یہ آنسو دل کی زبان ہے 72

مقدس ماں وردھ آشرم میں

ڈاکٹرعبدالمجید بھدرواہی

مجھے لگاکہ یہ بُڑھیااس کی ماں ہے مگراس کے رکھ رکھاؤسے وہ کوئی نوکرانی سی لگتی تھی ۔اس لئے میںنے پوچھا’’بہن جی کیایہ آپ کی ماںہے ؟‘‘
’’نہیں یہ میری ساس ہے‘‘اس نے جواب دیا۔
’’ساس بھی توماںہی ہوتی ہے‘‘۔میںنے جواباً کہا۔
’’ان کوکیاتکلیف ہے؟‘‘میںنے پھرپوچھا۔
’’کھاناہضم نہیں ہوتاہے،ہروقت جوکھاتی رہتی ہے۔ ڈکاریں آتی رہتی ہیں۔اُلٹیاں کرنے کودل کرتاہے وغیرہ وغیرہ ‘‘۔وہ لڑکی بولی ۔
’’یہ بہت زیادہ کمزور اورلاغر ہیں‘‘۔میںنے کہا۔
’’یہ کھاتی توبہت ہیں اورکام بھی کچھ نہیں ہے۔
وہ لڑکی بولی
اتنے میں ڈاکٹرمہیش نے اندرسے آوازدے کربلایا۔’’اندرادیوی ‘‘۔
’’چلو۔اُٹھو۔جلدی کرو۔مجھے گھرمیں اوربھی کام ہیں‘‘۔لڑکی نے بڑھیا سے بڑے زوردار طریقہ سے کہا۔
’’بہن جی !یہ چل نہیں سکتی ہیں۔کمزورجوہے اوران سے یہ چپل بھی نہیں پہنا جارہاہے۔یہ شاید کسی اورکاہے‘‘۔
’’بہن جی !بزرگوں سے بڑی نرمی سے بات کرنی چاہئے ۔ان سے اس طرح کاسلوک نامناسب ہے…میری ماں ہوتی تومیں انہیں سرآنکھوں پربٹھاتا۔ دیکھنے والے دنگ رہ جاتے مگرمیری بدقسمتی ،میںاس نعمت سے چھوٹی عمرمیں ہی محروم ہوگیا‘‘۔
میں نے بھی زوردارلفظوں میں بتایا۔
بزرگ خاتون کی بہونے میری ان سنی کردی بلکہ قدرے بدتمیزی سے بولی ’’چلوناجلدی جلدی ۔تمہارابیٹا خودتوچلاگیا ۔مجھے یہاں پھنساکررکھ دیا‘‘۔
یہ اپنی ساس کے ساتھ بہوکاہمارے سامنے سلوک ہے توگھرمیں اس کی کیا گت ہوتی ہوگی ۔کلینک میں اپنی باری کاانتظار کرنے والے بیماروں اورتیمادارو ں نے ایساغلط سلوک دیکھاتوکفِ افسوس ملنے لگے۔ کسی نے بہو سے کہا: ’’اس سے بہترہے کہ آپ ان کووردھ آشرم میں بھرتی کردو‘‘۔
ایک دوسرے شخص نے کہا’’بھگوان سے ڈرو۔آپ پربھی بڑھاپا آئے گا‘‘۔
’’ہاں!ہاں کہہ دیجئے جومن میں آئے،ہم دونوں میاں بیوی ملازم ہیں۔ ہم سے ان کی دیکھ بھال نہیں ہوسکتی۔اس لئے ہم نے فیصلہ کرلیاہے کہ ان کو اولڈایج ہوم میں داخل کروادیں۔ ان کی وجہ سے ہمیں بہت پریشانیاں اٹھانی پڑرہی ہیں‘‘۔ بہونے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
یہ سُن کرمیںنے پھرسے سمجھایا:’’بہن جی!یہ بڑھاپے کی سیڑھی ہم سب نے چڑھنی ہے، ہم چاہیں یانہ چاہیں۔بزرگوں کونیک سلوک اوراچھی دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے، جھڑکنے کی نہیں۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرناچاہئے ‘‘۔ حاضرین نے میری ہاں میں ہاںملادی ۔
’’ان کابیٹاکہاںہے ؟’’میںنے پوچھا‘‘وہ ایک کمپنی میں بڑاافسرہے ، فرصت ہے نہیں۔ میںہی ہمیشہ بیچ میں پھنس جاتی ہوں۔آج ان کوبہت اہم کام تھا‘‘بہوجی صفائی دیتی گئی ۔
میںنے نفی میں سرہلاتے ہوئے کہا:’’ماںکی سیوا اورعلاج سے اور کونساضروری کام ہوسکتا ہے۔لگتاہے کہ وہ اپنی ماں کی عزت اور خدمت نہیں کرتا،اسی لئے آپ بھی ‘‘……
میری بات کاٹ کربہونے بڑی بدتمیزی سے کہا:’’توتم ہی اسے اپنے گھرلے جاؤ‘‘۔
’’ٹھیک ہے، بلاؤاپنے خاوندکو ۔میں ابھی اُن کولے جاتاہوں۔پھردیکھنا میںکس طرح بہن جی کو عزت کے ساتھ گھرمیں رکھتاہوں۔بلاؤ اپنے سرتاج کو‘‘۔میںنے بہ عجلت کہا۔
’’ویسے بھی ہم نے ماں کواولڈیج ہوم میں پھینکنے کافیصلہ لیاہواہے‘‘۔ بہو نے میری بولتی بندکرنے کے لئے طیش میں کہا۔
اتنے میں ڈاکٹر مہیش شورسن کر باہر آیا پوچھا: ’’کیامسئلہ ہے؟‘‘ اس پرمیں نے ساری بات بتائی :’’یہ عمررسیدہ خاتون شدیدبیمارہے ،ان محترمہ کی ساس ہے، ان کاغلط سلوک ہم سب سے دیکھا نہ گیا۔انہوںنے برزگ خاتون کو وردھ آشرم میں پھینکنے کافیصلہ کرلیاہے۔میںنے کہاکہ اس سے بہترہے کہ ان کو آپ میرے حوالے کردو۔میںان کی دیکھ بھال اورعلاج کروںگا، صرف اللہ کی خوشنودی کے لئے ۔‘‘
ڈاکٹر صاحب نے یہ رام کہانی سُنی توکہا:’’ٹھیک ہے ،اگرآپ ان کاعلاج اور دیکھ بھال نہیں کرسکتے توپھروردھ آشرم میں پھینکنے سے بہترہے کہ ان کے پاس ہی رکھو۔میںان کو بڑی اچھی طرح جانتاہوں ،یہ اچھے اورنیک انسان ہیں‘‘۔ ڈاکٹرصاحب نے معاملہ مختصر کرکے کہا۔
بوڑھی اماں جوہماری باتیں سن رہی تھی اب بول پڑی :’’بیٹا !میں اپنے ہی گھرجاؤںگی ،آپ کیوںتکلیف اُٹھاؤ گے؟میں اپنے پاپوںکاپھل بھوگ رہی ہوں‘‘
’’نہیں ماںجی! میں نہیں مانتا،آپ کاعقیدہ اپنی جگہ درست بھی ہو۔آپ میری مانئے ۔باقی آپ کی مرضی ‘‘۔میںنے بوڑھی خاتون سے بڑی نرمی سے کہا۔ اتنے میں اس کاافسربیٹا! آگیا۔اس نے بھی اپنی بیوی کی بات کو صحیح مانا، غصے میں شورمچایا،آنکھیں بھی دکھارہاتھاپھرجب ڈاکٹر صاحب نے پیچ میں بولا:’’ واقعی آپ کی ماں بہت کمزور ہے اوراگرآپ نے اسے وردھ آشرم میں داخلے کافیصلہ کرہی لیاہے تواس سے بہترآپ ان کواس بھائی صاحب کے ہاں ہی رکھ آؤ۔ میںان کوجانتاہوں ۔یہ بہت ہی نیک شخص ہیں۔ یہ ان کاپورا خیال رکھیں گے‘‘۔
یہ سُن کربڑھیاکابیٹاخاموش ہوگیا۔دونوں میاں بیوی یہ سوچ کرکہ ہمارا مسئلہ حل ہوگیا،ان کاچہرہ کِھل اُٹھا۔اسی اثناء میں میںنے نسخہ لیا۔ماں بڑے بھاری قدموں سے میرے ساتھ چل پڑی ۔پندرہ بیس دن تک میںنے ان کی جی جان سے بہت دیکھ بھال کی ،علاج ومعالجہ کیا۔نئے کپڑے خریدلائے ، نئے بسترمیں سلایا،کھانے پینے کااپنے لحاظ سے اچھانتظام کیا،پھل فروٹ سے خاطر تواضع کی اورہرممکن حدتک ایک بیٹے کافرض نبھایا۔ ایسا کرنے سے ان کی جسمانی حالت یکسربدل گئی ،ان کی صحت بھی اچھی ہوئی ، وہ آرام سے اورچلنے پھرنے لگی ۔کچھ عرصہ کے بعدبوڑھی ماں کے نام انشورنس کمپنی سے واجب الادا پانچ لاکھ روپے کی چھٹی آئی۔ خط ان کے گھرکے پتہ پرآیا۔اسے دیکھ کر بیٹااور بہوپریشان ہوئے کہ اب کیاکیاجائے کیونکہ رقم توماں کوہی وصول کرنی تھی ،جوکہ اب ایک دوسرے کے گھرمیں رہ رہی ہے۔بیٹے نے عدالت میں عرضی دی کہ ان کی اماں چل پھرنہیں سکتی، اس لئے یہ رقم مجھے ہی دی جائے کیونکہ میںان کاحقیقی بیٹاہوں۔فاضل جج نے اپنا سرکاری کارندہ حقیقت ِحال معلوم کرنے کیلئے ان کے گھربھیجا ۔واپسی پرکارندے نے رپورٹ دی کہ بُڑھیاشمس الدین کے ہاں رہ رہی ہے،پھروہ ان سے ملنے وہاں بھی گیا۔ وہاں صحیح صورت حال معلوم ہوئی کہ کس طرح اورکن حالات میں بوڑھی اندرادیوی اپنے بیٹے روہت کمارکے بجائے شمس الدین کے ہاں رہ رہی تھی، اس پرائے گھرمیں وہ کتنی خوش وخرم تھی۔جب کہ اس کاروگردان بیٹااورمنہ پھٹ بہوزورزور سے وردکررہے تھے : ’’زورسے بولو جے ماتادی۔ شیراں والی ماتاکی جے ،زورسے بولوجے ماتادی مل کر بولوجے ماتادی‘‘۔جج صاحب نے یہ اصل فسانہ سناتو فیصلہ دیا:’’بیمے کی یہ رقم بذات خوداندرادیوی کواداکردی جاتی ہے جواس وقت کمرہ عدالت میں حاضر ہے‘‘۔ ماتاجی نے ہاتھ میں رقم لی توجج صاحب سے عرضداشت کی کہ یہ رقم امپھلاکے وردھ آشرم کے لئے دان کرتی ہوں تاکہ بزرگوں کے کام آئے ۔ اماں کی درخواست فوراًمنظورہوئی۔ میںنے بوڑھی اماں کو سہارا دیتے ہوئے مزید کہا:’’اماں جی کواللہ نے پہلے ہی بہت کچھ دیاہے۔اس کیلئے وہ ہی کافی ہے‘‘۔اس پرجج صاحب نے اپنے فیصلے میں یہ جملہ بڑھایا :’’اندرادیوی کوشمس الدین نے بہ حیثیت ماںاپنے گھرمیں مان سمان دے کر سیکولراز م کی بہترین مثال قائم کی ہے۔ دراصل یہی اصل انسانیت اورگنگا جمنی تہذیب والے ہندوستان کی پہچان ہے۔‘‘

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں