0

افسانہ ۔۔۔ ” امیدوں کے چراغ”

ڈاکٹر نیلوفر (جموں وکشمیر)

کاظم کی گاڑی کی رفتار تیز تھی مگر اس قدر بھی نہیں جتنا اس کا طائر تصور ذہن میں اڑان بھر رہا تھا کسی نا آشنا کا تصور! کیا وہ آئے گی یا نہیں ۔ اسے اب تک گھر سے نکلنا چاہیے تھا، کیا وہ نکلی ہوگی یا نہیں ؟“
کاظم مسلسل تین سال سے رسالہ “زینت” میں عمدہ قسم کی شاعری کسی ” بے نام کے نام سے شائع ہوتے دیکھ کر نہایت متاثر تھا۔ کاظم اکثر اس بے نام کی اعلیٰ معیار کی شاعری پڑھ کر متجب بھی ہوتا ارو خوشی بھی محسوس کرتا کہ ہمارے آس پاس کے ماحول میں بھی کسی خاتون کے خیالات و افکار اس قدر اعلی اور بصیرت سے لبریز ہیں ۔ یہ بات اسے بہت خوش آئند لگ رہی تھی کہ چلو آہستہ آہستہ خواتین میں پھیلتے منفی رحجانات پر کچھ قدر تو مثبت اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
کاظم نے مدیر رسالہ زینت جس سے کاظم کے پہلے ہی سے مراسم تھے کو بڑی مشکل سے آمادہ کیا کہ بے نام کا نام جان لیا جائے۔ اس کے لیے انہوں نے مل کر رسالے کے دفتر سے ملحق ایک بڑے ہال میں ایک تقریب کا اہتمام کیا اور اس کے لیے کاظم نے اپنی خوشی سے مالی تعاون پیش کرنے کا وعدہ بھی کیا۔ وہ اس تقریب کو کامیاب دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ بنا جانے بھی اندازہ لگا بیٹھے تھے کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے ورنہ یوں کوئی اپنی اعلی صلاحیت کو اپنے نام اور اپنی ذات سے کیوں نہیں جوڑنا چاہیے گا۔
وہ ایک سرکاری اسکول میں ٹیچر تھی ۔ ہر ماہ اس کے تینوں بھائی اور ان کی بیویاں کسی نہ کسی ضرورت کے تحت اس سے آدھی سے زیادہ رقم نہایت چابکدستی سے وصول کر لیتے تھے اور یہ عمل اس کے والد کے گزرنے کے بعد ہی زور پکڑ بیٹھا تھا۔
وقت کو کروٹ لیتے دیر نہیں لگتی ۔ کچھ عرصہ پہلے تک اسے لگتا تھا کہ وہ پوری زندگی تنہا گزار سکتی ہے مگر اب حالات اسے سب کچھ سمجھا چکے تھے اور اوپر سے اس کے ماں کے وہم اور خدشات بھی پریشان کن تھے ۔ ماں سوچتی تھی کہ میری موت کے بعد اس لڑکی کا کیا ہو گا؟ یہ خدشہ ماں بار بار بیٹی سے ظاہر کرتی رہتی تھی ۔ دونوں ماں بیٹی کی حیرانی کی انتہا اس وقت ہوئی جب انہیں معلوم ہوا کہ حال ہی میں آنے والے دو موزوں ترین رشتے روشن آراء کی بھابیوں نے باہر سے ہی ٹال دیئے تھے۔
روشن آراء سات برس پہلے ڈھیر سارے ارمانوں کے ساتھ دلہن بنی تھی لیکن بارات خالی ہاتھ لوٹ گئی تھی۔ مہر کی رقم پر من مانی کی وجہ سے رشتہ ٹوٹا تھا۔ دولہے نے مہر کی رقم مقرر کرنے کرانے کے سلسلے میں کافی مصلحتیں بیان کیں اور اپنی مجبوری بھی سامنے رکھی لیکن نہ وہ مصلحتیں ہی کسی کے سمجھ میں آئی اور نہ دلہے کی مجبوری ہی کوئی سمجھ سکا۔ اس کے اعلیٰ خیالات کو بس دولت کے ترازو میں تولا گیا۔ عام دیکھا جاتا ہے کہ دولہے کی جانب سے نت نئی فرمائشیں ہوتی ہیں مگر روشن آراء کے مائکے والوں نے ایک نئی اور انوکھی مثال قائم کر دی تھی ۔ بہر حال نتیجہ یہ نکل کہ اپنی انا کوکسی کے پیروں تلے کچلتے دیکھنا باشعور دلہے کوگوارا نہ ہوا اور خالی ہاتھ اپنی چاہت روشن آراء کو چھوڑ کر واپس لوٹ گیا۔
روشن آراء کے ارمان لٹ گئے ، تمنائیں خاک میں مل گئیں اور زندگی ویران ہوگئی۔ ایک مدت تک اس انوکھے واقعے کی روداد زبان زدعام تھی۔ وہ پورا خاندان بدنام ہو گیا تھا۔ ہر کوئی یہی کہتا تھا کہ ایسے لوگوں کے گھر رشتہ مانگنے کون جائے گا جو مہر کے نام پر موٹی موٹی رقمیں طلب کر کے بیٹی کو بیچنے کے در پہ ہیں ۔ روشن آراء نے خود ایسی باتیں لوگوں کو کرتے سنا تھا۔ اس لیے وہ اب اپنے ذہن سے شادی کا خیال نکال چکی تھی۔
بدلتے حالات نے اس کی سوچ کو بدلنا شروع کیا۔ اس نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ خود اپنی ایک الگ پہچان بنالے گی۔ وہ کسی سے دب کر نہیں جیسے گئی ۔ وہ اپنے بھائیوں کے سبب اپنی خدا داد صلاحیت یعنی اپنی شعر و شاعری کو منظر عام پر لانے سے خوف زدہ تھی کیوں کہ ان کی نظر میں شعر و شاعری ایک خاتون کے لیے بے حیائی کا کام تھا ۔ وہ ایسی ہی زہنیت رکھتے تھے ۔ امی جان میں اسکول سے واپسی پر ایک ادبی انجمن کی تقریب میں جارہی ہوں ۔ مجھے لوٹنے میں دیر بھی ہو سکتی ہے ۔ وہ نہایت پر اعتماد لہجے میں کہ رہی تھی ۔ وہ اس بارے میں اپنی ماں سے پہلے بھی ذکر کر چکی تھی۔
کاظم حال کے باہر بے چین سے لگ رہے تھے جیسے وہ کسی کا شدت سے انتظار رہے ہوں۔ کافی انتظار کے بعد وہ بوجھل قدموں سے ہال کے اندر آئے ۔ اپنی نشت پر بیٹھنے ہی والے تھے کہ مائیک پر میزبان امجد ( مدیر زینت ) کی خوش کن آواز سنائی دی ۔ وہ کاظم کا نام لیتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ اسٹنٹ پروفیسر جناب کاظم صاحب۔
آپ کی کاوش کامیاب ہوگئی اور دوسرے ہی لمحے سبھی حاضرین کی تجسس آمیز نگاہیں روشن آراء کی دل آویز شخصیت کی جانب مرکوز ہو گئیں ۔ کاظم ۔ کی نظر جب شاعرہ پر پڑی توحیران ہوئے۔ اس کا سر چکرانے لگا اور بے اختیار ہو کر اس کی زبان سے نکلا روشن آراء! تو یہ تم ہو ۔ اس نے جلد ہی خود کو سنبھالا۔ یہی وہ شخص تھا جو روشن آراء کو دلہن بنا کر خالی ہاتھ لوٹ آیا تھا۔ اس کے چہرے پر ندامت اور پچھتاوے کے آثار نمایاں تھے۔ روشن آراء کی آنکھوں میں چمکتے آنسوؤں نے اسٹنٹ پروفیسر کاظم کی زبان کے تالے کھول دئیے اور وہ نئے عزم و استقلال کے ساتھ وائس کی جانب بڑھا اور دونوں کے دلوں میں امیدوں کے چراغ جل اٹھے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں