دھول 62

دھول

ثناء ادریس

ہوئے راستے تھے جدا جدا
ہاں ستم ہوا تھا کچھ اس طرح
نہ نظر اٹھی، نہ کلام تھا
نئی منزلیں، نیا راستہ
انا اپنی تم کو عزیز تھی
مری بے بسی بھی عجیب تھی
میں نہ کہہ سکی جو لبوں پہ تھا
مجھے تم نے جانا تھا بے وفا
تجھے جانا تھا، تو چلا گیا
مرا وقت جیسے ٹہر گیا
یہ شکست مجھ کو قبول تھی
ترے قدموں کی وہ جو دھول تھی
مجھے جان و دل سے عزیز تھی
ترے اٹھتے قدموں کی دھول وہ
جنہیں اپنی آنکھوں میں بھر کے میں
اسی راستے پہ پلٹ گئی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں