عُبید اَحمد آخون
زبان کی کئ تعریفیں کی گئ ہیں- زبان کی ایک منطقی تعریف یہ ہو سکتی ہے.. ” زبان بالقصد، من مانی، قابل تجزیہ، صوتی علامات کا وہ نظام ہے جس کے زریعے ایک انسانی گروہ کے افراد اپنے خیالات و جزبات کی۔
ترسیل باہمی کرتے ہیں” –
شاعِر مشرق ،علامہ اقبال فرما گئے ہیں۔۔۔
’’تراش از تیشۂ خود ،جادۂ خویش
براہِ دیگران رفتن عذاب است
اپنے تیشے سے اپنا راستہ خود تراش لو ۔دوسروں کے راستے پر چلوگے تو زندگی عذاب بن جائے گی ۔‘‘
اس آئینے میں اپنا جو رُوپ دکھائی دیتا ہے اس میں ہماری زبان بھی ،ہمارا لباس بھی ،ہمارے فکری زاویے بھی او ر ہمارے تہذیبی رویے بھی دوسروں کے زیر اثر اپنی پہچان کھوتے جارہے ہیں ۔
گھر میں محض عمومی بول چال کے لیے ایک ملغوبہ سی مادری زبان استعمال ہوتی ہے۔گھر سے باہر قدم قدم پر علم و ادب ،تعلیم و تدریس اور مکالمے و مباحثے کے لیے دوسری زبانوں کااستعمال ہوتا ہیں۔ایسے میں مادری زبان سکڑ سمٹ کر ایک سطحی بول چال تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔
“یونیسکو کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کی چھ ہزار سے کچھ زائد زبانوں میں سے آدھی کے قریب اس وقت معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں۔اسی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کوئی زبان تبھی ترقی یافتہ اورزندہ کہلاسکتی ہے جب اس میں تدریسی اور تخلیقی فعالیت ہو ۔تعلیمی اداروں میں رائج ہو ۔اس میں علمی ،ادبی ،سائنسی اور تحقیقی کتب کی اشاعت ہو ۔عوام ،خاص کر نوجوان اسے شوق سے بولتے ہوں۔بدلتے ہوئے حالات کے مطابق ڈھلنے ،علم و دانش اور ابلاغ کے جدید ذرائع استعمال کرنے کی اس میں حرکی قوت ہو ۔ایک نسل سے دوسری نسل میں شعوری جذبے سے منتقل ہونے کی فطری صفت ہو۔جسے intergenerational language transmission کہا گیا ہے۔اس رپورٹ میں زبان کی ترقی اور کامیابی کے جو اصول بتائے گئے ہیں ،ان کی روشنی میں دیکھیں تو ریاست جموں و کشمیر کی مادری زبانیں ان معدوم ہوتی ہوئیں زبانوں میں شامل ہیں جن کا وجود خطرے میں ہے۔”
خاکم بدہن ! اگر ایسا ہوگیا تو یہ ہماری ثقافتی اور سماجی رویوں کی موت ہوگی ۔مادری زبان ہی ہماری ہے.. . شناخت کا بنیادی عنصر ہے ۔یہ ہماری اجتماعی سوچ کی ترجمان ہے ۔اپنی مٹی سے جُڑے رہنے کا اعتبار ہے یہ اعتبار کبھی مٹنا نہیں چاہیے۔ورنہ ہماری اصل ہی مٹ جائے گی۔
زبان کی اہمیت ظاہر کرتی ہوئی دو لائنیں انگلش میں بھی ملاحظہ کر لیں جو یونیسکو کی اسی رپورٹ کے مطالعے کے دوران نظر سے گزریں۔اس میں جو باتیں ہیں ان کاعکس میری تحریر میں بھی ملے گا ۔ان دو لائنوں کو انگلش میں پڑھنے کا اپنا ہی مزہ ملے گا۔
“Languages are vehicles of our culture,collective memory and values.They are an essential component of our identities,and a building block of our diversity and living heritage.”
زبان اپنے خیالات اور محسوسات کے اظہار کرنے کا ایک مکمل اور موثر وسیلہ ہے زبان خالصتاً ایک انسانی وصف ہے اور اسی بنا پر انسان کو حیوان ناطق بھی کہاں گیا ہے انسانی وسیلہ اظہار بہت ہی پیچیدہ اور مشکل نظام ہے اور اس نظام کی پیچیدہ سطیی ہیں اسی بنا پر زبان کے بارے میں کہاں گیا ہے کہ
It’s a system of systems یہی وجہ ہے کہ زبان ہمیشہ مفکروں، فلسفیوں اور ماہرین زبان و ادب کا موضوع بنی رہی ہے اور تاریخ کے مختلف ادوار میں اس کو مختلف زاویوں سے سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی گئیے ہے
ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل لکھتے ہے
مادری زبان سے مراد ماں کی زبان ہے یعنی یہ وہ زبان ہے جس میں ایک ماں اپنے بچے کو لوری دیتی ہے اور اسے بولنا سکھاتی ہے۔ مادری زبان جوکہ بچہ اپنے گھر میں بچپن سے سنتا ہے اور وہ اس زبان کو پہلے پہل بولنا سیکھتا ہے اور یہ زبان بچے کو سکھائی نہیں جاتی بلکہ اس زبان کوبچہ اپنے ماں باپ بھائی بہن کی گفتگو کو سن کر خود ہی سیکھ جاتا ہے بچہ کو ہر ماں اپنی زبان میں بات کرنا سکھاتی ہے اچھے اور بری باتوں سے واقف کرواتی ہے۔ تہذیب اور اخلاق اسی زبان میں بچہ کو سکھائے جاتے ہیں اور اپنے اپنے مذاہب کی باتوں کو بتایاجاتاہے جس کے ذریعہ بچہ آہستہ آہستہ اس زبان کو سیکھتا ہے اور اسی زبان میں سوچتا اور سمجھتا بھی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اپنے جذبات اور خیالات اپنی مادری زبان میں ادا کرتا ہے۔ اگربچے کو ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دی جائے تو وہ بڑی آسانی کے ساتھ زبان سیکھ جاتاہے اور باتیں بھی آسانی سے اس کی سمجھ میں آجاتی ہے اس لیے ماہرین تعلیم اور دانشور لوگوں کا کہنا ہے کہ بچہ کی ابتدائی تعلیم مادری زبان ہی میں ہونی چاہیے تاکہ بچہ آسانی سے علم سیکھ سکے اور ساتھ ہی ساتھ دیگر زبانوں سے بھی بچہ کو واقف کروایاجائے یا سکھایاجائے۔
سرکاری سطح پر تو بہت دعوے کیے جاتے ہے کہ ہم مقامی زبانوں کو بھی فروغ دینگے پر یہ دعوے ہمیشہ اعلانوں تک ہی محدود رہتے ہیں انہیں عملی جامہ پہنانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اسکولوں میں مقامی زبانوں کو بھی جگہ ملنی چاہیے،تاکہ ہم اپنی زبانوں کے ساتھ ساتھ اپنی ثقافت، تہزیب، تمدُن کی بقا کو قائم
رکھ سکے. یاد رہے یہ ہم سب کی زمہ داری ہے آنے والی نسلوں کے سامنے جواب دہ بھی ہونا ہے
ہم ہر سال “مادری زبان کا دن” ۲۱ فروری کو جوش و خروش کے ساتھ مناتے ہے اور اسی جوش و جزبے کو ہمیی پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش میں محنت و مشقت کے ساتھ مل جل کر کام کرنے کی سعی کرنی چاہیے بقول اقبال
فرد قائم ربط ملت سے ہیں تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریاں میں بیرونِ دریاں کچھ نہیں
عُبید اَحمد آخون۔۔
ساکنہ پاندریٹھن سرینگر حال اومپورہ ہاؤسنگ کالونی 9205000010