غزل
پروفیسرحنیف کیفی
وا اب نہ تمناؤں کا ہوگا کوئی در اور
ممکن ہو تو بس ایک عنایت کی نظر اور
شاعر کا خیال اور ہے ناقد کی نظر اور
دوراہہ یہ طے ہو تو ملے راہ گزر اور
فن میرا ابھی قابلِ تسلیم نہیں ہے
یاروں کو مرے چاہیے تصدیقِ ہنر اور
جس گھر سے جدا ہونا ہو اس گھر کی طلب کیا
رہنے کو ہمیشہ کے لیے چاہیے گھر اور
ہے خیر تو پھر سوچ کے اک بار بتاؤ
تم کہتے ہو کچھ اور وہ لائے ہیں خبر اور
رسوائیِ ناکردہ گناہی ہے مرے ساتھ
ڈرتا ہوں نہ تہمت نئی آئے مرے سر اور
صد شکر کہ طے ہوگئیں سب منزلیں کیفیؔ
ہو خیر کہ درپیش ہے بس ایک سفر اور