غزل
یاورؔ حبیب ڈار
نا کوئی فائدہ اور نا زیاں پہنچا
بس یہی بات بڑی بات ہے پیارے
دیکھ لے آندھیوں کی زد میں پڑی ہے
کتنی مظلوم مری رات ہے پیارے
اب یہاں عہد وفا کون کرے ہے
کیوں کہ یہ جائے مکافات ہے پیارے
کرگئی خُوب ملامت ، تو کہوں ہوں
کیا اسی کو کہے ہیں ذات ہے پیارے
نا سکوں ہے کہیں نا چین پڑے ہے
بند کمرے کی یہی بات ہے پیارے
میں کدھر جاؤں کیا کیا میں کروں ہوں
بد سے بدتر ہوئی ہرزات ہے پیارے
وحشتیں خوف و رجا نیم شبی کے
دل پہ گزری کہو کیا رات ہے پیارے
زخم پنہاں ہو گئے پھر سے عیاں کیوں؟
کیوں عیاں ہوگئی، یہ گھات ہے پیارے!
زندگی جوش جنوں میری کرے ہے
وہ یہی دار مکافات ہے پیارے