نقصان دہ صنعتوں کی اجازت ’’لوگوں کو مارنے کا لائسنسـ‘‘ 61

امن و امان کے دعوے صحیح ہیں تو 5ہزار اضافی فورسز کی تعیناتی کس لئے؟/ڈاکٹر کمال

سرینگر/03نومبر / نیشنل کانفرنس نے وادی میں مزید5ہزاراضافی فورسز اہلکاروں کی تعیناتی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک طرف مرکزی حکومت اور مقامی انتظامیہ یہاں امن وسکون اور تعمیر و ترقی کے دعوے کرتے نہیں تھکتے لیکن دوسری جانب آئے روز فورسز کی تعداد میں اضافہ کیا جارہا ہے۔ اگر یہاں واقعی امن قائم ہوا ہے تو پھر ان اضافی فورسز اہلکاروں کی تعیناتی عمل میں لانے کا کیا مقصد ہے؟۔ سی این آئی کے مطابق ان باتوں کا اظہار پارٹی کے معاون جنرل سکریٹری ڈاکٹر شیخ مصطفیٰ کمال نے آج پارٹی ہیڈکوارٹر پر سینئر پارٹی لیڈران اور عہدیداران کیساتھ تبادلہ خیالات کرتے ہوئے کیا۔ وادی میں 5ہزار اضافی فورسز اہلکاروں کی تعیناتی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر کمال نے کہا کہ رپورٹوں کے مطابق 3ہزار فورسز اہلکاروں کو سرینگر میں تعینات کیا جارہا ہے جبکہ 2ہزار کو دیگر اضلاع میں بھیجا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں جو اطلاعات موصول ہورہی ہیں اُن کے مطابق سرینگر میں کئی مقامات پر کمیونٹی ہالوں کو فورسز اہلکاروں نے اپنی تحویل میں لیا ہے جبکہ اس سے قبل ہی تمام شاہرائوں اور گلی کوچوں پر نئے بنکر تعمیر کئے گئے ہیں اور مزید بنکر بنانے کا کام جاری ہے۔ ڈاکٹر کمال نے کہا کہ موجودہ سرگرمیوں سے 1990کی یاد تازہ ہوجاتی ہے ۔ اُس وقت بھی ایسے ہی فورسز اہلکاروں کی تعیناتی عمل میں لائی گئی تھی ۔ جس کے بعد چاروں طرف ہاہاکار، قتل و غارت اور خونریزی کا ایک بدترین سلسلہ چل پڑا اور کشمیر کا ہر ایک گھر متاثر ہوئے نہ رہ سکا۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر میں پہلے ہی لاکھوں کی تعداد میں فوج اور فورسز اہلکار تعینات ہے اور گذشتہ مہینوں کے دوران بھی یا فورسز کی موجودگی میں اضافہ کیا گیا اور اب مزید5ہزار کی تعیناتی کے اقدام سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نئی دلی یہاں 1990جیسی صورتحال پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ ماہ سے مرکزی وزراء اور اُن کے افسران یہاں کے دورے کررہے ہیں اور ہر کوئی یہ دعویٰ کررہا ہے کہ یہاں کے حالات پُرامن ہیں اور لوگ کھلی فضاء میں سانس لے رہے ہیں۔ اگر مذکورہ وزرا اور افسران کے دعوے صحیح ہیںتو یہاں اضافہ فورسز کمک کی کیا ضرورت آن پڑی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تمام سرگرمیاں ایک جابرانہ اور آمرانہ نظام کی عکاسی کرتا ہے جہاں حکمران عوام کی آرزوئوں ، خواہشات ، احساسات اور جذبات کو کچلنے کیلئے طاقت کا بے تحاشہ استعمال کرتا ہے۔ نئی دلی کے رویہ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مرکز جموں وکشمیر کے عوام کے تئیں ہمدر نہیں۔ ڈاکٹر کمال نے کہاکہ نئی دلی کو جموں وکشمیر خصوصاً وادی میں روا رکھی گئی سخت گیر پالیسی کو ترک کرنا چاہئے اور لوگوں کی ناراضگی کی بنیادی وجہ کی طرف توجہ مرکوز کرنی چاہئے اور یہاں ایسا ماحول قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جہاں لوگ امن و چین ، آزادی اور پُرامن طریقہ سے اپنی زندگی بسر کرسکیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں