پروفیسر حنیف کیفی : بحیثیت رباعی گو 49

پروفیسر حنیف کیفی : بحیثیت رباعی گو

کمال جعفری
پروفیسر حنیف کیفی شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی میں استاد رہ چکے ہیں۔ ان کے تین شعری مجموعے (۱) ’’چراغِ نیم شب‘‘ اور (۲) ’’سحر سے پہلے‘‘اور (۳)’’صبح کی دہلیز پر‘‘ منظرِ عام پر آچکے ہیں۔ وہ کلام کم کہتے ہیں لیکن جو کچھ کہتے ہیں بہت سوچ سمجھ کر کہتے ہیں۔ فکر کے ساتھ زبان و فن کے قید و بند کا پورا لحاظ رکھتے ہیں۔ لہٰذا نظم و غزل کے ساتھ وہ رباعی کہنے میں بھی یدِ طولیٰ رکھتے ہیں۔ یوں تو بنیادی طور پر وہ غزل کے شاعر ہیں لیکن رباعی کے میدان میں بھی طبع آزمائی کرتے ہیں اور ایسی دلکش و فکرانگیز رباعیات کہتے ہیں کہ پڑھنے والے ایک نظر میں ان کے فکری و فنی کمالات کا اعتراف کرنے لگتے ہیں۔ پروفیسر حنیف کیفیؔ نے رباعی کی بحر کا خلاقانہ استعمال بڑی چابکدستی سے کیا ہے۔

اور اپنے افکار و اظہار سے اس میں ایک خاص لطافت پیدا کردی ہے۔ اردو کے مشہور رباعی گو شعرا میر انیسؔ، حالیؔ، جوشؔ، فراقؔ، امجدؔ حیدرآبادی اور علقمہؔ شبلی کی طرح حنیف کیفیؔ صاحب نے مختلف موضوعات کو اپنی رباعیوں میں سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ ان کو زبان و بیان پر قدرت حاصل ہے اور اس کا برملا اظہار رباعی کے ذریعہ کرتے ہیں۔ اپنے اس دعوے کے ثبوت میں ان کی کچھ رباعیاں پیش کررہا ہوں۔ ملاحظہ ہوں:
اربابِ کرم زیر ہمیں کر نہ سکے
یلغارِ عنایات سے ہم ڈر نہ سکے
کھاتی ہے بجا پیچ و تاب دنیا کیفیؔ
جو زہر دیا پی گئے ہم مر نہ سکے
خود سر نہیں خود بیں نہیں خوددار ہوں میں
اب یہ ہے گناہ تو گنہ گار ہوں میں
میں مرتکبِ جرمِ انا ہوں کیفیؔ
ہر لمحہ تہہِ تیغ سرِ دار ہوں میں
آلام کی قربت سے مزا لیتا ہوں
اشکوں کو تبسم میں چھپا لیتا ہوں
سب درد سے گھبرا کے اماں مانگتے ہیں
میں درد کو سینے سے لگا لیتا ہوں
ہر چند کہ ہے بارشِ رحمت پہ یقیں
بے برگ و ثمر ہے ابھی خوابوں کی زمیں
اے شانِ کریمی مری تقصیر معاف
سب کچھ مجھے حاصل ہے مگر کچھ بھی نہیں
ناکام اصولوں کا نمائندہ ہوں
میں اوجِ خیالات سے شرمندہ ہوں
ہوں اپنے ہی آدرشوں کی میت کیفیؔ
مردہ ہوں مگر سب کے لیے زندہ ہوں
مذکورہ رباعیوں کے مطالعے سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی رباعیوں میں زندگی کا پیغام ہے۔ شاعر صبر و ضبط کے دامن کو تھامے ہوئے دنیا کے آلام و مصائب کو جھیلنا پسند کرتا ہے لیکن اپنی خودداری کا سودا نہیں کرتا۔ یہ حوصلہ دراصل انسان میں اس وقت پیدا ہوتا ہے جب اس کے خیالات پختہ ہوتے ہیں اور عزائم جوان ہوتے ہیں۔ یہی وہ اوصاف ہیں جن کی بدولت حنیف کیفی کی رباعیات ایک نظر میں اپنے قارئین کو متاثر کرتی ہیں۔
پروفیسر حنیف کیفی جب اپنی رباعیوں میں منظرکشی کرتے ہیں تو اظہارِ بیان کی فراوانی کی بدولت مضمون آفرینی کا شاندار مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس ضمن میں دو رباعیاں پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہوں:
رفتار میں اک لغزشِ مستانہ ہے
گفتار میں چھلکا ہوا پیمانہ ہے
کیفیؔ کسی کمسن کی جوانی توبہ
ہر ناز میں اِک شوخیِ رندانہ ہے
چہرہ کہ فنِ مانیؔ و بہزادؔ کا پھل
آنکھیں ہیں کہ سرمستیِ خیام کا حل
وہ شیشے میں اتری ہوئی نازک بدنی
گویا ہے مرصّع کوئی حافظؔ کی غزل
مختصر یہ ہے کہ کسی حسین پیکر کا بیان ہو یا اخلاقی مضامین، کیفی صاحب کی رباعیاں ان کا حق ادا کرتی ہیں۔
نظمِ معریٰ اور سانیٹ پر اردو ادب میں حنیف کیفی نے سب سے اہم اور نمایاں کارنامے انجام دیے ہیں۔ یہ مختصر سا مضمون میں نے ان کے دوسرے شعری مجموعے ’’سحر سے پہلے‘‘ سے منتخب رباعیات پر لکھا ہے جو محض ایک محبت کا اظہار ہے۔ انہوں نے اپنی فکر کے وسیلے سے جو کچھ پیش کیا ہے۔ میں ان ہی کی اس رباعی پر اپنی بات ختم کرتا ہوں:
کچھ رات جو باقی ہے سفر سے پہلے
گزرے نہ کہیں عرضِ ہنر سے پہلے
یہ تھوڑی سی مہلت ہے غنیمت کیفیؔ
کہہ ڈالو جو کہنا ہے سحر سے پہلے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں