78

آن لائن ایجوکیشن :فائدے محدود مگر نقصانات لامحدود

بچوں بچیوں میں نقل اور خرافات کی عادت پروان چڑھی، دوسروں پرانحصار کارُجحان بڑھا

سری نگر:۲۰،اگست: اب جبکہ جموں وکشمیر بورڈ آف اسکول ایجوکیشن نے اسکنڈری اورہائراسکنڈری سطح کے سالانہ امتحانات ماہ نومبر 2020میں لینے کاباضابطہ اعلان کردیاہے ،اور نصاب میں کوئی چھوٹ دئیے بغیر طلباء وطالبات سے دئیے گئے سوالات میں سے صرف 70کے جوابات لکھنے کوکہاہے ،جو100فیصد تصورکیا جائیگا ،توبڑا اوراہم سوال یہ پوچھا جارہاہے کہ مارچ سے گھروں میں بیٹھے زیرتعلیم کمسن ،نوعمر اورنوجوان طلباء اور طالبات نے نئے طرز تعلیم یعنی آن لائن ایجوکیشن سے کیاحاسل کیا۔جے کے این ایس کے مطابق سال رواں کے اوائل میں جب کورونا وائرس ایک ناگہانی بلا کی صورت دنیا پر مسلط ہوا۔تو دنیا کا کوئی ملک اس بلائے ناگہانی کا سامنا کرنا تو کجا اس سے بچائوکا متحمل نہیں تھا۔کورونا وباء کے پھیلائو کا سب سے بڑا خطرہ اسکولوں اور تعلیمی اداروں پرمنڈلاتے دیکھ کر اُنھیں فوراً بند کردیا گیا جس کی وجہ سے روایتی طریقہ تعلیم تقریباً منقطع ہوکررہ گیا۔بعض کارپوریٹ تعلیمی ادارے(جو اپنے طرز عمل کی وجہ سے بدترین شہرت کے حامل ہیں) کے علاوہ حکومت کے زیر اہتمام چلائے جانے والے اسکولز نے بھی آن لائن تعلیم (ورچول لرننگ) سے طلبہ کو مستفیض کرنے کا عزم و بیڑہ اٹھایا۔ طلبہ کو وباء کے ایسے نازک دور میں گھروں پر فارغ بٹھانے کے بجائے آن لائن تعلیم سے بہرور کرنے کی تعلیمی ادارہ جات کی اس مساعی کو شاید قابل تحسین قرار دیاگیا لیکن تعلیم کے بنیادی ڈھانچے اورتمام طلاب کودستیاب لازمی سہولیات کو نظرانداز کرتے ہوئے اٹھایا جانے والا یہ قدم کسی بھی طرح تعلیمی مفاد ات کے حق میں نہیں رہا۔ بلکہ نت نئے مسائل اورمشکلات پیداہوگئے ،جو شایدآنے والے دنوں میں عقل وفہم سے عاری لاکھوں طلاب کے تعلیمی مستقبل پر بھاری پڑجائیں گے ۔آن لائن لی جانے والی کلاسز اورآن لائن لئے جانے والے امتحانات کے دوران چیک اینڈ بیلنس کاکوئی خیال نہیں رکھاگیا،جسکے باعث بچوں نے تعلیم کے اس نئے طریقے کووقت گزاری سمجھا۔یوں آن لائن ایجوکیشن سے نفع سے زیادہ نقصانات کا اندیشہ واحتمال پیداہوا۔انہی اندیشوں نے طلبہ،اولیائے طلبہ، اساتذہ تعلیمی ماہرین اور ماہرین نفسیات کو آن لائن تعلیمی نظام کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے پر مجبور کردیا ۔ عوام کی ایک بڑی تعداد جو کل تک ا ی لرننگ یا آن لائن طریقہ تعلیم کے صرف نام سے واقف تھی،اس کے طریقہ کار سے بالکل آگاہ نہیں تھی اور ان کے لئے یہ ندرت سے پر، خوب صورت اور اعلیٰ معیار کا ایک پرکشش لیبل تھا۔لیکن جب ان کو اسے قریب سے دیکھنے اور برتنے کا موقع ملاتب انھیں اس کے مضمرات،خرابیوں اور کوتاہیوں کا علم ہوا۔طلبہ کے لئے درس و اکتساب کا عمل پہلے جیسا دلچسپ متحرک اور توانائی سے بھرا نہیں رہا بلکہ یہ ان کے لئے آج بوریت سے پر، اکتاہٹ سے بھرا، بے روح اور بے کیف عمل بن کر رہ گیا ہے۔اقوام متحد ہ کی تعلیمی،سائنسی اور ثقافتی تنظیم(یونیسکو)جو ایک کثیر جہتی تنظیم ہے نے اپنی 21اپریل کو جاری رپورٹ میں تعلیم کے آن لائن طریقہ کی جانب پیش قدمی کے بارے میں تشویشناک حقائق کو اجاگر کیا تھا۔عالمی تناظر کے پیش نظر یونیسکو نے متنبہ کیا تھاکہ طلبہ کی نصف تعداد جو کہ 82کروڑ 6 لاکھ پر مشتمل ہے تعلیم کے آن لائن ہونے کی وجہ سے تعلیم سے محروم ہوجائے گی کیونکہ ان کے گھروں میں کمپیوٹر دستیاب نہیںہے۔اس کے علاوہ طلبہ کی 43فیصدتعداد جوکہ تقریباً7کروڑ6لاکھ پر مشتمل ہے کے گھروں میں انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب نہیں ہے۔ماہرین کہتے ہیں کہ کالج اور یونیورسٹیز میں زیرتعلیم طلبہ میں شعور و آگہی بہ نسبت اسکولی طلبہ کے زیادہ پائی جاتی ہے۔اسکولوں میں زیر تعلیم طلبہ نوخیز اور کچی عمر کے ہوتے ہیں۔آن لائن تعلیم یونیسف کے مطابق نوخیز عمر کے طلبہ کے لئے خطرات و اندیشوں کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔نوخیز طلبہ کا انٹرنیٹ سے تعامل مختلف قسم کے استحصال کا سبب بن سکتا ہے۔کل ملاکر ان سارے حقائق کی روشنی میں ماہرین کامانناہے کہ آن لائن ایجوکیشن سے لاکھوں کروڑوں زیرتعلیم بچوں ،بچیوں اورنوجوان لڑکوں ولڑکیوں کوفائدے محدودپیمانے پرملے ہیں لیکن نقصانات لامحدود ہیں ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں