بشیر اطہر
7006259067
جس طرح وادیٔ گلپوش اپنی خوبصورتی کی وجہ سےکافی مشہور ہےاور دنیا بھر کے سیاح تفریح کےلئے آتے ہیں اسی طرح سے یہاں کے ادبی دبستان سے وابستہ لوگ بھی کافی مشہور ہیں یا یوں کہا جائے کہ یہاں کے ادبی ستارے بھی استفادہ کے قابل ہیں یہاں بھی ادبی ستاروں کا قابِل تقلید ایک جھرمٹ موجود ہے انہی قابل تقلید ادبی ستاروں میں ایک درخشندہ ستارہ اردو اور کشمیٖری کے اعلٰی پائے کا مفکر، تعلیم دان،تنقید نگار شاعر اور قلمکار رنجور تلگامی کا نام سرفہرست ہے جنہوں نے اپنی علمی صلاحیت اور اپنی تصانیف کے ذریعے سےمجھے کافی متاثر کیا ہے آپ عصرِ حاضر کے اعلٰی پایہ کے عالم بھی ہیں جن کی عالمانہ صلاحیت سے ادبی ایوانوں میں چار چاند لگ جاتے ہیں انہوں نے کشمیری زبان میں تحقیقی اور تنقیدی مضامین پر مشتمل کتاب “گاشو سَتھ گاش وندایو” حال ہی میں شائع کی ہے اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ آنے والی نسلوں کےلئے خاص طور پر ان نوجوانوں کےلئے یہ کتاب کارآمد ثابت ہوگی جو کشمیٖری زبان وادب پر تحقیق کرنے کے خواہاں ہیں کیونکہ ان کی ہر بات محققانہ ہے.رنجور تلگامی کی ایک سو اکیانوے صفحات پر مشتمل یہ کتاب ہر لحاظ سے معتبر اور قابل تقلید بھی ہے اس کتاب کے پہلے صفحات پر پروفیسر فاروق فیاض، ڈاکٹر شاد رمضان اور رفیق راز کے تبصرے بھی شامل ہیں مگر میں پروفیسر فاروق فیاض کی اس بات سے متفق نہیں ہوں کہ جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ” جو توقعات کشمیٖری زبان وادب کے بہی خواہوں اور کشمیری زبان وادب کےطالب علموں کے رنجور تلگامی کے ساتھ وابستہ تھے آپ ان کے توقعات پر کھرے نہیں اُترے ہیں اور انہوں نے اپنے پیچھے ایسا کچھ نہیں چھوڑا ہے جس کے ہمیں توقعات تھے” شائد پروفیسر صاحب کا کہنا ہے کہ انہوں نے بہت ساری کتابیں شائع نہیں کی ہیں…. مگر میری ذاتی رائے ہے کہ رنجور تلگامی نے آج تک جو کچھ شائع کیا ہے وہ سب متاثرکُن،علمی دولت سے مالا مال اور زبان وادب کی سچائی پر منحصر ہےفضولیات سے پاک ہے آپ اگرچہ ہزاروں کتابوں کے مصنف نہیں ہیں مگر پھر بھی جو کچھ شائع کیا ہے وہ سب معیاری ہے یعنی آپ مقدار سے زیادہ معیار پر اہمیت دے رہے ہیں جبکہ بہتات ان ادیبوں کی ہے جو مقدار پر زور دیتے ہیں مقدار پر اہمیت دینے سے زبان وادب کی شکل وصورت مسخ ہوجاتی ہے جس کے ساتھ رنجور تلگامی نے سمجھوتہ نہیں کیا ہے اور نہ ہی سمجھوتہ کرنے والے ہیں اس کے علاوہ پروفیسر شاد رمضان اور رفیق راز نے سابقہ نہج کو برقرار رکھ کر رنجور تلگامی کی ڈھارس بندھائی جبکہ ان کے ساتھ بھی یہاں مجھے اختلاف ہے اُن دونوں کو کتاب میں موجود نقائس اور خوبیوں کی طرف دھیان دے کر اس میں شامل مضامین کے متعلق کُھل کر بات کرنی چاہیے تھی اور مصنف کی توجہ اس طرف لے جانی چاہیے تھی جس طرف ان کا دھیان نہیں گیا ہو کیونکہ اس دُنیا میں بعد ازاللہ تعالیٰ کے آخری رسول حضرت محمد ؐ کوئی بھی مکمل نہیں ہے چاہے اپنےقول وفعل کے ذریعے یا اپنی تحاریر کے ذریعے سے.یہ بات میں نے اس لئے دہرائی ہے کہ “گاشو ستھ گاش وندایو” دور حاضر کے علاوہ آنے والے دور کےلئے بھی معتبر تصورکی جائے گی.یہ بھی ممکن ہے کہ اس کتاب میں خامیاں نہیں ہوں گی اسی لئے تبصرہ نگاروں نے اس پر صرف تبصرہ ہی لکھا ہے اور تنقید کرنے کی کنجائش نہیں ہوگی.راقم نے بھی اس کتاب کا حرف بہ حرف مطالعہ کیاہے یہ کتاب واقعًا آنے والی نسلوں کےلئے رہنما ثابت ہوگی.رنجور تلگامی نے اس کتاب میں محققانہ انداز سے مضامین شامل کئے ہیں اور ہر مضمون کو تنقیدی زاویوں سے پرکھ کر، باریک بینی سے مشاہدہ کرکے اور اپنی شعوری ذہن کو بروئے کار لاکر دقیق اندازسےزُبان دینے کی کوشش کی ہے جس سے نہ صرف یہ کتاب دلچسپ بنتی ہے بلکہ مطالعہ کرنے والے کے ظاہری وباطنی حِس کو جگانے کی بھی پوری کوشش کرتی ہے اس میں شامل پہلا مضمون”کاشر زبٲنی ہندی مسئلہ لِسانی تحریک تہ امکانات”میں انہوں نے کشمیری زبان وادب کے ساتھ درپیش مسائل کو وسیع پیمانے پر خامہ فرسائی کی ہے اور ان مسائل کےساتھ صف آراء ہونے کی ترکیب بھی پیش کی ہے انہوں نے اس مضمون میں کشمیری زبان وادب سے وابستہ ادبی انجمنوں اور سرکاری اداروں کو بھی آڑے ہاتھوں لیا ہے اور ان کی مزید ناکامی کے امکانات کی بھی پیشن گوئی کی ہے”کشیرِ اندر تصوُفچ تاریخ تہ تحریک” میں آپ نے کشپ رشی کے زمانے سے لیکر کشمیر کے پہلے صوفی بُزرگ “بلبلؔ شاہؒ صاحب” میر سید علی ہمدؔانیؒ اورشیخ نورالدین ولؔیؒ کی صوفیانہ زندگی اور صوفیانہ مزاج سے ہمیں واقف کرنے کی پوری کوشش کی ہے انہوں نےعلم توحید، علم فلسفہ، علم تصوف اور علم منطق کے پیرائے میں آپ سبھی صوفیائے کرام کا تزکرہ اس باب میں وسعت کے ساتھ کیا ہےاور صوف وسلوک کے بارے میں بھی جانکاری فراہم کی ہے حضرت شیخ شرف الدین المعروف بُلبُل شاہؒ کا سلسلہ حضرت موسیٰ کاظمؑ کے ساتھ مِل رہا ہے اور سُہروردی سلسلے کے پیروکار تھے مگر یہاں ایک بات میری سمجھ میں نہیں آئی کہ رنجور صاحب نے کاظمؓ کے ساتھ رضاؓ کیوں ملایا ہے کیونکہ حضرت علی رضا حضرت موسیٰ کاظم کے فرزند تھے اگر بُلبُل شاہ صاحب کاحسبی سلسلہ اُن کی اولاد یعنی علی رضاؑ کے ساتھ ملتا ہے تو تصوُف کے لحاظ سے آپ کارضوی ہونا محال تھا.دوسری بات یہ کہ استاد رنجور تلگامی رمضان بٹ گنستان کے متعلق بھی پُرفکر اور تحقیقی مضمون پیش کیا ہے مجھے لگتا ہے کہ استاد شائد وادی کشمیر کے پہلے نقاد اور محقق ہیں جنہوں نے رمضان بٹ گنستانی کے متعلق لکھ کر ادبی دنیا کو ایک ایسے شاعر سے واقف کرایا ہے جس کے بارے میں مزید تحقیقات کرنے کی گنجائش موجود ہے انہوں نے زبان وادب سے وابستہ نئی نسل کو ایک تحریک دی ہے کہ جس طرح آپ نے رمضان بٹ گنستانی کے متعلق تحقیق کی ہے اسی طرح سے کشمیر میں ایسے بہت سے گمنام شخصیات ہوں گی جو زبان وادب سے وابستہ رہے ہوں گے مگر ان کے بارے میں ابھی تک کسی نے بھی قلم نہیں اٹھایا ہے کیونکہ عصرِ حاضر کی طرح گُزشتہ وقتوں میں کشمیری زبان وادب کی خاطر کام کرنے والے بہت لوگ تھےاور ان کا کام بھی کسی قیمتی اثاثہ سے کم نہیں ہے وحدتُ الوجود اور وحدت الشہود سے واقف استاد رنجور تلگامی نے سوچھ کرال پر ایک بہترین تبصرہ لکھ کر پڑھنے والوں کو بھی ان اصطلاحات اوررموزات سے باخبر کیا ہے جو اصطلاحات اوررموزات سوچھ کرال کی شاعری میں موجود ہیں انہوں نے تصوف اور سلوک کے بارے میں تاثرات پیش کرکے ان طالب علموں کےلئے راہیں ہموار کی ہیں جو تصوف اور سلوک پر کام کرنا چاہتے ہیں انہوں نے لکھا ہے کہ”سلوک کے سفر میں ایک مقام ایسا ہے جس کو” سیرِ الی اللہ”کہتے ہیں اور اس کے بعد”سیرِ فی اللہ”ایک اور مقام ہے جس کی کوئی انتہا نہیں ہے اور سیر الی اللہ خدا کی طرف سفر کرنا ہے سفر کے اس مقام پر سالک ذات کے تجلی سے بہرمند ہوتا ہے اور وہ مغلُوب الحال ہوجاتا ہے اور وہ ذوقِ مستی کی حالت میں اپنے آپ کو حق پر نہ ہونے کے باوجود حق پر تسلیم کرتا ہے” اسی طرح انہوں نے یہ بھی فلسفیانہ طورلکھا ہے کہ سوچھ کرال کی شاعری میں وحدت الوجود کیسے پایا جاتا ہے ایک اور خوبصورت پیرائے میں استاد نے”کٲشِر صوفی شایری تہ جمالیات” پر روشنی ڈالی ہے یہاں کے نقادوں میں ایک تاثُر پایا جاتا ہے کہ کشمیر کے شاعروں کی شاعری میں جمالیات کی کمی پائی جاتی ہے اور جمالیاتی عنصر صرف اور صرف انگریزی ادیبوں جیسے وارڈس ورتھ کی شاعری میں ہی پایا جاتا ہے جس سے استاد رنجور تلگامی منحرف ہوئے ہیں اورفرماتے ہیں کہ کشمیری صوفی شاعری میں جمالیاتی پہلو کھلے عام نظر آتا ہے اور وضاحت سے لکھتے ہیں کہ یہاں کی شاعری میں بھی اس قسم کی کیفیت پائی جاتی ہے یہاں ایک قاری کی عقل دھنگ رہ جاتی ہے کہ کس طرح رنجور تلگامی نے جمالیاتی پہلوؤں کو اس مضمون میں سمیٹ کر ایک خوبصورت مضمون بنایا ہے اور حُسن وجمال کی تعریفیں کرکے قارئین کوایک ایسے سفر کی طرف لیجانے کی کوشش کی ہے جس سفر میں قاری کچھ نہ کچھ سبق حاصل ضرور کریں گے استاد رنجور تلگامی صرف یہیں تک محدود نہیں رہے بلکہ آپ ہمیں آہستہ آہستہ علم کے ایک ایسے سمندر میں غوطہ زن کرتےرہے ہیں جس سے ہم واقف نہیں تھے انہوں نے کشمیر کے مشہور و معروف صوفی شاعر احد زرگر کی صوفیانہ شاعری کے متعلق جانکاری فراہم کرکے اس صوفی شاعر کی شاعری میں اکثر استعمال کیا ہوا ایک اہم کشمیٖری لفظ”کینہہ نہ” پر سیر حاصل گفتگو کی ہے کہ کیسے صوفیاء کرام اس لفظ کو لیتے ہیں اور استعمال کرتے ہیں کتاب کو مزید خوبصورت بنانے کےلئے دور جدید کے کئ شعراء کے کلام پر بھی خامہ فرسائی کی گئی ہے انسانیت کے علمبردار حضرت شیخ نورالدین ولیؒ کے متعلق روح افزا مقالہ بھی اس کتاب میں شامل کیا گیا ہے یہ مضمون پڑھ کر مجھےلگا کہ یہ مضمون روحِ کتاب ہے کیونکہ شیخِ کامل علمدار کشمیر شیخ نورالدین نورانیؒ تصوف کا سرچشمہ ہیں
ان کے ہاں تصوف کے بہت سارے چشمے رواں ہیں جن کی وجہ سے کشمیری صوفی بزرگ فیضیاب ہوئے ہیں اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے مگر رنجور تلگامی نے شیخ کامل کےان سالکوں یا تلمیذ کے متعلق جانکاری فراہم نہیں کی ہے جنہوں نے شیخ نورالدین ولی کے زیرِ سایہ تربیت پائی ہے اگر اس کتاب میں ان کے بارے میں بھی ذکر ہوتی تو یہ کتاب زیادہ ہی کارآمد ثابت ہوتی کیونکہ اکثر محققین نے اس بارے میں اپنی آنکھیں موند لی ہیں اور صرف شیخ نورالدین ولیؒ کا ذکر کیا ہے اس کے پیچھے کیا راز ہے اس راز سے محققین ہی واقف ہیں زیرِ تبصرہ کتاب میں امین کامل کا تصوف کے متعلق تحقیق،منشور بانہالی، مرزا عارف کی شاعری میں بھائی چارہ اور محبت کے علاوہ عمہ خوجہ کے متعلق بھی قلم اٹھایا گیا ہے اگرچہ حجم کے اعتبار سے یہ کتاب چھوٹی ہے مگر یہ رنجور تلگامی کاایک بہت بڑا شہکار کارنامہ ہے اور کشمیری زبان وادب کےلئے سونے پہ سہاگا ہے انہوں نے کتاب میں شامل مضامین کی جانچ پرکھ کرکے اس طرح سجائے ہیں جس طرح انگوٹھی میں مختلف قسم کے نگینے سجائے جاتے ہیں اس کتاب سے ان ریسرچ طالب علموں کی پیاس بجھے گی جو ایسی کتاب کے متلاشی تھے اس شہکار کے سامنے آنے سے کشمیری زبان وادب میں ایک اور اضافہ ہوا ہے یہ ایک ضرب المثل ہے کہ امید پر دنیا قائم ہے اسی لئے قارئین کو استاد رنجور تلگامی سے یہ امید ہے کہ آپ ایسی ہی قسم کی کتابیں شائع کرکے اپنے علوم و فیوض سے نوازتے رہیں گے۔