سبزار احمد بٹ
اویل نورآباد
صبح کے سات بج چکے تھے۔میں چائے پینے میں مگن تھا کہ فون کی گھنٹی بج گئی۔ میں نے دیکھا تو اظہر کا فون تھا۔میں نے فون اٹھایا اور سلام کی۔ اظہر کی آواز میں بھاری پن تھا۔اور رونے کی آواز آرہی تھی۔میں نے پوچھا۔اظہر کیا ہوا ؟ کیا بات ہے ؟ ۔ہلو، ہلو، اظہر کیا ہوا ؟ ۔اظہر نے روتے ہوئے کہا ۔یار وہی بھائی کا مسئلہ اب تو چار سال ہو گئے اسے قید میں ۔روتے روتے تو ماں کے آنکھوں کی روشنی بھی چلی گئی ۔ باپ بھی اب بہت کمزور ہو گیا ہے۔اور بہن کی عمر میں ڈھلتی جارہی ہے۔اوپر سے وکیل تو بہت زیادہ پیسے مانگ رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔میں بڑی خاموش سے سن رہا تھا۔ لیکن اظہر میرا جگری دوست تھا۔اس کی ایک ایک بات میرے جگر کو چیرتی ہوئی نکلتی تھی۔ میں نے حوصلہ کیا اور کہا ۔اظہر سب ٹھیک ہو گا ہمت رکھو ۔اگر تم ہی ہمت ہارو گے تو اسماعیل چچا اور آنٹی کا کیا ہو گا۔کتنے پیسے مانگتا ہے وکیل ؟ ۔اظہر نے ایک سرد آہ بھرتے ہوئے کہا۔ یار تین لاکھ روپئے لے چکا ہے اور ابھی اور تین لاکھ مانگ رہا ہے ۔یار اگر تم بھی آج ہمارےساتھ آتے اس وکیل سے بات کرتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں ہاں اظہر ٹھیک ہے لیکن آج تو اتوار ہے۔آج چھٹی ہے۔ہاں یار چھٹی ہے لیکن اس کے گھر جانا ہے آج دوپہر کو۔ ٹھیک ہے اظہر میں ایک بجے آؤں گا۔پھر دونوں وکیل کے گھر جائیں گے۔
شکریہ دوست شکریہ یہ کہہ کر اظہر نے فون رکھ دیا۔دن کے دو بجے اظہر میں اور اسماعیل چچا وکیل کے گھر پہنچے۔جوں ہی ہم صحن میں داخل ہوئے ۔ایک عجیب منظر دیکھنے کو ملا ۔وکیل صاحب کی حویلی کے ارد گرد رنگ برنگی پھول بڑے بڑے گلدانوں کے لگے تھے ۔وکیل کے ہاتھ میں ایک برتن تھا جس میں کچے گوشت کے بڑے بڑے ٹکڑے تھے۔تقریباً دو کلو کا گوشت تھا اور وکیل صاحب یہ گوشت اپنے پالتو کتے کو بڑے پیار سے کھلا رہے تھے۔ وکیل کتے کو گوشت کھلانے میں اتنے مگن تھے کہ ہم میں سے کسی کی سلام کا جواب نہیں دیا۔ کچھ دیر برداشت کرنے کے بعد میں نے ہمت جھٹا کر وکیل صاحب سے کہا ۔کہ وکیل صاحب یہ ۔۔۔۔۔۔۔۔
وکیل صاحب نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا کہ یہ bull dog ہے ہر دن دو کلو گوشت اور ایک کلو دودھ اس کی غذا ہے۔مجھے وکیل کی کم عقلی پر ترس آیا۔ خیر میں نے اسماعیل چچا سے بات چھڑنے کا اشارہ کیا۔ اسماعیل چچا نے وکیل سے ہاتھ جوڑ کر کہا۔وکیل صاحب میرے اُس کیس کا کیا ہوا ۔میرا بیٹا چھوٹ تو جائے گا نا ۔وکیل نے گرجتے ہوئے کہا ۔کچھ نہیں ہوگا جب تک تین لاکھ روپیوں کا انتظام نہیں کرو گے۔ اسماعیل چچا نے پھر ہاتھ جوڑے، جناب میں نے تو تین لاکھ روپے آپ کو دے دیئے ہیں ۔اب اور تین لاکھ کہاں سے لاوں گا ۔ اور ابھی تو کیس میں بھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے ۔میں غریب آدمی ہوں مجھ پر ترس کھائیے ۔یہ سنتے ہی وکیل آگ بگولا ہو گیا۔ لوگ میرے سامنے بولنے سے پہلے سو مرتبہ سوچتے ہیں اور تم کیا بکواس کر رہے ہو۔فیس دی ہے تم لوگوں نے۔کوئی خیرات نہیں ۔اور میں نے کوئی دھرم شالہ نہیں کھولا ہے جو میں لوگوں کے کیس مفت میں لڑتا پھروں۔جائیے اور کسی اور وکیل سے بات کیجئے۔۔۔۔
نہیں نہیں جناب مجھ سے غلطی ہو گئی ۔میرے بیٹے کا کیس آپ ہی لڑیں گے کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ میرا بیٹا بے گناہ ہے۔ میں پیسوں کا انتظام کر لوں گا۔ اسماعیل چچا اور اظہر کی یہ حالت دیکھ کر خیال آیا کہ اس وکیل کو وکالت کے معنیٰ سمجھاؤں ۔لیکن یہ سوچ کر چپ ہوا کہ کہیں میری وجہ سے اظہر اور اس کے بوڑھے باپ کی پریشانیوں میں اور اضافہ نہ ہو جائے ۔
