ترکی کے شہر استنبول میں واقع آیا صوفیہ میں لگ بھگ آٹھ عشروں بعد پہلی مرتبہ نمازِ جمعہ ادا کی جائے گی جس کے لیے صدر رجب طیب ایردوان سمیت کئی اہم رہنما اور شہریوں کی بڑی تعداد مسجد میں موجود ہے۔ترکی کی سب سے بڑی عدالت نے چند روز قبل اپنے ایک حکم میں 1934 میں میوزیم میں تبدیل کی گئی تاریخی عمارت آیا صوفیہ کو ایک بار پھر مسجد میں تبدیل کرنے کا حکم دیا تھا۔ترک صدر رجب طیب ایردوان نے چھٹی عیسوی میں تعمیر ہونے والی اس عمارت کو مسجد کا درجہ دینے کی توثیق کی اور اسے مسلمانوں کے لیے کھولنے کے احکامات کے بعد 24 جولائی کو کئی عشروں بعد پہلی مرتبہ نمازِ جمعہ کی ادائیگی کا اعلان کیا۔جمعرات کو طیب ایردوان نے آیا صوفیہ میں نصب کی گئی تختی کی نقاب کشائی کی جس میں اسے ‘آیا صوفیہ گرینڈ موسک‘ کا نام دیا گیا ہے۔ترکی میں مذہبی اُمور کے سربراہ علی ارباز کے مطابق نمازِ جمعہ کے اجتماع میں ایک ہزار کے لگ بھگ نمازی شریک ہوں گے۔علی ارباز نے آیا صوفیہ کے لیے تین موذنوں کی تقرری کا بھی اعلان کیا تھا جن میں سے دو کا تعلق استنبول کی مشہور سلطان احمد مسجد (بلیو موسک) سے ہے۔نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے حکام نے آیا صوفیہ کے باہر خواتین اور مرد حضرات کے لیے علیحدہ علیحدہ جگہ کا بھی انتظام کیا ہے جب کہ مسجد کی طرف جانے والی متعدد سڑکوں کو بند کیا جا رہا ہے۔ترک میڈیا کے مطابق نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے قطر اور آزربائیجان سمیت کئی مسلمان ممالک کے رہنماؤں کو دعوت دی گئی ہے۔نماز جمعہ کی ادائیگی کے دوران کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے لیے لگ بھگ 20 ہزار سیکیورٹی اہل کار تعینات کیے گئے ہیں۔آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنے پر یونان، امریکہ اور کئی یورپی ملکوں نے تشویش کا اظہار کیا تھا جب کہ عالمی ثقافتی ورثے کے تحفظ کے نگراں ادارے یونیسکو نے بھی ترک حکومت کے اس فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔یونان کے وزیر خارجہ نے بدھ کو ایک بیان میں کہا تھا کہ آیا صوفیہ کو مسجد میں بتدیل کرنے کا تنازع صرف یونان اور ترکی کے درمیان نہیں ہے۔ اُن کے بقول وہ عالمی سطح پر اس معاملے کو اُٹھائیں گے۔آیا صوفیہ کو 1934 میں جدید ترکی کے بانی مصطفی کمال اتاترک نے مسجد سے میوزیم میں تبدیل کر دیا تھا جب کہ ترکی کے موجودہ صدر رجب طیب ایردوان نے اپنی انتخابی مہم کے دوران اسے دوبارہ مسجد میں تبدیل کرنے کا اعلان کیا تھا۔آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنے کے لیے ترک حکام نے ہنگامی بنیادوں پر کام شروع کیا تھا۔ نماز کی ادائیگی یقینی بنانے کے لیے عمارت میں تیزی سے ردو بدل کیا گیا تھا۔بعض ناقدین نے عجلت میں عمارت میں کی جانے والی تبدیلیوں پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے آیا صوفیہ جیسے عالمی ثقافتی ورثے کو نقصان پہنچ رہا ہے۔یونیورسٹی آف پٹس برگ کے پروفیسر تغبہ تنیاری اردیمیر کا کہنا ہے کہ دو ہفتوں میں ماہرین کی رائے کے بغیر عمارت کے ڈھانچے میں ردوبدل کرنے سے آنے والی نسلوں کے لیے اس تاریخی ورثے کو محفوظ رکھنا مشکل ہو گا۔البتہ ترک صدر ایردوان کے ترجمان ابراہیم کالن نے کہا تھا کہ آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنے کے دوران عمارت کی شناخت اور تعمیراتی ڈھانچے میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔مذہبی اُمور کے سربراہ علی ارباز کا کہنا ہے کہ نماز کے اوقات میں عمارت کی دیواروں کو پردوں سے ڈھانپ دیا جائے گا تاکہ دیواروں پر نقش تصاویر عیاں نہ ہو سکیں جس کی اسلام میں ممانعت ہے۔اُن کے بقول عمارت میں کسی قسم کی توڑ پھوڑ تو درکنار ایک اینٹ بھی نہیں نکالی گئی۔ترک حکام نے آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنے کے بعد یہاں آنے کے لیے داخلہ فیس بھی ختم کر دی ہے۔ حکام کے بقول عمارت میں میوزیم بدستور قائم رہے گا۔
83