غزل
شمیم انجم وارثی
تخیل سے خیال و خواب سے باہر نہیں نکلے
ہم اپنے حلقۂ احباب سے باہر نہیں نکلے
سدا الجھے رہے لفظ و معانی کے مسائل میں
کتابِ زندگی کے باب سے باہر نہیں نکلے
وہ دعویٰ کر رہے ہیں آج دریا زیر کرنے کا
جو جیتے جی کبھی تلاب سے باہر نہیں نکلے
وہی یادیں وہی آنسو وہی کمرے کی تنہائی
ہم اس کے ہجر کے گرداب سے باہر نہیں نکلے
خداسے بھی لڑے،مانگی کرم کی بھیک بھی لیکن
خیالِ گنبد و محراب سے باہر نہیں نکلے
یہ جھوٹے لوگ جھوٹی شان و شوکت کے لیےاب تک
وراثت میں ملے القاب سے باہر نہیں نکلے
تمہاری یاد یوں لپٹی رہی دل سے شمیم انجم
کہ جیسےکوئی مچھلی آب سے باہر نہیں نکلے
۞۞۞۞
شمیم انجم وارثی۔ رابطہ۔ 9339680799