خیر ہم تینوں گاڑی میں بیٹھ گئے۔اظہر نے اپنا سر میرے کاندھے پر رکھا اور روتے روتے اس کی ہچکی بند گئی۔میرے دوست تین لاکھ روپیوں کا انتظام کیسے ہوگا۔میں نے دلاسہ دیتے ہوئے کہا. اظہر کوئی بات نہیں میں یہ گاڑی بیچ دوں گا۔اور آپ کی مدد کروں گا۔اظہر نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا ۔ٹھیک ہے لیکن ایک لاکھ روپے سے زیادہ کون دے گا اس کو۔اور باقی کے دو لاکھ کہاں سے لاؤں ۔میں نے حوصلہ دیا کہ کوئی بات نہیں کوئی نہ کوئی راہ نکل ہی آئے گی ۔اتنے میں ہم گھر پہنچ گئے۔ گھر میں اندھی ماں اور بہن نے یہ خبر سنی تو گھر میں صفہ ماتم بچھ گیا۔ بہن نے رورو کر اپنا برا حال کیا اور شادی کے لیے لائے زیورات اپنے بڑے بھائی کے حوالے کرتے ہوئے بولی ۔یہ لو بھیا انہیں بیچ کر پیسوں کا انتظام کر لینا۔مجھے تب تک شادی نہیں کرنی جب تک میرا بھائی نہ لوٹ آئے۔ بوڑھے باپ نے کہا۔بیٹا اس گھر کو گروی رکھ کر پیسوں کا انتظام کر لینا ۔اگر میرا بیٹا واپس آئے گا تو ہم سڑک پر بھی رہ لیں گے۔ اظہر نے بہن کے زیورات بیچ کر اور گھر گروی رکھ کر دو لاکھ روپے کا انتظام کر لیا۔ اور گاؤں کے ساہوکار سے پچاس ہزار روپے اس شرط پر لیے کہ وہ اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر دو سال تک اس کے گھر میں مزدوری کرے گا۔اس طرح سے سب کچھ نیلام ہو گیا اگلے دن ہم پھر وکیل کے آفس گئے ۔وکیل کے چیمبر میں داخل ہوتے ہی اظہر نے تین لاکھ روپے وکیل کو دیتے ہوئے کہا۔کہ وکیل صاحب اب میرا بھائی چھوٹ جائے گا نا۔پیسے دیکھ کر وکیل کے چہرے پر چمک آگئی کیونکہ اس کی نظروں میں انسان کی کو قیمت تھی ہی نہیں۔ بلکہ پیسہ ہی سب کچھ تھا۔وہ پیسہ گننے لگ گیا۔اور اظہر کا باپ اسماعیل چچا ایک تھکے ہوئے مسافر کی طرح وکیل کی کرسی کے دائیں جانب زمین پر بیٹھ گیا کیونکہ بیٹے کی جدائی اور وکیل کی فیس اور روئیے نے تو اس کی کمر توڑ کر رکھی تھی ۔اتنی میں دروازے پر ایک مسافر نمودار ہوا اور الله کے نام پر کچھ مانگنے لگا۔ اسماعیل چچا اپنے جیب ٹٹولنے لگا اور جیب میں بچا آخری دس روپے کا نوٹ اسے دے کر دعا کی درخواست کرنے لگا کہ اس کا بیٹا رِہا ہو۔ مسافر وکیل کو پیسے گنتے ہوئے اور اسماعیل چچا کو آنسوں پونچھتے دیکھ رہا تھا۔ لیکن وکیل پیسے گننے میں محو تھا۔ اس نے کوئی توجہ نہیں دی۔اتنے میں وکیل کا موبائل بج گیا لیکن وکیل کو پیسے گننے سے فرصت ملے تب نا۔ اب آفس میں موجود ٹیلیفون کی گھنٹی بجنے لگی۔وکیل نے اپنے معاون سے فون اٹھانے کے لیے کہا۔معاون نے فون اٹھایا اور ہلو کے بعد ایسے خاموش ہوا جیسے اس کی زبان کاٹ دی گئی ہو۔اور اس کے ساتھ ہی ریسیور اس کے ہاتھ سے گر گیا۔وکیل اس کی طرف دیکھ کر کہنے لگا۔کیا ہوا۔ بات کیوں نہیں کرتے ہو۔معاون گھبراتے ہوئے بولا۔وکیل صاحب آپ کا بیٹا امریکہ میں ایک دلدوز سڑک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کہنا تھا کہ وکیل دھڑام سے اپنی کرسی سے گر کر اسماعیل چچا کے قدموں میں آ گرا ۔اور اس پر غشی طاری ہو گئی مسافر دروازے پر یہ منظر دیکھ رہا تھا۔اور وہ وکیل کی حالت دیکھ کر زور زور سے قہقہ لگاتے ہوئے وہاں سے نکل گیا۔عدالت کی دیواریں اونچی ہونے کے سبب مسافر کے قہقہے کی بازگشت بہت دور تک سنائی دیتی تھی ۔ایسا لگتا تھا کہ جیسے کسی بڑی عدالت کا جج کسی بڑے کیس کا فیصلہ زور زور سے سنا رہا ہو۔ میں حیران تھا کہ وقت کی یہ پلٹ پھیر آخر ۔۔۔۔
ooooooooooooooooo