تحریر:سلمیٰ صنعم
پرویز شہریار کی تاریخ پیدائش 1962 دستاویزی اور 1964 حقیقی سن پیدائش ہے۔ ان کی ساری زندگی بڑی طویل آزمائشوں میں گزری ہے۔
شادی خانہ آبادی 23دسمبر1997اور غم روزگار سے نجات 23 مارچ 1993 میں ملی۔ بیگم زینت شہریاردرس و تدریس سے وابستہ ہیں، فرزندان خدا کی شان انہوں نے سید انشاء پرویز کمپیوٹر انجینئر ایک فرانسیسی کمپنی میں برسر روزگار اور دوسرے سید اعیان پرویز اپلائیڈ آرٹ میں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں زیرِ تعلیم ہیں۔ وجہِ شہرت افسانہ نگاری اور شاعری ہے، ایک درجن سے زائد تصانیف اشاعت پزیر ہوکر منظر عام پر آ چکی ہیں جن کے معیار کے اعتراف میں دہلی، بہار اور یو پی اُردو اکیڈمیوں نے اعزاز و انعام سے بھی سرفراز کیا ہے۔ ابجد اور چہار سو نے ان پر خصوصی نمبر کی اشاعت سے مزید حوصلہ افزائی اور کاویشات کی پذیرائی کی ہے، پیشے سے ایڈیٹر اور این سی ای آر ٹی سے مربوط ہیں، کچھ عرصہ این سی پی یو ایل میں پرنسپل پبلیکیشن آفیسر کی حیثیت سے بھی اُردو کی خدمات انجام دے چکے ہیں، وطن مالوف جمشید پور ہے اور دلّی میں گزشتہ بتیس برسوں سے مقیم ہیں۔
نمونہ کلام۔۔۔۔۔
(کالی رات کے نفوس)
یہ ایک ایسی کالی رات ہے
جس کی صبح نہیں
ہم کسی ایسے اساطیری سرنگ سے گزر رہے ہیں
جہاں دور دور تک روشنی آتی نہیں نظر
ہر طرف گھپ اندھیرا ہے
ہم ٹرین کی بوگیوں میں ڈرے سہمے بیٹھے ہوئے ہیں
روشنی کی کوئی کرن باہر نہ جانے پائے
ہلکی سی روشنی کی چمک پر
اندھےرے کا کوئی غیر مرئی ہاتھ
اچانک آگے بڑھ کر ہم میں سے
کسی کو بھی باہر کھینچ لیتا ہے
اور وہ گھپ اندھرے کا،
نیتانت اندھکار کا حصہ بن جاتا ہے
ہمارے کئی ساتھی
ادیب، شاعر اور صحافی
اس کا لقمہ بن چکے ہیں،
راہی ملکِ عدم ہو چکے ہیں
جو ایک بار
اس کے چنگل میں پھنس گیا
وہ پھر کبھی لوٹ کر واپس نہیں آیا
اندھےرا طوفانی رفتارسے ہماری طرف بڑھ رہا ہے
اس کی آسیب نماسونامی لہریں
اپنی گذشتہ لہروں سے زیادہ تیز تر ہوتی جا رہی ہیں
ہم جو کبھی آزاد پنچھی ہوا کرتے تھے
ہوا سے باتےں کیا کرتے تھے
اپنے اپنے قرنطینہ میں بند
گھر گویا چڑیوں کا پنجرہ ہو گیا ہے
اور ہم وہاں اسیر شدہ
سہمے ہوئے خوف کے سائے میں
اپنی باری کے انتظار میں
گھبرائے ہوئے
ہجوم سے کترائے ہوئے
نیم جاں و نا تواں
بیٹھے اپنوں کی موت کا نوحہ —- پڑھتے پڑھتے تھک گئے ہیں
یہ اندھیرا، آکسیجن جس کی خوراک ہے
وہ انسانوں کے جسم سے
بادِ حیات کا ایک ایک بلبلہ نچوڑ لیتا ہے
آن کے آن میں آدمی کو
مردہ بنا کے چھوڑ دیتا ہے
صبح روشنی کی طلب میں نکلا،جیتا جاگتا انسان
شام ہوتے ہوتے
زندگی سے روٹھ جاتا ہے
زندگی سے منھ موڑ لیتا ہے
ہم ایک نیتانت اندھکار سے گزر رہے ہیں
یہ ایسی طویل رات ہے کہ ختم ہونے کا نام تک نہیں لے رہی ہے
ہم گھپ اندھےرے کا ایک ایک کر کے حصہ بنتے جارہے ہیں
ہم کہ بے بس و لاچار
ہمارے پاس اس سے مقابلہ کرنے کے لیے
نہیں ہے کوئی ہتھیار
اقتدار پر قابض شاطر اور مکار
ہم معصوم عوام سے کر رہے ہیں بیوپار
سیاست
تجارت
مملکت
سبھی ہوگئیں یکلخت، رفتہ از کار
سبھی بغلیں جھانک رہی ہیں
ہم سب کسی ایسے اساطیری سرنگ سے گزر رہے ہیں
جہاں دور دور تک روشنی آتی نہیں نظر
یہ ایک ایسی کالی رات ہے/ جس کی صبح نہیں
—
(دختر مشرق)
اے دُختر مشرق
تیرے حوصلے کو سلام
دختر مشرق کایوں تو ہوتا ہے
ایک ننھا سا دل
جسے دے کر ہر ایک کو وہ اپنا بنانے لگتی ہے
کھلنڈرے پن سے ہی
وہ اپنے ننھے سے دل میں
سبھی کے دکھ درد کو سمانے لگتی ہے
سبھی کے غموں کووہ بڑی ہمدردی سے
اپنا نے لگتی ہے
وہ اپنوں کو، مزید اپنا بنانے لگتی ہے
وہ اپنوں کی خوشی کی خاطر
ہر دم مسکراتی رہتی ہے
سبھی سے عہدوپیماںنبھاتی رہتی ہے
ماں باپ بھائی بہن سکھی سہیلیاں
دوست احباب اساتذہ رشتے دار
سبھی ہوتے ہیں اس کی محبت کے حقدار
سبھی سے وہ رسم محبت نبھاتی رہتی ہے
دل چاہے نہ چاہے
ہردم مسکراتی رہتی ہے
خود ناشاد رہ کر بھی وہ کرتی ہے
دوسروں کی تیمارداری
وہ اپنوں کی خاطر
اپنی جان کی بازی لگانے لگتی ہے
بڑا حوصلہ ہوتا ہے دختر مشرق میں
اندر سے دُکھی رہ کر بھی وہ
ہردم مسکراتی رہتی ہے
مائیکے سے سسرال کی باتیں
سسرال سے مائیکے کی باتیں
کمال ِ ہنرمندی سے چھپانے لگتی ہے
دل زخمی ہونے پر بھی وہ
اپنے ہونٹوں پر
ہر دم مسکان سجاتی رہتی ہے
وہ اپنوں کی خوشی کی خاطر
ہر دم مسکراتی رہتی ہے
اے دختر مشرق
تیرے حوصلے کو سلام
…………..
(اس نے پوچھا ہے)
میری ایک نظم پڑھ کے
میرے ایک دوست نے پوچھا ہے
یہ نظم آپ نے کب لکھی ہے
اب میں اسے یہ کیسے سمجھاوں
شاعر کبھی زمان و مکان کے دائرے میں
مقید نہیں ہوتا کرتے ہیں
شاعر اپنے تخیل میں جیتے ہیں
شاعر اپنے شعور کی رو میں بہتے ہیں
شاعر میں زمانہ اور زمانے میں شاعر جیا کرتے ہیں
وہ کب ہنستے ہوئے روتے ہیں
وہ کب روتے ہوئے ہنستے ہیں
وہ جس پر مرتے ہیں
وہ اسی کو دےکھ کے جیتے ہیں
میرے ایک دوست نے پوچھا ہے
یہ نظم آپ نے کب لکھی ہے
اب میں اسے یہ کیسے سمجھاو ں
وہ تو نظم ہی ہے
جو اُن کے بطن سے ،آبشارِ ذہن سے،
دل کے نہاں خانوں سے
کبھی بارش کی طرح
رم جھم رم جھم برستی ہے
کبھی بجلی کی طرح رہ رہ کے چمکتی ہے
کبھی جھرنوں کی طرح قل قل چھل چھل
کبھی ندی کی طرح آہستگی سے
ڈھلانوں میں اترتی ہے
کبھی گل اندام معشوق کی طرح سبک روی سے چلتی ہے
کبھی شوخ و چنچل حسینہ کی طرح
دامن کشاں کشاں گل کترتی ہے
خامہ شاعر تو محض اِک وسیلہ ہے
نظم کسی وحی کی طرح
پیرہن بدل بدل کے صفحہ قرطاس پر اترتی ہے
میرے ایک دوست نے پوچھا ہے
اب میں اسے یہ کیسے سمجھاو ں
شاعر اپنی عمر طبعی سے پرے ہوا کرتے ہیں
فکشن نگارپر شاعر کو اسی لیے
فوقیت ہے کہ وہ ناقد کی منطق سے نہیں
بلکہ اپنی منطق سے لکھا کرتے ہیں
یہی سبب ہے کہ زبانِ خلق
اکثر یہ کہا کرتی ہے
فنونِ لطیفہ کی سر تاج ہے نظم
آورد کی نہیں، آمد کی معراج ہے نظم
شاعر نفوس کے اذہان میں نہیں
ان کے دل کی دھڑکنوں میں جیا کرتے ہیں
شاعر اپنی عمر طبعی سے پرے ہوا کرتے ہیں
میرے ایک دوست نے پوچھا ہے
اب میں اسے یہ کیسے سمجھاو ں
……….
(ایک نظم تمہارے لیے)
اتنی شدت سے
چاہا ہے
تمھارے لبوں کے
جام وسبو ،تمھاری آنکھوں کے پیمانوں کو
تمھاری سیاہ زلفوں ، تمھاری جھیل سی نیلی آنکھوں کو
کبھی
جو ذرا غور سے
تم آئینہ دیکھو!
تو مجھے اپنے رو برو پاو ¿گی
میرے دیدار کا ہر اک نقشِ تمنا
تمھارے وجود
تمھارے لب و رخسار پہ ثبت نظر آئے گا
تمھارے چہرے پہ
میرا چہرہ جو نظر آئے گا
رازِ سر بستہ دل سب پہ کھل جائے گا
تم خود کو کیسے سنبھال پاو گی
سوچو!
نئے ماحول میں
کیا خود کو ڈھال پاو گی
…
(الہامی نظمیں)
ادب تو سمندر ہے
ایک بحر بے کراں ہے
اس کی ہر موج نئی ،
اس کی ہر لہر نئی ہوتی ہے
سمندر کا وجود قطروں سے ہے
سمندر کا حسنِ دلفریب
اُس کی آتی جاتی لہروں سے ہے
موج در موج
اس کی لہریں پُر کشش،پُر اسرار ہو تی جاتی ہیں
سمندر ایک بحربے کراں ہوتا جاتا ہے
یہ امواج نجانے کیسی اتھاہ گہرائیوں سے چل کر
ہم تک آتی ہیں
اِسے سطحی طور پر سمجھنے کی کوشش کرنا
نادانی ہے!
میری نظم ایک قطرہ سہی
ان قطروں سے مل کرہی
میری نظمیں جو ایک تموج اُچھالتی ہیں
اسی سے سمندربھی متحرک رہتا ہے
سمندر کی گہرائیوں کا اندازہ
مچھیرے بھلا کیسے لگا سکتے ہیں
یہ تو کوئی غوطہ خور ہی بتا سکتا ہے
جو اس کی اتھاہ گہرائیوں میں جاکے
موتی نکال لاتا ہے
میری بعض نظمیں بھی
عرق ریزی کی متقاضی ہوگئی ہیں
انھیں سطحی طور دیکھنا ، عجلت میں پرکھنا
بڑی نادانی ہوگی
میری بعض نظمیں الہامی ہیں
میرے وجدان کی ترجمانی ہیں
جنھیں کوئی سچا ادیب
کوئی پارکھی ہی سمجھ سکتا ہے
مجھے اُس پارکھی کی تلاش ہے