گونگے لمحے (گفتگو کرتے ہیں) 0

گونگے لمحے (گفتگو کرتے ہیں)

تبصرہ نگار :قانتہ رابعہ

یہ کتاب ہے افسانوں کی جسے شفا چوہدری نے تحریر کیا ہے۔
اردو ادب میں نظم اور نثر دو اصناف ہیں باقی ساری انہی کی شاخیں اور شعبے ہیں جن میں سے ایک افسانہ ہے۔
افسانہ اگر تخیل کی پرواز ہو تو جتنا بھی دلپزیر انداز میں تحریر کیا گیا ہو بہرحال ،افسانہ ہی سمجھا جائے گا لیکن جب افسانے کے موضوعات ہمارے اردگرد کے معاشرتی ،اور نفسیاتی مسائل ہوں تو افسانہ اپنی ہی کہانی اور داستان محسوس ہوتا ہے اور اسے قارئین کے سامنے پیش کرنے میں قدرت نے مصنف کو لفظوں پر قدرت کا ملکہ عطا کیا ہو،انداز دلنشین ہو ،تحریر دلپزیر ہو ،تو لفظ گونگے نہیں بولتے محسوس ہوتے ہیں آپ کی انگلی پکڑ کر آپ کے ہمسفر بن جاتے ہیں ،آپ سے سرگوشیاں کرتے ہیں ،ہنسنے کی بات ہو تو ان لفظوں سے قل قل کرتے قہقہے اور قلقاریاں سنائی دیتی ہیں دکھ کی بات ہو تو وہ لفظ آنسو بن جاتے ہیں ،کسی کے راز کی بات ہو تو ہونٹوں پر انگلی رکھ کر ہش ہش کر کے چپ رہنے کا اشارہ کیا کرتے ہیں- شفا چوہدری کے افسانوں کا مجموعہ گونگے لمحے بھی بولتے لفظوں کی جادوئی تھیلی ہے جس میں سے ہر کہانی الگ موضوع اور الگ انداز لئے ہوئے ہے ۔
تھوڑا سا ہی سہی میرا تعلق بھی افسانوں کی دنیا سے ہے ۔مجھے قلم سے افسانہ نگاری کرتے ہوئے صرف قاری کے ہی نہیں قلم کے وقار اور جذبات کا خیال رکھنا ہوتا ہے ۔مجھے یہ لکھتے ہوئے بہت خوشی محسوس ہورہی ہے کہ ایک مدت کے بعد مجھے ایسی منجھی ہوئی تحریر پڑھنے کا موقع ملا ۔جس میں بہت سے نازک موضوعات پر لکھتے ہوئے حد ادب کا خیال رکھا گیا ۔جنس اور جسم پر لکھتے ہوئے اندھا دھند ،،حقیقت ،،کا لیبل لگا کر وہ نہیں لکھا کہ سلیم الطبع فطرت کے مالک ابکائیاں لینے ہر مجبور ہو جائیں بلکہ ڈھکے چھپے انداز میں ان سنگین حالات کو بیان کردیا گیا ۔
میں نے کتاب شروع سے آخر تک مکمل مطالعہ کی ہے اور مجھے حیرت ہے کہ ہر دوسرے افسانے پر میری رائے بدلتی چلی گئی ۔شروع کے افسانوں میں وہ ایک علامتی افسانہ نگار محسوس ہوئیں جو استعاروں اور علامتوں کی زبان میں اپنا نقطہ نظر پیش کرتی ہیں ،بغاوت کرنے والوں کا انجام ،اندھا کنواں ،تتلیوں اور پرندوں کو استعارہ بناتی ہیں ۔
لیکن اگلے افسانوں میں وہ ایک رجائیت پسند اور اندھیروں میں روشنی کی سفیر بن کر سامنے _آتی ہیں۔
ان سے اگلے افسانوں میں وہ زندگی کے معاشرتی مسائل ،بھوک افلاس ،یا پرتعیش زندگیوں میں جھانک کر مسائل کا ذکر کرتی ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے انہوں نے معاشرے کی نبض پر ہاتھ رکھ دیا ہے ۔
،عکس کے اس پار ،،خوشی اور تیسرا دن جیسے شاہکار افسانوں میں وہ حددرجہ حساس اور محبتوں سے گندھے رشتوں کی کہانی سناتی ہیں۔ چندو کا کردار وفا کی علامت بن جاتا ہے ۔
قدرت نے شفا چوہدری کو لفظوں کے خوبصورت استعمال کا ملکہ بخشا ہے ہر افسانے میں دو چار دل قابو میں کر لینے والے فقرے پڑھنے کو ملتے ہیں تو روح سرشار ہوجاتی ہے
“خوابوں کی ست رنگی ڈولی میں بیٹھ کر ،
قفل کے ٹوٹنے سے ہی انقلاب آتے ہیں
کچھ آلہ قتل ایسے ہوتے ہیں جو شفاف جھیل کو بھی میلا کردیں”۔ جیسے بے شمار فقرے جزئیات نگاری کے ساتھ منظر نگاری میں بھی شفا کا قلم طاق ہے ۔
مادہ پرستی سے انسانیت کا سفر ہو بحیثیت ایک خاتون کے نسائیت سے بھر پور جذبات مصنفہ نے ہر موضوع کا حق ادا کیا ہے ۔
وعظ و نصیحت اس انداز سے کرنا کہ دوسرا بیزار ہوجائے ناکامی کی دلیل ہے جبکہ ایک ادھ مختصر سی بات یا جملے میں پیغام پہنچا کر ایک کامیاب مبلغہ بننا کاردشوار ہے ۔ان کے بہت سے افسانے اور افسانچے یہی خوبصورتی لئے ہوئے ہیں مثلاً حاصل افسانہ میں صرف ایک فقرہ،لکھیں وہ جو قاری کو پڑھنا چاہئیے نہ کہ وہ جو قاری پڑھنا چاہئیے ،،صرف ایک لفظ،کو ،کے استعمال سے ابلاغ کا حق بخوبی ادا ہوگیا۔
ہمارے ہاں بیرون ممالک جانے والوں اور ان کے وہ عزیز جو دیس میں ہی ہوتے ہیں کے مسائل پر بے تحاشا لکھا گیا لیکن جس انداز سے ،افسانہ ،فیصلہ ،میں لکھا گیا اسے کسی تعریفی سند کے بغیر ہی بہترین قرار دیا جا سکتا ہے ۔
نسوانی مسائل پر جس خوبی سے عورت لکھ سکتی ہے اس میں تو دو رائے ہے ہی نہیں لیکن یہ ثابت کرنا کہ عورت ممتا پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتی خواہ ازدواجی زندگی کی قربانی کیوں نہ دینا پڑے ۔
ان کے ہاں عورت محبت اور ایثار کی پیکر ہے لیکن یہ محبت اولاد کے گرد دائروں میں ہی گھومتی رہتی ہے ۔خواہ شوہر محبت کا کتنا ہی متقاضی کیوں نہ ہو
کچھ مسائل پر لکھنا بہت دل گردے کا کام ہے لیکن شفا چوہدری نے دشت حیات جیسے افسانے لکھ کر ثابت کر دیا کہ یہ جان جوکھوں کا کام بھی قلم کی زبان سے ادا کیا جا سکتا ہے۔
دشت حیات اس کی بہترین مثال ہے جو تادیر قاری کو اپنی گرفت میں رکھتا ہے ۔
مصنفہ بہترین نفسیات دان ہیں بلا شبہ وہی لکھاری کامیاب ثابت ہوا کرتا ہے جو قاری کوساتھ لے کر اس کے اندر ایکسرے کرسکے
مسکراہٹ کا رنگ ،خوابوں سے پرے بہترین مثال ہیں ۔
شفا چوہدری محبت کا مفہوم بھی جانتی ہیں اس کے تقاضوں کا بھی علم رکھتی ہیں محبت کی بات ہو تو روٹھنے اور منانے کی بات نہ ہو یہ کیسے ممکن ہے افسانہ،تیسرا دن بہت کمال تفسیر ہے لیکن جب یہ محبت دل شکستگی کا باعث بن جائے ،دل ٹوٹ جائیں تو غبارے جیسے افسانے میں اس کا تاثر اندر تک دکھی کردیتا ہے ۔
الغرض کوئی افسانہ محض صفحات کو سیاہ کرنے کے لیے نہیں لکھا بلکہ سچ بات یہ ہے کہ گونگے لمحے کی ہر تحریر بولتی ہے ۔کہیں مسائل کی چادر اوڑھ کر کہیں ناکام محبت اور کہیں نسائیت کے دکھ کی بکل مار کر ۔
کتاب بہت عمدہ کاغذ پر ہے ۔فونٹ بھی باریک نہیں اور معروف افسانہ نگار نیلما ناھید درانی ،ڈاکٹر نسترن احسن فتیحی اور زیب اذکار حسین کی خوبصورت آراء کے ساتھ پریس فار پیس فاؤنڈیشن کی طرف سے باذوق قاری کے لیے باعث مسرت بھی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں