ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی
شادی کے دوسرے دن نفیسہ اور اس کا میاں ارشاد ناشتہ کی ٹیبل پر ابھی بیٹھے ہی تھے کہ تھوڑی ہی دوری پر رکھا ہوا، نفیسہ کا فون بج اٹھا۔
تم ناشتہ لگاؤ، میں فون اٹینڈ کرتا ہوں۔ ارشاد نے نفیسہ سے کہا۔
جوں ہی ارشاد نے فون اٹھایا تو دوسری طرف سے ایک مردانہ آواز کانوں میں گونجی۔ کوئی اجنبی متواتر بولے جا رہا تھا۔
اس نے اپنی گفتگو کا آغاز یوں کیا۔ میری جان! ہمت نہیں جٹا پارہا ہوں کہ میں تم سے تمہارا حال احوال پوچھ لوں۔ میں جانتا ہوں کہ تُو کتنی پریشان ہوگی۔ ڈرتے ڈرتے تم سے حال چال معلوم کرنے کے لیے تمہیں فون کیا ہے۔
کیسی گزر رہی ہے اس لنگور کے ساتھ۔
مجھے تم پر بہت ترس آ رہا ہے۔ تمہیں کیسے کہہ دوں کہ میں کتنا پریشان اور غمزدہ ہوں۔ دو دن سے میری ان آنکھوں سے نیند بھی غائب ہو چکی ہے۔ نہ کھانے میں مزہ ہے نہ پینے میں۔۔۔ حتیٰ کہ کسی کے ساتھ بات کرنے کو بھی دل نہیں چاہ رہا ہے۔ میں دفتر بھی نہیں گیا۔
اماں بھی بہت زیادہ پریشان ہے۔ مجھے پریشان دیکھ کر وہ اور بھی زیادہ پریشان ہو جاتی ہے۔ کل مجھے وہ کہہ رہی تھی کہ بیٹے! صبر کر۔۔۔۔ جو ہونا تھا سو ہو چکا۔ اب ہو بھی کیا سکتا ہے۔ حالانکہ تم دونوں نے مقدور بھر کوشش کی تھی کہ تم باہمی مشاورت سے شادی کے بندھن میں بندھ جاؤ، مگر اوپر والے کو تو کچھ اور ہی منظور تھا۔
ذرا نفیسہ کا سوچو۔۔۔ اس بے چاری نے تو ہمت کا بھرپور مظاہرہ کر کے یہ شادی کرنے سے انکار بھی کیا تھا لیکن اس کی بات کون مانتا۔ بے چاری نے مجھے اب تک دو بار فون کیا، زارو قطار رو رہی تھی۔ ہچکیاں تو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں۔۔ میں بمشکل اسکی ڈھارس بندھانے اور اس کو چپ کرانے میں کامیاب ہوئی ہوں۔
بیٹے! تم دونوں کے ساتھ بہت برا ہوا۔ میں خود بہت پریشان ہوں۔ مگر اب کیا بھی کیا جا سکتا ہے۔
کس کا فون ہے؟ نفیسہ نے پوچھا۔ ناشتہ ٹھنڈا ہو رہا ہے۔ خدارا اب فون رکھ دو نا! بعد میں دوبارہ ادھر سے ہی فون کرنا۔ نفیسہ نے کہا۔
دورانِ کال دوسری طرف سے بات کرنے والا جوں جوں ایک ایک بات کا اضافہ کرتا جاتا تھا، توں توں ارشاد کا چہرہ غصے سے متغیر ہوتا جا رہا تھا۔ وہ زور زور سے چیخنا چاہتا تھا لیکن اس کی آواز اس کا ساتھ نہیں دے پا رہی تھی۔ زبان لڑکھڑا رہی تھی اور جسم تھر تھر کانپ رہا تھا۔
نفیسہ کے ناشتہ پر بلانے اور بعد میں فون کرنے کے جواب میں ارشاد بول پڑا۔ کیا کروں۔ یہ تو مسلسل بولے جا رہا ہے۔ اس کی بات ہی ختم ہونے کو نہیں آ رہی ہے۔
کون تھا؟ نفیسہ نے پوچھا۔
تمہارا کوئی بوائے فرینڈ تھا۔ ارشاد نے بناتاخیر کئے زبان سے نکال دیا۔
ارشاد! تم یہ کیا کہہ رہے ہو۔۔۔ بنا کسی تحقیق کے تم نے مجھ پر اتنا بڑا الزام دھرا ہے۔
کاش یہ زمین پھٹ جاتی اور میں اسی میں خود کو سما لیتی۔
ارشاد کا پارہ چڑھتا ہی جا رہا تھا۔ اور نفیسہ کی ہر بات کو سنی ان سنی کر دیتا تھا۔
نفیسہ نے اپنی صفائی میں یہی کہا کہ میرا کوئی فرینڈ وینڈ نہیں ہے۔ مجھ پر اعتماد کیجئے۔
نفیسہ کی اپنی طرف سے صفائی پیش کرنے کے باوجود بھی ارشاد نے بالکل کان نہ دھرا۔
وہ اپنے زہر گھولتے الفاظ سے باز نہیں رہا اور متواتر نفیسہ پر تلخ اور کرب سے پُر الفاظ جھڑتا رہا۔
ارے او مہارانی! اگر تم نے کسی اور کے ساتھ حسن اور عشق کی پریم لیلا رچائی تھی تو پھر تم نے میرے ساتھ نکاح نامے پر کیوں۔۔۔۔ کیوں اپنی رضامندی کے دستخط ثبت کئے تھے۔ تم نے میری زندگی کے ساتھ بہت بڑا کھلواڑکیا ہے۔ تم نے میرے ساتھ دغا کی ہے۔
کیسی بےہنگم باتیں کرتے جا رہے ہو۔ اب خدا کے لیے بس بھی کرو ! کیا میں تمہیں اتنی گھٹیا عورت دکھائی دیتی ہوں۔ میری تو کوئی سہیلی تک نہیں تھی اور تم بوائے فرینڈ کی بات کر رہے ہو۔ نفیسہ نے بڑے وثوق سے کہا۔
تم جھوٹ بول رہی ہو۔ مجھے تو پہلے ہی تم پر شک تھاکہ دال میں کچھ کالا ہے۔ ارشاد نے جواباً کہا۔
یہ کیا کہہ رہے ہو۔ پتہ نہیں کون سا پاگل ہے ۔ جو بکواس کر رہا ہے اور تمہارے ذہن میں شک کا زہر گھول دیا ہے۔ نفیسہ نے پھر کہا۔
مجھے تمہارے ہاتھ سے ناشتہ واشتہ کچھ نہیں کرنا ہے۔ میری تو زندگی تباہ و برباد ہو چکی ہے۔ نکلو میرے گھر سے۔۔۔ اپنے میکے والوں کو فوراً بلاؤ۔ چلے جاؤ ان کے ساتھ۔۔۔۔۔
تمہارا بوائے فرینڈ پریشانی کے عالم میں ہوگااور بیتابی کے ساتھ تیرا انتظار کر رہا ہوگا۔
نفیسہ کے صبر کا پیمانہ بھی جب لبریز ہو گیا تو اس نے بھی مورچہ سنبھال لیا۔ اب دونوں کے اندر لاوا پکنے لگا۔ تند اور تلخ کلامی کا دونوں میں تبادلہ ہونے لگا اور آوازوں کا volume بھی عروج پر پہنچنے لگا تو اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔
ارشاد فوراً دروازے کی طرف لپکا
ارے نعیم! وٹ اے سرپرائز۔ ارشاد نے اپنے جگری دوست نعیم کو اپنے سامنے پا کر کہا۔
میرے یار! ٹور سے کب لوٹے ہو؟
میں ابھی بنگلور سے آیا ہوں۔ وہاں ایک انٹرنیشنل کانفرنس تھی، اس میں میری شرکت لازمی تھی۔ اس لیے آپ لوگوں کی شادی میں شرکت کرنے سے محروم رہا۔ نعیم نے کہا۔
ویسے آپ لوگوں کے کے چہرے کیوں اترے ہوئے ہیں۔ آپ لوگ ٹھیک تو ہو نا! لگتا ہے شادی کے جھنجٹ کی وجہ سے جو تھکان ہوئی وہ ابھی تک نہیں گئی ہے۔ نعیم نے کہا۔
آؤ بھائی۔ اندر بھی آؤ تو سہی۔ ادھر ہی پوری بات بتاؤں گا۔
ارشاد نے نفیسہ کے فون پر سنی گئی باتیں بتانا شروع کر دیں۔
اب نعیم کو بھی لگا کہ مسئلہ بہت پیچیدہ بن چکا ہے۔ آگے بڑھ کر ایک خطرناک صورت اختیار کر سکتا ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ بنا کوئی تاخیر کئے اس نئے نویلے ازدواجی جوڑے کو مزید کچھ دیر پریشانی میں نہ رکھا جائے۔
ارے میرے دوست! بھابھی کو میں نے ہی فون کیا تھا اور جب تم نے فون اٹھایا تو یکدم سے میرے دماغ میں یہ مذاق سوجھا۔ نعیم نے کہا۔
اوہ شٹ! تمہیں اب کیسے بتاؤں کہ ہم دونوں کی حالت کتنی ناگفتہ بہ ہو گئی تھی۔
اگر تم ہمارے ہاں آنے اور یہ راز افشاں کرنے میں ذرا سا بھی تامل کرتے تو خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ اس ہنستے بستے گھر کو اجڑنے میں فقط چند لمحوں کی دیر تھی۔ ارشاد نے رندھی ہوئی آواز میں نعیم سے کہا۔
یار! زندگی میں کھٹا پھٹی ایک لازمی جز ہے۔ ورنہ یہ بے ذائقہ سی لگتی ہے۔نعیم بول اٹھا۔
نفیسہ کا موڈ اب بھی آف تھا۔ ارشاد اس کے پاس دوڑ کر گیا۔ اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیکر معافی مانگ رہا تھا۔ نفیسہ کی آنکھوں سے موٹے سے دو آنسو موتیوں کی طرح چھلک پڑے لیکن زبان گنگ تھی۔
یہ سب دیکھ کر نعیم میں بھی احساسِ ندامت ہو رہا تھا۔یہ سوچ کر کہ ان دونوں کے ساتھ ایسا بھدا مذاق کر کے اس نے اچھا نہیں کیا۔
اگر چہ حالات دوبارہ پٹری پر لوٹ آئے تھے تاہم تیکھے الفاظ کا کرب، نفیسہ مسلسل اپنے دل میں محسوس کر رہی تھی۔
�����ۭ