا نہیں
ہم نے پودے کو چھوا تو شرم سے جھکتا گیا
چومتی ہے رات بھر شبنم تو شرماتا نہیں
جس کی یادوں میں ہمارے رات دن گزرا کئے
اسکی آنکھوں میں وفا کی اب جھلک پاتا نہیں
ایک مدّت سے میں جسکا کر رہا ہوں انتظار
اب اسے میں بھول جاؤں یہ مجھے آتا نہیں
ریت پر کب سے پڑا ہے وہ چمکتی دھوپ میں
سوچتا ہوں مر کے بھی کوئی سکوں پاتا نہیں
جرّتِ پرواز منظرؔ میری دشمن بن گئی
نُچ چکے ہیں بال و پر لیکن میں گھبراتا نہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں