غزل
پرویز مانوس
اک مُدت کے بعد ہوئی ہے دل کے دروازے پر دستک
کس نے تاریکی میں دی ہے دل کے دروازے پر دستک
سمٹی شرمائی سی آئی نازک قدموں چلتے چلتے
جانے کب سے بھیگ رہی ہے دل کے دروازے پر دستک
جب سے حسرت دفن ہوئی ہے خوابوں کی تعبیر کے ہمراہ
اپنی قسمت پر ہنستی ہے دل کے دروازے پر دستک
لمس کسی کا مہکاتا ہے ہر پل ہی میرے حُجرے کو
دُھول کی مانند آج جمی ہے دل کے دروازے پر دستک
تاریکی آسیب بنی جب اس دل کے خالی کمرے میں
مثلِ شمعِ غریب بھجی ہے دل کے دروازے پر دستک
جسم کے بھید تو کھل جاتے ہیں اکثر وصل کی پہلی ہی شب
پھر کیوں روح کے ساتھ رُکی ہے دل کے دروازے پر دستک
کانوں کو لگتی تھی پیاری ہر آہٹ پہلے تو ہر دن
آج اذیت ناک بنی ہے دل کے دروازے پر دستک
یاد کے جن پودوں کو ہم نے اک مُدت پہلے سینچا تھا
اُن کی خوشبو آج ہے لائی دل کے دروازے پر دستک