ترا پیغام آیا ہے دسمبر کے مہینے میں 0

درد کتنے ہی میرے دل نے ہیں پالے مانوس

غزل
پرویز مانوس

درد کتنے ہی میرے دل نے ہیں پالے مانوس
پھر بھی آنکھوں سے نہیں اشک نکالے مانوس

ٹھوکریں وقت کی لگتی ہی رہیں ہر پل ہی
اب کہاں دہر میں خود کو ہی سنبھالے مانوس

بعد مُدت کے مہاجر جو وطن کو لوٹا
اُس کی تصویر پہ ہر سمت تھے جالے مانوس

خوف بن کے جو ترے چاروں طرف پھیلے ہیں
ان اندھیروں سے ہی نکلیں گے اُجالے مانوس

اُن کی کرچیں مری آنکھوں میں ابھی باقی ہیں
چشمِ اُمید میں جو خواب تھے پالے مانوس

ہم چراغوں کی طرح راہ میں جلتے ہیں سدا
کوئی آکے ہمیں سینے سے لگالے مانوس

لوٹ جائے نہ کہیں آج بھی وہ شرما کر
تھام کر ہاتھ اُسے پاس بٹھالے مانوس

اب میں جاتا نہیں باہر کبھی ڈسوانے کو
گھر کے اندر ہی کئی سانپ ہیں پالے مانوس

شہرِ اقدس کی طرف جب بھی بڑھائے ہیں قدم
ہم نے دیکھے نہیں پھر پاؤں کے چھالے مانوس

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں