غزل
غلام رسول شاداب
مختصر سی زندگی میں کیا جُٹا پایا ہوں میں
ڈھیر سارے خواب بس دل میں سجا پایا ہوں میں
اپنی گزری زندگی میں کام اچھے بھی کیے
پر برائی سے نہیں خود کو بچا پایا ہوں میں
موت دستک دے رہی ہے آکے اب نزدیک تر
رابطہ رب سے نہ اب تک بھی بنا پایا ہوں میں
سوچتا تھا دائمی ہیں سب یہاں عیش و طرب
پر جہاں کو آخرش اس سے جدا پایا ہوں میں
بڑھ گئی احساں فراموشی کی بیماری مگر
عیب یہ کم ظرف میں ہی تو سدا پایا ہوں میں
سج رہی ہے جا بجا اب محفلِ رقص و سرور
پھر بھی اک لمحہ ، سکون و چین کیا پایا ہوں میں؟
ہےجہاں سے تجھ کو نفرت ہو گئی شاداب کیوں
تُو تو کہتا تھا جہاں کو دلرُبا پایا ہوں میں
غلام رسول شاداب، مڑواہ (کشتواڑ)
رابطہ، 9103196850