غزل
مجازِ سمیر۔۔۔۔سرینگر
امید لگائے ہوئے اک عرصہ ہو گیا
دل کو یونہی بہلائے اک عرصہ ہو گیا
جبیں میری دہلیز کی رو رہی ہے
تیرے قدموں کی آہٹ سنے اک عرصہ ہو گیا
کب تلک ہو تیرے رخ کی زیارت
آنکھوں کا نور کھوئے اک عرصہ ہو گیا
تشنگی تیرے وصل کی اوج پے ہے
تیرے ہونٹوں کی مئے پیے اک عرصہ ہو گیا
ہوش میں ہوں یا خواب میں
بیہوشی میں پڑے اک عرصہ ہو گیا
فرشتے تاک پر ہے کب جنازہ اٹھے
مجازِسمیر تُجھے کفن لپیٹے اک عرصہ ہو گیا