از قلم شگفتہ حسن
آج صبح فجر پڑھ کر میں چائے کا کپ لے کے اپنی آپی کے سامنے بیٹھی۔ وہ قرآن پاک پڑھتے وقت اکثر روتی ہے۔ آج بھی وہ قرآن پڑھتے وقت بلند آواز میں رونے لگی۔ یہ آپ کون سی آیت پڑھ رہی ہیں آپی؟
میں پوچھے بنا رہ نہ سکی۔ آپی نے ایک دم قرآن سے نظریں ہٹا کر اشک بار آنکھوں سے میری طرف دیکھا اور آہستہ بولی سورہ فاطر آیت ۷۔
نور! جانتی ہو اللہ نے بزریعہ قرآن ہم پر کتنی زمہ داریاں عائد کی اگر ہم ایک دفعہ غور کریں گے کہ قرآن ہم سے کیا کہہ رہا ہے تو ہمیں اپنے سارے خساروں پر بہتے دیر نہیں لگے گی۔ نور مجھے آج بھی وہ وقت یاد ہے جب میں پوری طرح سے خسارے میں تھی۔ مجھے جب بھی وہ وقت یاد آتا ہے تو میری روح لرزہ بر اندام ہوتی ہے اور رواں رواں کانپ اٹھتا ہے۔
ایک بات پوچھوں آپی۔۔۔ جی۔
آپ کب خسارے میں تھیں آپ تو لوگوں کو برائیوں سے روکتی تھیں، نیکی کا سبق دیتی تھیں، اصلاح، رہنمائی و تربیت کا درس دیتی تھیں؟
میں دوسروں کو برائیوں سے روکتی ضرور تھی نور لیکن خود برائیوں میں ملوث تھی۔ میں لوگوں کو نیکیوں کا حکم ضرور دیتی تھی لیکن خود وہ نیکیاں نہیں کر پا رہی تھی۔ میں دوسروں کو اصلاح، رہنمائی و تربیت کا درس دیتی ضرور تھی لیکن خود اپنی تربیت و اصلاح سے غافل تھی۔ جب میں دعوت و تبلیغ کا فریضہ انجام دے رہی تھی نور تب میں خود بے عمل رہا کرتی تھی۔ مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے جب قرآن مجید کی دو آیتوں اور نبی کریم ﷺ کے احادیث مبارکہ نے میری روح کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
آپی وہ کون سی آیات ہیں؟
پہلی آیت سور بقرہ کی ہے جس میں اللہ تعالٰی فرماتے ہیں: “کیا تم لوگوں کو نیکی کی تلقین کرتے ہو اور اپنے کو بھول جاتے ہو حالانکہ تم اللہ کی کتاب بھی پڑھتے ہو، تو کیا تم سوچتے نہیں۔” (البقرہ:۴۴)
دوسری آیت سورہ صف کی ہے جس میں اللہ تعالٰی فرماتے ہیں: “تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو خود کرتے نہیں ہو۔” (الصف:۲)
اور یہ وہ احادیث ہیں جسے پڑھ کر میری روح کانپ اٹھی تھی۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ” میں نے معراج کی شب میں کچھ لوگوں کو دیکھا کہ ان کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے تھے۔ میں نے جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ جبرئیل علیہ السلام نے کہا ” یہ آپ کی امت کے مقررین ہیں۔ یہ لوگوں کو نیکی اور تقویٰ کی تلقین کرتے تھے اور خود کو بھولے ہوئے تھے۔ (مشکوٰۃ)
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ” قیامت کے روز ایک آدمی لایا جائے گا اور اسے آگ میں پھینک دیا جائے گا، اس کی انتڑیاں اس آگ میں باہر نکل پڑیں گی۔ پھر وہ آدمی ان انتڑيوں کو اس طرح لیے لیے پھرے گا، جس طرح گدھا اپنی چکی میں پھرتا ہے۔ یہ دیکھ کر دوسرے جہنمی لوگ اس کے پاس جمع ہوں گے اور پوچھیں گے اے فلاں! یہ تمہارا کیا حال ہے؟ کیا تم دنیا میں ہمیں نیکیوں کی تلقین نہیں کرتے تھے؟ اور برائیوں سے نہیں روکتے تھے؟ (ایسے نیکی کے کام کرنے کے باوجود تم یہاں کیسے آگئے؟) وہ آدمی کہے گا، میں تمھیں تو نیکیوں کا سبق دیتا تھا لیکن خود نیکی کے قریب بھی نہ جاتا تھا، تمھیں تو برائیوں سے روکتا تھا لیکن خود برائیوں پر عمل کرتا تھا۔”
نور اب جب بھی میں تلاوت قرآن کرتی ہوں تو مجھے وہ وقت یاد آتا ہے جب میں اپنے آپ کو بھول بیٹھی تھی اور دوسروں کو ہمیشہ اچھائی کی تلقین کرتی رہتی تھی۔ جب میں لوگوں کو نیکی کا حکم دیتی تھی، برائیوں سے روکتی تھی اور دعوت و تبلیغ کا کام کرتی تھی تب میں خود اس پر عمل نہیں کرتی تھی۔ میں نماز اور قرآن سے لاتعلق تھی۔ میں نے قرآن کو اپنی الماری میں رکھا ہوا تھا۔ کبھی اس کو پڑھنے کے لئے نہیں اٹھایا تھا جس کی وجہ سے اس پر دھول مٹی جمی ہوتی تھی۔ وہ وقت یاد آتا ہے تو میری روح کانپ اٹھتی ہے۔ میری آنکھیں تر ہوجاتی ہیں اور شرم سے ڈوب مرنے کا جی چاہتا ہے۔ میں نے خود کو کہیں کھو دیا تھا۔ لیکن میں اب اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ اس نے مجھے دین کا صحیح فہم اور گہری سوجھ بوجھ عطا فرمائی۔ قرآن کی ان آیتوں اور نبی کریم ﷺ کی احادیث مبارکہ نے میرے دل پر اثر کر دیا اور میرے اندر اک چنگاری روشن کر دی۔ شکر الحمد اللہ! ان آیتوں نے مجھے وقت رہتے یہ بات سمجھا دی کہ میں کیسے خسارے کی طرف جا رہی ہوں اور مجھے اس بات کا احساس دلایا کہ دوسروں کو اچھائی کی طرف آنے کی دعوت دینے سے پہلے انسان کو وہ اچھائی اپنے اندر اتارنی پڑتی ہے۔
موجودہ دور کی ایک کڑوی سچائی یہ ہے کہ ہم میں سے ایک طبقہ دوسروں کو تو نصیحت کرتا ہے لیکن خود اپنے آپ کو نہیں دیکھتا۔ اس طبقے کے لوگ اکثر دوسروں کی اصلاح، رہنمائی و تربیت پر زیادہ توجہ دیتے ہیں لیکن خود اپنے آپ پر اور اپنے اہل خانہ پر توجہ نہیں دیتے۔ اس طبقہ کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ لوگ اور ان کے بچے تربیت و رہنمائی حاصل کریں۔ ایک اعتبار سے یہ کوشش قابل تعریف ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ عمل صدقہ جاریہ بھی ہے لیکن یہاں پر رہنمائی اور دعوت و تبلیغ کا فریضہ انجام دینے والے طبقے کی ذمہ داری ختم نہیں ہوجاتی۔ انہیں صرف دوسرے لوگوں اور ان کے بچوں کی اصلاح و رہنمائی کی فکر میں نہیں لگ جانا ہے بلکہ دوسروں کے ساتھ ساتھ اپنی اور اپنے اہل خانہ کی اصلاح و رہنمائی کی فکر بھی کرنی چاہیے۔ اگر ہم یہ کوشش کرتے رہے کہ دوسرے لوگ اور ان کے بچے نیک اور دیندار بن جائے اور صرف دوسروں کی فکر میں لگے رہے تو یقیناً ہم دنیا میں بھی نا کام رہیں گے اور آخرت میں بھی۔ اللہ تعالیٰ سورہ تحریم کی آیت نمبر ۶ میں فرماتے ہیں: “اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے، جس پر نہایت تندوخو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہوں گے جو کبھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم بھی انہیں دیا جاتا ہے اسے بجا لاتے ہیں۔”
ہم مسلمان اور بہترین امت ہیں۔ ہم اللہ پر کامل ایمان رکھتے ہیں۔ برائیوں سے روکنے، بھلائی کا حکم دینے اور دعوت دین کا عہد رکھنے والے گروہ ہیں۔ اس لیے ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم پہلے اپنے آپ کو نیکی کا حکم دے۔ خود کو برائییوں سے روکے، اپنی اصلاح حال کی فکر کریں اور پوری طرح دین پر چلے۔ ہماری انفرادی زندگی، خانگی تعلقات، سماجی معاملات اور سیاسی اور ملکی سرگرمیاں سب کچھ دین کے مطابق ہوں۔ ہمارا کردار، ہمارے اخلاق، ہمارے تعلقات و معاملات سب کچھ لوگوں کے لیے نمونہ بنے۔ جب ہم دین پر پوری طرح عمل پیرا ہو کر دعوت دین دوسروں کے سامنے پیش کریں گے تو یقیناً ہماری بات میں بھی اثر ہوگا اور لوگوں کے دلوں پر بھی اثر ہوگا۔ ورنہ اگر ہم صرف اپنی اصلاح و تربیت سے غافل ہوکر دوسروں کی تربیت و اصلاح کی فکر کریں گے تو ہماری یہ بے عملی اس نصیحت کو بے وزن اور بے اثر کرتی رہے گی اور آخرت میں ہمیں انتہائی عبرت ناک سزا بھگتنا پڑے گی اور دنیا و آخرت دونوں جہان میں ذلیل و رسوا کیے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں دوسروں کے ساتھ ساتھ اپنی، اپنے اہل خانہ کی، اپنے پڑوسیوں اور اپنے محلے والوں کی بھی اصلاح و نصیحت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
����
Feedback: Shagufta_hassan1236