عشق کے امتحاں 40

عشق کے امتحاں

ملک‌ منظور
قصبہ کھل کولگام 9906598163

 

پہلا پنّا

 

ڈاوری نے اس شہر کی ہزاروں لڑکیوں کو والدین پر بوجھ بنایا تھا ۔سینکڑوں لڑکیوں نے شادی کی عمر پار کی تھی اور کئی لڑکیوں نے شادی کی امید چھوڑ کر اپنے ہاتھ مہندی کے رنگ سے رنگنے بند کئے تھے ۔غریب گھرانوں میں اب لڑکی کو خدا کا تحفہ نہیں بلکہ مصیبت کی نشانی سمجھا جاتا تھا ۔دہیج کی قبیح رسم کو کچلنے کی زبانی کوششیں تو عام تھی لیکن عملاً اس رسم کی آبیاری جاری تھی ۔طالب علموں کی انجمنوں نے کالجوں میں اس رسم بد کی حوصلہ شکنی کے لئے سمینار کا اہتمام کیا تھا ۔شہر کے کالج میں بھی ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا ۔کالج کے بہترین مقررین میں۔ حُسین بھی شامل تھا ۔حُسین کی زبان فصیح و بلیغ تھی ۔لوگ اس کو لفظوں کا جادوگر کہتے تھے ۔اس کا انداز بیان نرالا تھا اس لئے کالج کے سبھی لڑکے لڑکیاں اس کی تقریر سننے کے لئے دور دور سے آتے تھے ۔حسین کو خدا نے جاذب نظر بنایا تھا ۔اس کی آنکھیں سب کو اپنا گرویدہ بناتی تھیں ۔اس کے چہرے سے نور اٹھتا تھا ۔لوگوں کا ماننا تھا کہ حسین کے جسم پر پھٹے پرانے کپڑے بھی چمکتے ہیں ۔
آڈیٹوریم میں سارے لڑکے اور لڑکیاں جمع ہوگئے تھے ۔ سب کو حسین کی تقریر کا بےصبری سے انتظار تھا ۔حسین جب سٹیج پر کھڑا ہوا تو تالیوں کی گونج سے اس کا سواگت ہوا ۔
مائیک کو ہاتھ میں لیتے ہوئے حسین نے کہا ۔۔دوستو ،کیا آپ کو معلوم ہے کہ ان ہزاروں لڑکیوں جن کو والدین اپنا بوجھ سمجھتے ہیں یا جن کی شادی کی عمر پار ہوچکی ہے یا جن کے ہاتھوں پر مہندی کا رنگ اتر چکا ہے یا جن کے خواب ادھورے رہ گئے ہیں یا جو لڑکیاں شادی کے منڈپ پر دلہے کا انتظار کر کر کے تھک چکی ہیں کا دشمن کون ہے؟۔۔۔
سامعین پر سکوت چھاگیا ۔وہ سمجھ نہیں پائے کہ حسین کہنا کیا چاہتا تھا ۔۔
حسین نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا
میں ، جی ہاں میں اور ہر ایک نوجوان جو دہیج کی یا تو مانگ کرتا ہے یا خاموشی اختیار کرتا ہے
۔کیونکہ دہیج لینے والے ہمارے والدین ہمارے نام پر دہیج مانگتے ہیں اور ہم چپ چاپ سر جھکائے کھڑے رہ کر ان کا ساتھ دیتے ہیں ۔اگر آپ اس ریت کو توڑنا چاہتے ہیں تو بدلاؤ سماج میں نہیں بلکہ نوجوان میں لانا ہوگا ۔۔
آڈیٹوریم پھرتالیوں سے گونج اٹھا ۔آنکھوں میں آنسوں لے کر سب حسین کی باتوں کی تائید کرنے لگے ۔
حسین نے اس سے پہلے کئی بار خطبے دئے تھے لیکن آج اس نے سب کو رلادیا ۔۔
تقریب ختم ہوئی ۔سب لوگ کالج گراؤنڈ کی طرف جارہے تھے ۔حسین بھی جارہا تھا کہ وہ اچانک ایک پتلے کی طرح کھڑا ہوگیا ۔اس کے سامنے تمنا کھڑی ہوئی اور مسکراتے ہوئے کہنے لگی ۔۔۔حسین میں تجھے دوست سمجھتی تھی لیکن تو تو دشمن نکلا ۔۔۔
تمنا ایک رئیس اور بارسوخ گھرانے کی اکلوتی بیٹی تھی ۔اس کے بھائی بڑے بڑے آفیسر تھے اور والدین بھی بڑی پوسٹوں سے ریٹائر ہوگئے تھے۔ وہ خوبصورت اور ہنس مکھ لڑکی تھی ۔حسین بولنے میں تو بےباک اور نڈر تھا لیکن تمنا کو دیکھتے ہی اس کی زبان سائلینٹ ہوجاتی تھی ۔وہ تمنا سے ڈرتا نہیں تھا بلکہ اس کی باتوں کو سنتے سنتے اس کے گلابی ہونٹوں کی جنبش کو محسوس کرتا تھا جب جب اس کی نظر تمنا کی نظرسے ٹکرا جاتی تھی اس کی دھڑکنیں بےقابو ہونے لگتی اور ایک عجیب احساس اس کے تن من کو آبشار کے شبنمی بوندوں کی مانند بھگو دیتا ، اس لمس سے حسین کا روم روم کستوری کی طرح مہکنے لگتا اور جب نظروں کی تپش جسم کے آر پار ہونے لگتی تو دل و دماغ میں ہزاروں ان سلجھے سوال و جواب تہلکہ مچادیتے ۔وہ اس کو پسند کرتا تھا لیکن کچھ کہنے سے قاصر تھا ۔تمنا بھی یہ بات جانتی تھی ۔ اس کے دل میں بھی حسین کی تصویر چھپ چکی تھی ۔ وہ اس کے ساتھ چند میٹھی میٹھی باتیں کر کے خوش رہتی تھی ۔کالج کے سارے طالب علم یہ بات جانتے تھے۔ اس لئے وہ تمنا کو حسین کی زبان کا تالا کہتے تھے۔اور لڑکیاں حسین کو خاموش مجنوں کہتی تھیں ۔
حسین کے دوست اس کو اظہار محبت کی صلح دیتے رہتے تھے لیکن وہ یہ بات کہہ کر ٹال دیتا تھا ‌۔۔۔۔آسمان کا چاند دیکھنے کیلئے بنا ہے نہ کہ گود میں رکھنے کے لئے ۔۔
میری اتنی حیثیت نہیں ہے کہ کوہ نور کو سنبھال سکوں ۔۔
حسین ایک مڈل کلاس گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔وہ بھی اپنے والدین کا لاڈلا بیٹا تھا لیکن گھریلو آمدنی اتنی نہیں تھی کہ کوئی اس کو امیر لڑکا کہہ کر پکارتا ۔وہ اس بات سے اچھی طرح واقف تھا اسی لئے تمنا سے دوری بنانے کی ہر ممکن کوشش کرتا تھا ۔ اس کے باوجود وہ شمع کے ارد گرد پروانے‌کی طرح گھومتا رہتا تھا۔ عشق کی چنگاری دھیرے دھیرے اس کے جذبات کی آگ بھڑکا رہی تھی ۔یہی کیفیت تمنا پر بھی طاری ہوتی تھی۔وہ حسین کے اندر اس مہک کو پہچانتی تھی جو کہیں نہ کہیں اس کے روح کا مسکن تھا ۔ وہ اس کی محبت سے آشنا تھی ۔
محبت کی زنجیر نے دونوں کو باندھ دیا ۔وہ ایک دوسرے کے ساتھ خوشی خوشی باتیں کرنے لگے اور لگن کے احساس سے بنا اپناپن وقت کے ساتھ ساتھ دوستی، محبت، چاہت کی سیڑھیاں طئے کرتے ہوئے ان کو پتہ ہی نہیں چلا کہ یہ نامعلوم رشتہ کب کبھی نہ سلجھنے والے رشتہ میں تبدیل ہوگیا اور وہ دونوں ایسے مرض میں مبتلا ہوگئے جو لاعلاج تھا، جس کی کوئی دوا نہیں، بس محبوب کی آغوش کے سوا ان کو کہیں پہ سکون نہیں ملتا اور ایک اچھے خاصے انسان سے وہ مریضِ عشق بن گئے اور یہ مرض نس نس میں نشہ بن کر اتر گیا ۔
ایک دن تمنا کے والد نے اپنے بیٹوں کو اپنے کمرے میں بلا کر کہا ۔۔سنو ، تمنا کے لئے دو رشتے آئے ہیں ۔دونوں رشتے اچھے ہیں اور ہماری برابری کے بھی ۔میں سوچ رہا تھا کہ ایک رشتہ او کے کردوں لیکن ۔۔۔۔۔
بڑے بیٹے نے پوچھا ۔اباجان ۔۔۔۔لیکن کیا ؟
تھوڑے تحمل کے بعد اباجان نے کہا ۔۔۔آپ کی ماں کہہ رہی تھی کہ اس کے من میں کچھ اور ہی ہے۔
بڑے بیٹے نے فوراً جواب دیا ۔۔اس میں حرج ہی کیا ہے ۔اس کی مرضی بھی ضروری ہے ۔یہ تو آجکل کے زمانے میں نارمل ہے ۔
اباجان نے بات کاٹتے ہوئے کہا ۔۔۔وہ لڑکا مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتا ہے ۔گھریلو آمدنی بھی زیادہ نہیں ہے ۔
دوسرے بیٹے نے کہا ۔۔۔تو پھر ہم تمنا کو اتنا دہیج دیں گے کہ اس کو کبھی کوئی کمی نہیں ہوگی ۔لیکن تمنا کی مرضی کو کچلیں گے نہیں۔
چھوٹے بیٹے کو یہ بات پسند نہیں آئی وہ مزاجاً تیز تھا اور پیشے سے ایک پولیس آفیسر ۔اس نے نکارتے ہوئے کہا ۔۔۔نہیں یہ رشتہ نہیں ہوگا ۔مڈل کلاس لوگوں کی ذندگی میں بہت سارے پرابلمز ہوتی ہیں ۔ہماری تمنا وہاں چند دن بھی نہیں رکے گی ۔بہتر ہے اس کو سمجھاو ۔
اباجان نے چھوٹے بیٹے کی ہاں میں ہاں ملا کر کہا ۔۔۔وہ لڑکا دہیج کے سخت خلاف ہے ۔وہ دہیج لینے کے لئے تیار نہیں ہے اور نہ ہی ہماری کسی مدد کے لئے راضی ہے ۔اس لئے کوئی اور راستہ ڈھونڈ لو ۔
تمنا کو سمجھانے کی بہت کوشش کی گئی ۔
بڑے بھائی نے کہا ۔۔دیکھو تمنا ، ہم نہیں چاہتے کہ تیری ذندگی میں کوئی مصیبت آئے ۔تونے جس لڑکے کو چنا ہے اس پر سماج سدھارکی کا نشہ چڑھ گیا ہے ۔وہ اصولوں کے حصار میں بند ہے۔
لیکن ان باتوں کا تمنا پر کوئی اثر نہیں پڑا۔
اس نے بھائی سے کہا ۔۔بھیا ہمارے سماج میں لڑکیوں کے لئے الگ قانون ہیں ۔لڑکا کہیں بھی شادی کرسکتا ہے لیکن لڑکی کو خاندان اور حیثیت کا خیال رکھنا پڑتا ہے ۔
جب کوئی بات نہ بنی تو گھر میں پھر بیٹھک ہوئی ۔
باپ نے بیٹوں سے پھر پوچھا ۔۔کیا کوئی راستہ نکلا ۔مجھے لڑکے والے پوچھ رہے تھے ۔
بڑے بیٹے نے کہا ۔۔۔نہیں ابا جان ۔۔تمنا کسی بھی قیمت پر ماننے کے لئے تیار نہیں ہے وہ نادان ہے اور ذندگی کے اتار چڑھاؤ سے ناواقف ۔ اور نہ ہی وہ لڑکا کسی بات پر راضی ہوتا ہے ۔وہ خودار لڑکا ہے ۔میری نظروں میں وہ‌ تمنا کے لئے صحیح ہے ۔
چھوٹے بیٹے نے غصے سے کہا ۔۔۔میں سمجھتا ہوں کہ اس لڑکے کو ہی تمنا کی زندگی سے دور کرتے ہیں ۔
اباجان نے پوچھا ۔۔کیسے ؟
چھوٹے بیٹےنے کہا ۔۔وہ آپ مجھ پر چھوڑو ۔
ٹھیک ہے لیکن قانون اپنے ہاتھوں میں مت لینا اور نہ ہی کوئی تکلیف پہنچانا۔باپ نے تحکمانہ انداز میں کہا
اگلے دن سے تمنا کو حُسین کہیں دکھائی نہیں دیا ۔اور نہ ہی کوئی کنٹیکٹ ہوسکا ۔اس نے بہت کوشش کی لیکن اس کا کوئی سراغ نہیں ملا ۔۔اس دن کیا ہوا تمنا نہیں جانتی لیکن وہ باؤلی ہوگئی۔۔۔۔

(جاری اگلے شمارے میں)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں