ہارٹ اٹیک 69

ہارٹ اٹیک

الف عاجز اعجاز
کلسٹر یونیورسٹی سرینگر

سنو عافیہ بیگم؟ کہاں ہو؟ ادھر تو آؤ ذرا بات کرنی ہے ، آپ بھی نا ہمیشہکیچن میں گُھسی رہتی ہیں۔ وقار نے اپنی بیوی سے کہا۔
عافیہ: جی فرمائیں کیا بات ہیں آج تو بڑے خوش نظر آرہیں ہیں؟
وقار: جی بلکل، خوش تو میں ہوں۔ بہت خوش ہوں آج میرے دل سے اتنا بڑا بوجھ جو اُتر گیا۔
عافیہ: مطلب میں کچھ سمجھی نہیں۔
وقار: یہ دیکھو، یہ کاغذات ہیں۔
عافیہ: کیسے کاغذات؟
وقار: ہماری جائیداد کے کاغذات۔ میں نے اپنی جائیداد کا تیسرا حصہ ہماری بیٹی صدف کے نام کر دیا۔
عافیہ: کیا جائیداد بیٹی کے نام کر دی۔ وقار صاحب بیٹے کے لئے بھی کچھ رکھا یا نہیں۔
وقار: کیسی باتیں کر رہی ہو اُسی کے لئے تو سب کچھ رکھا ہے صرف تیسرا حصہ بیٹی کے نام کیا ہے اور یہ اُس کا حق بھی ہے۔
عافیہ: لیکن وقار صاحب آپ کو ذرا بھی اندازہ ہے اگر عُمیر کو اِس سب کی بھنک بھی پڑھ گئی تو وہ کتنا بڑا ہنگامہ برپا کر دے گا۔ جانتے ہیں نا آپ اُس کی صدف کے ساتھ بلکل بھی نہیں بنتی۔
وقار: جی عافیہ جانتا ہوں اُس کی صدف کے ساتھ بلکل بھی نہیں بنتی کمبخت سوتیلی سمجھتا ہے نا صدف کو۔۔۔۔۔۔۔ یہ بات اُس کی سمجھ میں نہیں آرہی کہ دونوں کا باپ میں ہوں۔
عافیہ: یہی تو ، آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا اور اب اگر کر بھی دیا ہے تو اُس کو کچھ پتہ مت لگنے دیجیے گا ۔
وقار: نہیں بیگم یہ بات تو اُس کو ضرور معلوم ہونی چاہیے اور میں خود یہ سب اُس کو بتاؤں گا۔
عافیہ: مت کریں نا ایسا سوتیلی مانتا ہے اُس کو اور یہ بات سنتے ہی آگ بگولہ ہو جائیں گا۔
وقار: لیکن آپ تو میری بیٹی کو سوتیلی نہیں مانتی نا ؟
عافیہ: کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ، میرے لئے صدف اور عُمیر ایک برابر ہے۔
وقار: جی بیگم جانتا ہوں اور اِس بات کے لئے آپ کا شُکر گُزار بھی ہوں کہ آپ نے میری بیٹی کو کبھی ماں کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔
عافیہ: دیکھیں وقار صاحب اب آپ زیادتی کر رہے ہیں، ارے میں ماں ہوں صدف کی آپ ہی تو مجھے اُس کی ماں بنا کر لائے تھے، تو میں اُس کو ماں کی کمی محسوس کیوں ہونے دیتی بھلا اور ہاں آج آپ نے صدف کو میری سوتیلی کہا ہے دوبارہ مت کہیں گا ورنہ مجھ سے بُرا کوئی نہ ہوگا۔
وقار: اچھا بیگم ٹھیک ہیں۔
عافیہ: اور ہاں ایک بات اور مہربانی کرکے عُمیر کو اِن کاغذات کے بارے میں کچھ مت بتائیں گا وہ ہنگامہ برپا کر دے گا اور مجھے اپنے گھر میں کوئی ہنگامہ نہیں چاہیں۔
وقار: بتانا تو پڑے گا کیونکہ بیگم زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ہوتا اور میں نہیں چاہتا کل کو مجھے کچھ ہو جائیں تو میرے بچے جائیداد پر ایک دوسرے سے لڑتے پھرے اِس لئے اپنی حیات میں ہی اپنے ہاتھوں سے یہ کام انجام دیا۔ رات کو دونوں گھر آئیں گے تو میں بات کروں گا اور جو ہوگا وہ دیکھا جائیں گا۔
عافیہ: ٹھیک ہے آپکی مرضی، جو چاہے کر لیجئے۔
رات ہوگئی تو کھانا کھانے کے بعد وقار نے بیوی اور دونوں بچوں کو اپنے سامنے بٹھا کر بات شروع کر دی۔
وقار: دیکھو بیٹا میں جو کہنے جا رہا ہوں اُس کو سمجھنے کی کوشش کرنا۔
عُمیر بیٹا میں بتاتا چلوں کہ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ہوتا اور میں نہیں چاہتا کہ کل کو میں جب نا رہوں تو میرے بچے جائیداد کو لے کر کورٹ کچہری کے چکر کاٹے۔ اس لئے میں نے اپنی حیات میں ہی اپنی پوری جائیداد آپ دونوں کے نام کر دی۔ جس میں سے جائیداد کا تیسرا حصہ صدف بیٹی کے نام اور باقی سب کچھ آپ کے نام پر منتقل کر دیا ہے بیٹا۔
عُمیر: کیا ! ابو جان آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں ، میرا مطلب آپ کا وارث در تو میں ہوں پھر جائیداد کا تیسرا حصہ اِس کے نام کیوں؟
وقار: کیونکہ بیٹا اگر تُم میرے وارث در ہو، میرے بیٹے ہو تو یہ بھی تو میری بیٹی ہے۔ اور یہ اِس کا شرعی حق بھی ہے۔
عُمیر: نہیں ابو جان میں نہیں مانتا یہ سب کچھ، اِس کا اِس گھر پر کوئی حق نہیں۔ میرا مطلب اِس کو شادی کر کے تو دوسرے گھر جانا ہے نا تو سارے حقوق وہاں جاکر جتائیں۔ میرے سر پر آپ اِس کو نا رکھیں تو بہتر ہی ہوگا اِس کے لئے بھی اور میرے لئے بھی۔
وقار: گرجتے ہوئے ، کیا بکواس کر رہے ہو وہ بہن ہے تمہاری، ذرا ہوش کرو کیا بولے جا رہے ہو اِس کے بارے میں۔
صدف: ابو جان، سنبھالے خود کو، غصّہ نہ کریں، آپ کا بلڈ پریشر بڑھ جائے گا۔
وقار: نہیں بیٹا آج خاموش نہیں رہوں گا میں۔
صدف: ابو جان، ٹھیک ہی تو کہہ رہا ہے بھائی ، مجھے اِس سب کی کوئی ضرورت نہیں، میرے لئے تو بس آپ کی اور امی جان کی دعا ہی کافی ہے۔ مجھے نہیں چاہیے یہ سب کچھ۔
وقار: دیکھو کمبخت اِس کو دیکھو جس کے بارے میں اول فول بک رہے ہو نا وہ تمہاری طرف داری کر رہی ہے۔
عُمیر: جی نہیں وہ میری کوئی طرف داری نہیں کر رہی۔ ہمیشہ کی طرح اچھا بننے کا ناٹک کر رہی ہے۔ لیکن میں اِس کے جال میں نہیں پھنسنے والا، میں لڑوں گا اور آخری حق تک لڑوں گا۔ اور یہ سب کہتے ہوئے عُمیر اپنے کمرے میں چلا گیا۔
وقار: دیکھ رہی ہو عافیہ بیگم کیا کہہ رہا ہے؟ باپ سے مقابلے کی بات کر رہا ہے ، یہ دن دیکھنا باقی رہ گیا تھا زندگی میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عافیہ: جانے دیجئے ، اِس وقت غصے میں ہے ، آپ بے فکر رہیں ، اُس کا غصّہ اُتر جائیں تو میں خود سمجھا دوں گی اُس کو۔۔۔۔۔ آپ پلیز ٹینشن نا لے۔
صدف: جی ابو جان ، آپ پلیز ٹینشن نا لے اور کیا ضرورت ہے یہ سب کرنے کی، پہلے ہی بھائی کی میرے ساتھ نہیں بنتی اِس سب سے تو وہ اور زیادہ ناراض رہے گا مجھ سے۔ میں کہہ رہی ہوں نا مجھے کچھ نہیں چاہیے، اُٹھیں اور سو جائیں۔
وقار: کیونکہ بیٹا میں ڈر رہا ہوں کل کو یہ اِس گھر کے دروازے تم پر بند نا کر دے۔
عافیہ: آپ خواہ مخواہ پریشان ہو رہے ہیں ایسا کچھ نہیں ہوگا، ہم دونوں ایسا کچھ بھی نہیں ہونے دیں گے، آپ فکر نا کریں میں ابھی جا کر بات کرتی ہوں اُس سے۔
عافیہ عُمیر کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے عُمیر بیٹا دروازہ کھولو، میری بات سُنو۔
عُمیر: مجھے نہیں سُننی ہے کسی کی بات، آپ چلی جائیں یہاں سے
عافیہ: لیکن بیٹا ماں کی بات تو سُنو۔
عُمیر: غصے میں دروازہ کھولتے ہوئے، ماں، ایسی ہوتی ہے ماں جو بیٹے کے حق میں کچھ بھی نا بولے، خاموش رہیں۔
عافیہ: لیکن بیٹا تمہارے باپ نے کچھ غلط تو نہیں کِیا۔ صرف اپنی بیٹی کو اُس کا حق دیا ہے۔
عُمیر : لیکن امی پہلا حق میرا بنتا ہے۔
عافیہ: تو بیٹا تمہیں دستبردار تو نہیں کیا ہے نا۔ تمہیں بھی تو تمہارے حصے کا پورا حق دیا ہے۔
عُمیر: جی دیا تو ہے لیکن اُس کو میرے سر پر کیوں کھڑا کیا ہے۔
عافیہ: بیٹا وہ بہن ہے تمہاری، تمہارے باپ کی اپنی اولاد۔
عُمیر: امی اب آپ مجھے یہ سبق نا سِکھائیں، وہ میری کچھ نہیں لگتی، سوتیلی ہے وہ اور سوتیلا کبھی بھی سگھا نہیں ہوتا یہ بات آپ بھی سمجھ جائیں تو بہتر ہوتا اور آپ کو پتہ ہے جب آپ ایسی باتیں کرتی ہے نا تو مجھے شک ہونے لگتا ہے آپ اُس کی سوتیلی ماں ہے یا میری۔
عافیہ: ایسا کچھ بھی نہیں ہیں بیٹا، میری بات سمجھنے کی کوشش کرو دیکھو اگر تُم نے ضد کی نا تو مجھے ڈر ہے تمہارے باپ نے جو حصہ تمہیں دیا ہے تمہاری ضد کی وجہ سے وہ بھی نا تم سے واپس لے لیں۔
عُمیر: ایسا کچھ نہیں ہوگا امی، یہ میرا حق ہے اور مجھ سے کوئی نہیں چھین سکتا۔
عافیہ: اچھا جی، خواب دیکھنا بںد کر دو میاں، اگر تمہارے باپ نے تمہیں دستبردار کر دیا نا تو کوئی قانون تمہیں کچھ نہیں دِلا سکتا۔ اِس لئے کہہ رہی ہوں جو ملا ہے خوشی خوشی قبول کر لو۔
عُمیر: لیکن امی۔۔۔۔۔
عافیہ: لیکن کیا ، بیٹا سمجھنے کی کوشش کرو تمہارے باپ نے صرف کاغذی طور پر جائیداد کا کچھ حصہ صدف کے نام کر دیا ہے تھیلی میں اُٹھا کر اُس کو نہیں دیا، کل کو اُس کی شادی ہو جائیں گی تو وہ اپنے گھر چلی جائیں گی پھر تو سب کچھ تمہارا ہی ہو گا نا، وہ وہاں سے تھوڑی ہر روز اپنے حصے کو دیکھنے آئیں گی، تم دیکھنا اگر تم اپنا رویہ اُس کی طرف بدلو گے نا تو وہ خود تمہیں سب کچھ لکھ کے دے گی اسی لئے کہہ رہی ہوں خاموش رہو۔
عُمیر: عافیہ کو گلے لگاتے ہوئے، ٹھیک ہیں امی جان اب کچھ نہیں کہوں گا۔ آج یقین ہوگیا کہ آپ میری ماں ہے، صرف میری۔۔۔۔
عافیہ: شاباش، اور دھیان رکھنا آج کے بعد اِس معاملے کو لے کر تمہارے منہ سے کچھ نا سُنوں۔
یوں وقت گزرتا گیا اور سب اپنی اپنی زندگی میں مصروف ہوگئے اور کچھ وقت بعد صدف کا رشتہ بھی طے ہوگیا۔سب بہت خوش تھے خاص کر صدف اور اُس کا ہونے والا شوہر دانش۔ صدف دانش سے اکثر کہا کرتی تھی کاش بھائی مجھے قبول کر لیتے تو میری زندگی میں کوئی دُکھ نا رہتا اور دانش جب سے ابو جان نے کچھ حصہ میرے نام کر دیا تب سے تو بھائی کا رویہ اور بھی زیادہ تبدیل ہوگیا وہ میری طرف دیکھتے تک نہیں۔ اور دانش ہمیشہ اُس کو تسلی دیتا تھا کچھ نہیں ہوتا سب ٹھیک ہو جائیں گا شادی ہوتے ہی تم سب کچھ اُس کو دے دینا تو وہ ٹھیک ہوجائے گا۔ دیکھو صدف مجھے صرف تمہاری خوشی چاہیے اور میرے پاس تو اللّٰہ کا دیا ہوا سب کچھ ہے تو تھوڑی سی زمین کی وجہ سے تمہارا بھائی تمہیں دُھتکارے اور تم اُداس رہو یہ مجھے منظور نہیں۔ تم بس خوش رہا کرو، سب ٹھیک ہوجائے گا۔
سب بہت خوش تھے، شادی نزدیک آرہی تھی تو سب شادی کی تیاریوں میں مصروف تھے لیکن عُمیر کے ذہن سے حصے والی بات نہیں نکل رہی تھی اور وہ ہر پل اِس معاملے کو نپٹانے کی سوچ میں گُم رہتا تھا۔
کل صدف کی مہندی رات تھی، گھر میں خوشی کا ماحول تھا، سب بہت خوش تھے، جہاں ڈھولکی بج رہی تھی تو وہیں ناچ گانا چل رہا تھا۔ لیکن عُمیر آج بھی اُسی معاملے میں اٹکا ہوا تھا اور گھر کے کاموں میں بھی دلچسپی نہیں لے رہا تھا وہ صرف یہی سوچ رہا تھا کہ کیا کروں، کیا کروں کہ صدف میرے رستے سے ہٹ جائیں، کس سے مدد لوں تو اُس کو اپنے چچا کا گھر یاد آگیا ارسلان بھائی ، ارسلان بھائی سے مدد لوں گا اور یہ کہتے ہی وہ اپنے چچا کی طرف چل دیا۔ دروازے پر دستک دی تو اُس کی چچیری بہن عظمیٰ نے دروازہ کھول دیا۔
عُمیر: اسلام علیکم آپی ارسلان بھائی ہے مجھے اُن سے ملنا تھا۔
عظمیٰ: کیوں بھئی طبیعت تو ٹھیک ہے نا میرا مطلب گھر میں شادی ہے اور تم ڈاکٹر صاحب کو ڈھونڈ رہے ہو۔
عُمیر: میری طبیعت کو کیا ہونا ہے اور یہ ضروری تو نہیں کہ جب تک ہماری طبیعت خراب نہ ہو ہم ارسلان بھائی سے نہیں مل سکتے۔ وہ ڈاکٹر ہوں گے تو اپنے اسپتالمیں، یہاں نہیں۔
عظمیٰ: اچھا جی تو ایسی بات ہے لگاؤں شکایت بھائی سے تمہاری ۔
عُمیر: پلیز آپی میرا باتوں میں وقت ضائع نہ کرے ، مجھے ارسلان بھائی سے بہت ضروری کام ہے۔
ارسلان: عمیر کو دیکھتے ہوئے، ارے عُمیر تم، اِس وقت یہاں کیسے ہم تو تمہاری طرف ہی آرہے تھے وہ میری نائٹ ڈیوٹی تھی تو ابھی ابھی ہاسپٹلسے آیا ہوں اور عظمیٰ مجھے چائے دینے کے لئے آگئی تھی۔
عمیر: جی ارسلان بھائی مجھے دراصل آپ سے کچھ کام تھا اسی لئے میں خود یہاں چلا آیا
ارسلان: کام ! کیسا کام
عمیر: اندر چل کر بات کریں۔
ارسلان: ہاں کیوں نہیں آجاؤ میرے کمرے میں۔
عظمیٰ: لیکن بھائی آپ کی چائے۔
ارسلان: وہی کمرے میں ہم دونوں کی چائے لے آؤ
دونوں کمرے میں گئے، ارسلان نے عمیر سے کام کے بارے میں پوچھا تو وہ کہنے لگا بھائی میں بہت پریشان ہوں کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں، کیسے اس مشکل سے چھٹکارا حاصل کروں تو آج صبح مجھے بیٹھے بیٹھے آپ کا خیال آیا کہ اس مشکل سے چھٹکارا پانے میں صرف آپ میری مدد کر سکتے ہیں۔
ارسلان: کیسی مشکل، میں کچھ سمجھا نہیں
عُمیر: ارسلان بھائی آپ جانتے ہیں ابو جان نےجائیداد کا تہائی حصہ آپی کے نام کر دیا ہے۔
ارسلان: کیا؟ یہ کب ہوا ، مجھے تو کچھ پتہ نہیں
عُمیر: بہت عرصہ پہلے، وہ تو امی کی وجہ سے چُپ ہوں لیکن مجھ سے یہ سب برداشت نہیں ہو رہا۔ پرسوں تو وہ اپنے سُسرال چلی جائیں گی اور پھر اُس کا شوہر ہم پر حق جتانے آئیں گا کہ میں حصہ دار ہوں۔ مجھ سے یہ سب برداشت نہیں ہوگا۔ میں چاہتا ہوں وہ یہاں سے جا رہی ہے تو ہمیشہ کے لئے چلی جائیں کبھی پلٹ کر واپس نہ آئیں۔
ارسلان: لیکن عمیر ایسا تو نہیں ہوتا ہے وہ بیچاری چلے جائیں گی تو کہاں روز روز آئیں گی جب بھی آئیں گی کچھ پل کے لئے مہمان بن کر آئیں گی اور واپس چلی جائیں گی یہی تو رواج ہے۔ اور عُمیر میری کیا مدد چاہیے تمہیں اِس سب میں، میں کیا کر سکتا ہوں، تم جا کر چچا سے بات کرو نا۔
عُمیر: آپ میری بات سمجھے نہیں، اُن سے بات کر کے کچھ حاصل نہیں ہونے والا ، آپ جانتے ہیں نا وہ اُن کی لاڈلی ہیں۔ آپ کو ہی میری مدد کرنی ہوگی۔
ارسلان: لیکن بھئی میں اِس سب میں کیا کر سکتا ہوں۔
عُمیر: میری مدد صدف آپی کو ٹِھکانے لگانے میں، کوئی ایسی دوا دے دیجیے کہ وہ ہمیشہ کے لئے سو جائیں۔
ارسلان: ہوش میں تو ہو ، پتہ بھی ہے کیا کہہ رہے ہو ، کل اُس کی شادی ہے اور تم اُس کو مارنا چاہتے ہو۔ کمبخت وہ جیسی بھی ہے بہن ہے تمہاری۔
عُمیر: جی جانتا ہوں کیا لگتی ہے وہ میری، لیکن اِس کے علاوہ کوئی چارہ بھی تو نہیں ہے نا، اور آپ کو میری مدد کرنی ہوگی ، آج میرے ساتھ ہُوا ہے کل آپ کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ تب پوچھوں گا آپ سے جب چچا اپنی آدھی جائیداد بیٹیوں کے نام کر دیں گے۔
ارسلان: لیکن عُمیر کوئی اور راہ نکالو اُس معصوم کی جان تو مت لو۔ تم اُس سے بات کرو وہ خود سب کچھ تمہیں دے دیں گی۔
عُمیر: جی وہ تو دیں گی لیکن کیا اُس کا شوہر اُس کو دینے دے گا اور میں مفت میں آپ کی مدد نہیں مانگ رہا ، موٹی رقم ادا کروں گا۔
ارسلان: کیا تم مجھے رشوت دے رہے ہو۔ تمہیں میں اتنا گرا ہوا لگ رہا ہوں۔ میرا ضمیر مجھے کوسے گا۔
عمیر: جی نہیں بھائی رشوت نہیں دے رہا ہوں۔ یہ تو آپ کا پیشہ ہے۔ ہر وقت جو نجی کلینک پر مریضوں کو لوٹتے رہتے ہیں۔ اس وقت جیسے آپ کا ضمیر لمبی تان کے سوتا ہے ویسے ہی اس کام میں بھی رقم لے کر اُس کوسُلا دیجیے۔
ارسلان: اچھا، کتنا دو گے۔۔۔۔۔۔؟
عُمیر: آپ کو کتنا چاہئے۔
ارسلان: دو لاکھ سے کم نہیں لوں گا۔
عُمیر: ٹھیک ہیں پھر ڈیل پکی ، لیکن ہمیں آج ہی اُس کو ٹھکانے لگانا ہوگا۔
عظمیٰ : اندر سے آتے ہوۓ کڑک لہجے میں بول پڑی کس کو ٹھکانے لگانے کی بات ہو رہی ہے۔
ارسلان: کچھ نہیں ، بس مزاق کر رہے تھے دونوں بھائی، تم چائے رکھو اور جاو۔
عظمیٰ: میں نے غلطی سے آپ دونوں کی ساری باتیں سُن لی ہے ابھی جا کر سب کو بتاتی ہوں۔
عُمیر: نہیں عظمیٰ آپی پلیز ایسا مت کیجئے گا آپ بھی ہمارا ساتھ دیجئے نا اِس کام میں، میں صدف آپی کے تمام زیور آپ کو دے دوں گا۔
عظمیٰ: پاگل تو نہیں ہوگئے ہو اور کس کس کو کیا کیا دے دو گے، مجھ سے کہہ رہے ہو میں اُس کو مارنے میں تمہارا ساتھ دوں شرم نہیں آتی۔
عُمیر: ذرا سوچیں صدف کے تمام زیور آپ کے آپ کی تو لائف بن جائیں گی۔
ارسلان: ہاں بھائی ہم تمہارا ساتھ دے دیں گے۔ عُمیر تم چائے پیو میں ذرا عظمیٰ سے بات کر لوں۔
ارسلان نے عظمیٰ کو دوسرے کمرے میں لے جاتے ہوئے کہا ۔ عظمیٰ مان جاو نا میری جان ، وہ اِس وقت کچھ بھی دینے کے لئے تیار ہے۔ وہ مرتی ہے تو مرے ہمارا کیا جاتا ہے سوچو وہ ہمیں کچھ بھی دینے کے لئے تیار ہے پیسہ، زیور ۔۔۔۔۔۔ ہمارا تو فائدہ ہی فائدہ ہے۔ مان جاو نا میری جان۔
عظمیٰ: ٹھیک ہے بھائی ، لیکن میں اُس کو مارتے وقت آپ کی کوئی مدد نہیں کروں گی۔
ارسلان: تو تم سے کس نے کہا تم کچھ کرو تمہیں تو صرف خاموش رہنے کا اتنا کچھ مل رہا ہے۔
عظمیٰ: ٹھیک ہیں پھر۔
ارسلان: تو بتاؤ عُمیر کیا کرنا ہوگا ، کیسے اور کب؟
عُمیر: ارسلان بھائی جو بھی کرنا ہوگا آج رات ہی کرنا ہوگا اُس کی رخصتی سے پہلے۔۔۔۔۔۔۔
ارسلان: ٹھیک ہے تو بتاؤ کیا پلان ہے۔
عُمیر: وہ جب صبح نماز کے لئے اُٹھے اُسی وقت سب کر دیتے ہیں کسی کو کچھ خبر بھی نہیں ہوگی اور نہ کوئی دیکھ پائے گا۔ لیکن یہ کام ایسے انجام دینا ہے کہ سب قدرتی لگے۔
ارسلان: ٹھیک ہیں، لیکن یہ بتاؤ ، کرو گے کیسے۔
عُمیر: صبح جب نماز کے لئے اُٹھے گی تو عظمیٰ ہمیں اطلاع کر دے گی ۔ ہم دونوں خاموشی سے جاکر اُس کو پنکھے سے لٹکا دیں گے سب کو لگے گا اُس نے خودکشی کر لی ہے۔
ارسلان: یعنی تمہیں لگتا ہے ہم اُس کو پنکھے سے لٹکا دیں گے اور وہ بنا شور کئے خاموشی سے لٹک جائیں گی، پاگل تو نہیں ہو گئے ہو ، ایسے تو ہم آسانی سے پکڑے جائیں گے۔
عظمیٰ: پنکھے سے کیوں لٹکا دو گے، بیچاری کو موت دے ہی رہے ہو تو آسان موت دے دو نا دم گھونٹ دو اُس کا۔
عُمیر: یہ ہوئی نا بات تو اسی بات پر ملاؤ ہاتھ۔ ارے عظمیٰ آپی آپ تو ہم سے بھی تیز نکلی۔
اس کے بعد تینوں شادی میں ہاتھ بٹانے کے لئے چلے گئے۔ رات کو دیر تک سب لوگ مستیاں کر رہے تھے۔ خاص کر عُمیر وہ تو خوشی کے مارے پاگل ہو رہا تھا اور اُس کو دیکھ کر عافیہ وقار سے کہنے لگی دیکھیں میں نا کہتی تھی کہ ہمارا عُمیر بھی صدف سے محبت کرتا ہے بس جتاتا نہیں ہے، دیکھیں کیسے ساری نفرت بُھلا کر بہن کی خوشی میں خوش ہو رہا ہے اور وقار اُس سے کہنے لگا ہاں بھئی آج اُس کو اِس طرح دیکھ کر مجھے بھی بہت خوشی ہو رہی ہے۔ دیر سے ہی سہی لیکن اُس کو میری بیٹی کی قدر تو آئی۔ اُس کے بعد عافیہ صدف سے کہنے لگی، صدف بیٹا جاؤ جاکر سو جاؤ ، صبح مہندی ہے تو رات بھر جاگنا پڑے گا اور تھکان چہرے پر اُتر آئیں گی ۔ جاؤ بیٹا جا کر سو جاؤ۔
عظمیٰ: چچی جان آپ کہیں تو میں آج رات صدف کے پاس سو جاؤں وہ کیا ہے نا یہ اس گھر سے جا رہی ہے تو بہت یاد آئیں گی اس کی۔
عافیہ: ٹھیک ہے پھر اِس کو لے جا کر سو جاو۔
اس کے بعد کچھ دیر بعد سب سو گئے، صبح اذان ہوئی تو صدف نماز کے لئے اُٹھ کھڑی ہوئیوہ جیسے ہی کمرے سے بہار چلی گئی تو عظمیٰ نے عُمیر اور ارسلان کو اطلاع دی۔
وہ دونوں کمرے میں داخل ہوئے تو صدف نماز پڑھ رہی تھی۔
عُمیر: آپی آپ نماز قائم رکھے ، میں جو بات کرنے آیا ہوں ایسے ہی کر لوں گا۔ مجھے معاف کر دیجیے گا آپی میں نے کبھی آپ کو بھائی کا پیار نہیں دیا اور آج جب ہوش آیا تو آپ جا رہی ہے ، آپی آپ نے بہت جی لی اپنی زندگی ، ابو جان اور امی جان کی محبت سب کچھ پایا آپ نے، لیکن آپی اب میں بھی جینا چاہتا ہوں اور اِس کے لئے آپ کا جانا ضروری ہے۔ مجھے معاف کیجئے گا کہ آپ کو ایسے بھیج رہا ہوں لیکن کیا کروں میں بھی مجبور ہوں اور ارسلان سے کہنے لگا ارسلان بھائی کرے شروع
ارسلان نے صدف کو پکڑ لیا اور عُمیر نے تکیہ صدف کے منہ پر رکھ کر اُس کا دم گھونٹ دیا اور جیسے ہی اُس کی سانسیں بند ہوگئی تو تینوں نے اُس کو اٹھا کر بستر پر لِٹا دیا اور وہاں سے خاموشی سے چلے گئے۔
وقار: عافیہ بیگم صدف کو چائے دی۔ کہاں ہے وہ نظر نہیں آئی صبح سے۔
عافیہ: جی وہ سو رہی ہے ابھی تک، رات شاید تھک گئی تھی بہت تو ابھی تک اُٹھی نہیں ، میں نے جگایا نہیں سوچا تھوڑی دیر آرام کر لے۔
وقار: لیکن ابھی تو دن چڑھ آیا، جا کر جگاؤ اُس کو۔
عافیہ: آپ بیٹھیں، میں ابھی جگا کر آتی ہوں۔
صدف اُٹھو بیٹا دیر ہوگئی، دن چڑھ آیا، تم کبھی تو اتنی دیر تک نہیں سوتی آج کیا ہوگیا۔ صدف بیٹا اُٹھو۔ عافیہ نے صدف کے قریب جاکر اُس کو ہلایا تو اُس کے حرکت نہ کرنے پر وہ چیخ اُٹھی وقار، وقار ، صدف اُٹھ نہیں رہی آکر دیکھیں تو ذرا اِس کو کیا ہو گیا ہے۔ اُس کے چیخنے پر سب لوگ کمرے میں جمع ہوگئے۔
وقار: صدف بیٹا اُٹھو ، کیا ہوا ہے تمہیں، اُٹھ کیوں نہیں رہی ہو۔ صدفبیٹا صدف۔۔۔۔۔۔۔۔ بھابھی ذرا ارسلان کو تو بُلا کر لائیں ، اُس سے کہیں کہ صدف کو دیکھیں یہ اُٹھ کیوں نہیں رہی۔
کچھ دیر بعد ارسلان کمرے میں داخل ہوا اور انجان بنتے ہوئے کہنے لگا کیا ہُوا ہے چچا، سب خیریت
وقار : ارسلان بیٹا دیکھو نا کیا ہُوا ہے اِس سے؟
ارسلان نے صدف کا معائنہ کیا اور سر جھکا کر اپنے چچا سے مخاطب ہُوا۔ چچا یہ اب نہیں اُٹھے گی مجھے بہت دکھ کے ساتھ کہنا پڑھ رہا ہے ہماری صدف اب نہیں رہی۔ اِس کو دل کا دورہ پڑا ہے۔ اور یہ سنتے ہی آہ و فغاں شروع ہوئی اور خوشیوں والے گھر میں ماتم پھیل گیا۔
اُس کے سُسرال والوں کو اطلاع دی گئی تو وہ سب فوراً چلے آئیں۔
دانش نے صدف کو کفن میں لپٹے دیکھا تو وہ نڈھال ہو کر گِر گیا، اُس کے دوستوں نے دانش کو سنبھالنے کی بہت کوشش کی تو وہ اُس کی منتیں کرنے لگا، یار دیکھ نا میری صدف کو کیا ہوگیا ہے وہ تو اتنی خوش تھی، وہ مجھے یوں اکیلا چھوڑ کر کیسے جا سکتی ہے، اُس نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ ہمیشہ میرے ساتھ رہے گی پھر وہ مجھے یوں چھوڑ کر کیوں چلی گئی، دیکھ نا اِس کو دیکھ تو لے ایسا لگ رہا ہے وہ سو رہی ہے ، تو ذرا دیکھ تو لیں تاکہ مجھے یقین ہو جائیں کہ وہ سچ میں چلی گئی ہیں۔
دانش اس طرح بلک رہا جیسے کوئی چھوٹا بچہ ہو جس کو کچھ سمجھ نہیں آتا ہے۔ اُس کے دوست اُس کو دلاسہ دیتےرہے، حوصلہ دیتےرہےاور دانش کی اتنی منتیں کرنے پر اُس کا دوست صدف کا جائزہ لینے لگا تو وہ دانش کے کان میں کچھ کہہ کر اُس کو وہاں سے اُٹھا کر اپنے ساتھ باہر لے گیا۔
کفن دفن کے بعد دانش وقار سے مخاطب ہوا انکل مجھے نہیں لگتا صدف کو دل کا دورہ پڑا ہے۔ رات ہی تو میں نے اُس کے ساتھ بات کی ، وہ تو اتنی زیادہ خوش تھی پھر اُس کو دل کا دورہ کیسے پڑھ سکتا ہے۔ نہیں! میں نہیں مانتا یہ سب اور حقیقت کا پتہ لگا کر ہی رہوں گا۔۔۔۔۔۔۔
وقار: لیکن بیٹا ارسلان نے تو خود اُس کا معائنہ کر کے بتایا کہ اُس کو دل کا دورہ پڑا ہے۔
دانش: نہیں انکل مجھے نہیں لگتا وہ ہمیں چھوڑ کر چلی گئی ہے، مجھے تو لگتا ہے اُس کو بھیجا گیا ہے اور میں تحقیقات کرا کے ہی دم لوں گا۔
وقار: کیا ! مطلب بیٹا آپ کو لگتا ہے کہ ہماری بیٹی کو قتل کیا گیا ہے؟
دانش: جی انکل ، مجھے ایسا ہی لگتا ہے کیونکہ خوشی میں اس طرح دل کا دورہ پڑنا۔ بات کچھ ہضم نہیں ہو رہی۔
وقار لیکن بیٹا اُس کو قتل کرے گا کون، وہ بھی اپنے ہی گھر میں۔۔۔۔۔، اُس کی تو کسی کے ساتھ کوئی دشمنی بھی نہیں تھی۔ بیٹا مجھے لگتا ہے کہ آپ یہ سب صدمے میں کہہ رہے ہیں مان جاؤ کہ ہماری صدف اب نہیں رہی۔ قبول کر لو اس بات کو۔
دانش: اب یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ اصل میں ہُوا کیا ہے۔
اور یہ کہہ کر دانش وہاں سے چلا گیا۔
ایک طرف دانش نے بڑے پیمانے پر تحقیقات شروع کروائی اور دوسری طرف وقار بیٹی کے غم میں ڈوبتا گیا، اُس نے کھانا پینا چھوڑ دیا اور خود کو ایک کمرے تک محدود کر لیا۔ وہ کسی سے بھی نہیں ملتا تھا اُس کی حالت دن بہ دن بگھڑنے لگی۔ وہ دن بھر مصلحہ پر بیٹھ کر آنسو بہاتا رہتا تھا۔
پندرہ دن ہوگئے اور دانش اب بھی صدف کے کیس کی تحقیقات کرا رہا تھا اُس کو پورا یقین تھا کہ وہ صدف کے ملزموں تک پہنچ جائیں گا اور اپنا کام کاج چھوڑ کر وہ بس ملزموں کی تلاش میں تھا۔ آخر کار اُس کی کوشش رنگ لے آئی اور سارا سچ سامنے آگیا اور دانش پولیس ٹیم کے ساتھ ملزموں کو گرفتار کرانے اپنے سُسرال پہنچتا ہے۔ دانش گھر میں داخل ہوا تو سارا خاندان ایک ساتھ بیٹھا تھا۔ اور وقار بھی اُس وقت اتفاقاً وہی موجود تھا۔
دانش: اسلام علیکم
وقار: وعلیکم سلام ، کیسے ہو بیٹا، آؤ بیٹھ جاؤ کھڑے کیوں ہو، صدف کے جانے کے بعد کہاں غائب ہوگئے تھے، ایک بار مجھے پوچھنے تک نہیں آئیں۔
دانش: نہیں انکل میں بیٹھنے نہیں آیا ہوں بلکہ میری صدف کے ملزموں کو پولیس کے حوالے کرنے آیا ہوں۔
وقار: صدف کے ملزموں کو ! بیٹا میں سمجھا نہیں کچھ۔۔۔۔
دانش: انکل یاد ہے جب صدف کی موت پر میں یہاں آیا تھا تو میرے ساتھ میرا دوست بھی تھا، اُس نے صدف کا معائنہ کر کے مجھے اسی وقت بتایا تھا کہ صدف کی موت دم گُھٹنے کی وجہ سے ہوئی ہے اور اُسی بنا پر میں نے آپ سے تحقیقات کی بات کی تھی۔ میں اُس وقت صرف اِس لئے خاموش رہا تاکہ ملزم باخبر نہ ہوجائے۔
وقار: کیا میری بیٹی کا قتل ہُوا ہے ! دانش، بیٹا مجھے بتاؤ کس نے کیا ہے، کون ہے وہ بے رحم جس کو میری بیٹی پر رحم نہیں آیا۔ اُس کی کسی کے ساتھ ایسی کیا دشمنی تھی جو اُس کو اتنی بے رحمی سے قتل کیا گیا۔
دانش: چند روپیوں اور زمین کی خاطر کسی اور نے نہیں بلکہ خود آپ کے اپنے بچوں نے۔۔۔۔۔۔۔
وقار: میرے بچوں نے مطلب؟
وقار: جی انکل آپ کے اپنے بچوں نے، ملزم پولیس کی تحویل میں ہیں اور اعترافِ جرم کر چکا ہے۔
وقار: لیکن دانش بیٹا سارے بچے تو گھر میںہے۔
وقار: جی انکل بلکل سوائے ارسلان کے

وقار: ارسلان، بیٹا ارسلان تو کسی میٹنگ کے لئے دہلی گیا ہُوا ہے۔
دانش: جی انکل وہ نکلا تو دہلی کے لئے ہی تھا لیکن وہ دہلی پہنچا نہیں، پولیس نے اُس کی بھاگنے کی کوشش ناکام بنائی اور اُس کو اپنی تحویل میں لے لیا۔ جہاں اُس نے میرے سامنے اعترافِ جرم کیا کہ کیسے اُس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ہماری صدف کو مار ڈالا۔
وقار: ساتھی! کو۔۔۔۔ کو۔۔۔۔۔ کون سے ساتھی
دانش: جی انکل ساتھی عُمیر، ارسلان اور عظمیٰ نے مل کر چند روپیوں اور زمین کی خاطر ہماری صدف کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سُلا دیا۔
وقار: کیا عُمیر نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دانش: جی آپ نے بلکل صحیح سُنا عمیر نے
وقار۔۔ عُمیر کا گریبان پکڑتے ہوئے اُس سے مخاطب ہُوا کمبخت تُم نے میری بیٹی کو مار ڈالا۔ اُس معصوم نے تمہارا کیا بگاڑا تھا جو تم نے اُس کو اتنی بے رحمی سے مار ڈالا، صرف اِس لئے نا کہ میں نے کچھ زمین اُس کے نام کر دی تھی۔ ارے کمبخت وہ تو صرف اِس لئے کی تھی کیونکہ مجھے ڈر تھا ، وہ یہاں سے چلی جائیں تو میرے بعد تم اِس گھر کے دروازے اُس پر بند نہ کر دو لیکن مجھے کہاں معلوم تھا کہ میرا خون اتنا ٹھنڈا ہے کہ میرا ایسا کرنے سے تم اُس کو اِس دنیا میں رہنے نہیں دو گے۔ اُس سے جینے کا حق چھین لو گے۔ کمبخت ایک بار بھی تمہیں اُس کی معصومیت پر رحم نہ آیا ۔
دیکھ لو عافیہ بیگم دیکھ رہی ہیں آپ کہ اِس بدبخت نے کیا کر دیا ہے۔
عافیہ: نہیں یہ صدف سے نفرت ضرور کرتا تھا وقار صاحب لیکن یہ اتنا کمینہ نہیں ہوسکتا کہ اُس کا قتل کر ڈالے۔ ہمارا خون اتنا ٹھنڈا نہیں ہوسکتا، میں نہیں مانتی اِس بات کو، اور دانش کے سامنے جاکر کہنے لگی دانش، بیٹا آپ کو ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے، یہ بات سچ ہے کہ عمیر صدف کو سوتیلی مانتا تھا لیکن اُس کا قتل نہیں کر سکتا۔ ارے وہ تو اُس کی شادی پر سب سے زیادہ خوش تھا، خوش! عمیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ عمیر کے قریب جاکر اُس کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر پوچھنے لگی عمیر تمہاری خوشی کی وجہ صدف کی شادی تھی یا کچھ اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سچ سچ بتاؤ
عمیر: امی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عافیہ: عمیر کو تھپڑ رسید کرتے ہوئے، خبر دار جو مجھے امی کہا تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں ایک قاتل کی ماں نہیں ہوسکتی۔ مر گئے ہو تم ہمارے لئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وقار کے پاس جاکر بیٹھ گئی وہ روتے ہوئے خودکلامی کر رہا تھا
صدف بیٹی مجھے معاف کر دو میں تمہارا گنہگار ہوں مجھے معاف کر دو بیٹا مجھے نہیں پتہ تھا میرا تمہیں تمہارا شرعی حق دینے پر یہ کمبخت تُم سے جینے کا حق چھین لے گا مجھے معاف کر دو بیٹا مجھے معاف کر دوں ۔ اور دانش سے مخاطب ہو کر کہنے لگا دانش بیٹا لے جاؤ اِس بدبخت کو اور تب تک چین کی سانس نہ لینا جب تک اِس کو پھانسی نہ ہوجائیں۔ میں تمہارے ساتھ ہوں دانش جاؤ اور جاکر دِلا دو ہماری صدف کو انصاف۔۔۔۔۔۔۔۔

ختم شد ؁۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں