جموں کشمیر میں عارضی ملازمین کی مستقلی اور تنخواہی تفاوت کا معاملہ لوک سبھا میں گونجا 61

جموں وکشمیر میں بلڈوزر راج قائم

افسر شاہی میں ظلم و ستم کا کوئی حساب نہیں/حسنین مسعودی کی لوک سبھا میں تقریر

سرینگر08 فروری/نیشنل کانفرنس کے رکن پارلیمان برائے جنوبی کشمیر جسٹس (ر) حسنین مسعودی نے جموں و کشمیر میں سرکاری اراضی اور کاہچرائی کے نام پر جاری بلڈوزر مہم کا معاملہ لوک سبھا میں اُجاگر کرتے ہوئے جموں و کشمیر میں اس وقت بلڈوزر راج چل رہاہے، ہر صبح بلڈوزر بستیوں میں داخل ہوتے ہیں اور تجاوزات کے نام پر غریب لوگوں کے چھوٹے چھوٹے مکانوں کو مسمار کردیتے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ جموں وکشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے بلکہ فلسطین کا مغربی کنارہ ہے جہاں پر یہ مہم چلائی جارہی ہے۔ مسعودی نے کہا کہ ملک میں اگر قانون کی بالادستی ہے تو پھر قانون سب کیلئے برابر ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اسی سرکاری نے نئی دلی میں سرکاری اراضی پر قائم 1700بستیوں کو ضابطہ بنایا، ممبئی میں نصف آبادی سرکاری اراضی پر قیام پذیر ہے جبکہ گجرات میں35فیصدی آبادی کے مکانات سرکاری زمینوں پر قائم ہیں لیکن جموں و کشمیر کو ایک الگ ترازو میں تولا جارہاہے اور بنا کسی نوٹس کے بلڈوزر چلا کر چھوٹے چھوٹے مکانوں کو مسمار کیا جارہاہے۔ مسعودی نے کہا کہ جموں و کشمیر میں افسر شاہی میں ظلم و ستم کا کوئی حساب ہی نہیں ہے، لوگوں کو نہ تو نوٹس جاری کئے جاتے ہیں اور نہ ہی انہیں اپنا نقطہ نظر سامنے سامنے رکھنا کا موقعہ فراہم کیا جارہاہے۔ اس مہم ایک مخصوص طبقے کے لوگوں کو نشانہ بنا کر لوگوں کو بانٹنے کی مزموم کوششیں کی جارہی ہیں۔ حسنین مسعودی نے کہا کہ سوا سو کروڑ کی آبادی میں جہاں ایک کروڑ کی آبادی ایک ہی مذہب سے تعلق رکھتی ہے وہاں آبادیاتی تناسب کو بگاڑنے کی مذموم سازشیں کامیاب نہیں ہوسکتی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ امسال بجٹ میں غریبوں کو مکان فراہم کرنے والی سکیم PMAYکیلئے رقومات میں 66فیصداضافہ کیا گیا اور ایک کروڑ گھر بنانے کا ہدف مقرر کیا گیا۔ ایک طرف وزیر اعظم ہر سر پر چھت بنانے کے عزم کا اعادہ کرتے ہیں لیکن دوسری جانب جموں و کشمیر میں لوگوںکو گھروں سے محروم کیا جارہاہے۔ انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ یہ غیر سنجیدہ اور غیر دانشمندانہ مہم فوری طور پر بند کی جائے ۔رکن پارلیمان نے کہا کہ5اگست2019کو غیر جمہوری اور غیر آئینی طور پر جموں وکشمیر کو آئینی اور جمہوری حقوق سے محروم کیا گیا اور آج وہاں نارمسلی کے دعوے کئے جارہے ہیں۔ کلچر ایونٹ اور سپورٹس پروگراموں کا انعقاد نارملسی کی نشانی نہیں، امسال ہی یکم جنوری کو راجوری میں جو حملہ ہوا اس میں متعدد عام شہری مارے گئے۔ انہوں نے کہا کہ اگر واقعی جموں وکشمیر میں نارملسی ہے تو پھر وہاں الیکشن کیوں نہیں کئے جارہے ہیں؟ اگر پورے ملک میں جمہوریت کا جشن ہے تو پھر جموں وکشمیر کی سوا سو کروڑ کی آبادی کو جمہوریت سے کیوں محروم رکھا گیا ہے؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں