مشاہیر ادب سے ایک نشست 71

مشاہیر ادب سے ایک نشست

ندائے ادب 14
مہمان : محترمہ ڈاکٹر ممتاز منور
میزبان: افتخار الدین انجم

iftikharuddin467@gmail.com
+923108822467

ہماری آج کی صاحب مصاحبہ محترمہ ڈاکٹر ممتاز منور پیر بھائی صاحبہ ہیں اپ کا قلمی نام ڈاکٹر ممتاز منور ہے آپ پونہ یونیورسٹی سے اردو ادب میں پی ایچ ڈی ہیں
اگر آپ کی ادبی مصروفیات کی بات کریں تو آپ کئی ادبی حلقے میں اپنی خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔

آپ صدر انجمن ترقی اردو(ہند)، پونے
صدر بزم خواتین ,پونے
صدر مراٹھی اردو مہیلا ساہیتہ پریشد ,پونے
نائب صدر کل ہند اردو ساہیتہ پریشد
نائب صدر دکن مسلم انسیٹیوٹ پونے
سابق صدر انر وہیل کلب آف پونے سینٹرل
سابق صدر Soropimist Intrnational ,پونے کے طور پر اپنی خدمات ادب کی خدمت میں وقت کیے ہویے ہیں اس کے علاؤہ آپ درجہ ذیل تنظیموں کی رکن کے طور پر بھی خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔
Young Women Cristian 1. Association(YWCA) ,Pune
2.مہاراشٹر کاسموپولیٹین ایجوکیشن سوسائٹی پونے
3.مہاراشٹر میڈیکل اینڈ ریسرچ ایجوکیشن سینٹر پونے
4. گولڈن جوبلی ٹیکنیکل ایجولیشن ٹرسٹ پونے
5.گیان ادب پونے۔
6.پرگتی فاؤنڈیشن پونے وغیرہ ۔
جبکہ آپ کو تعلیمی ,سماجی اور ثقافتی خدمات کا کئی قومی اور بین الاقوامی تنظیموں کی جانب سے اعتراف طور پر کئی اعزازات سے نوازا گیا ہے
1.انٹر نیشنل لائنس کلب
2.Soroptimist International.
3.World Performing Arts, Lahor.
4.All India Urdu Conference , Hyderabad.
5.Akhil Bhartiya Marathi Sahitya Sammelan , Ghuman, Amritsar
6.Anjuman Tarqui Urdu , Malegaon
7.Needs, Mumbai.
8.Government of Maharashtra.
9.Gyaan Adab, Pune
10.Inner Wheel Club of Pune Cenral.
آپ ہمہ جہت شخصیت ہیں اور آپ کئی قومی اور بین الاقوامی مشاعروں سیمینارز اور ورکشاپس وغیرہ میں شرکت کرتی رہتی ہیں۔
ڈاکٹر ممتاز منور صاحبہ کو یہ شرف بھی حاصل رہا ہے کہ جب قتیل شفائی پاکستان سے ہندوستان گئے تو آپ کو شہرہ آفاق شاعر جناب قتیل شفائی صاحب کی مہمان نوازی کا شرف حاصل رہا۔
جب ہم نے ڈاکٹر ممتاز صاحبہ سے قتیل شفائی کی شخصیت کے بارے میں سوال کیا تو ڈاکٹر صاحبہ نے کہا کہ وہ بطور شاعر بین الاقوامی شخصیت تھے ہی مگر بطور انسان بھی بہت اعلی شخصیت کے مالک تھے۔۔
ڈاکو ممتاز صاحبہ کے شعری مجموعے
“انداز بیاں اور”
کو اترپردیش اردو اکیڈمی انڈیا نے 2017 کے ادبی ایوارڈ سے نوازا ہے۔
تو آئیے قارئین اب چلتے ہیں سوالات کے سلسلے کی جانب۔
سوال :ادب کی طرف کب اور کیسے آئیں ؟
جواب : ادب کی طرف آنے کا سہرا میری والدین کے سر جاتا ہے۔وہ دونوں اردو ادب کا ذوق رکھتے تھے ۔مطالعے کے شوقین تھے ۔ گھر میں ذاتی لایبرری تھی ۔ جیسے ہی ا،ب، پڑھنا سیکھا بس کوئی بھی کتاب لے کر بیٹھ جاتے اور ہجے کرنے لگتے۔
سوال : آپ نے کن کن اصناف ادب میں اب تک طبع آزمائی کی ہے ؟
جواب : الحمدللہ ادب کی ساری اصناف میں طبع آزمائی کی ہے۔
سوال : کیا آپ کی کوئی تصنف اب تک منظر عام پر آچکی ہے؟
جواب : میرا ایک شعری مجموعہ شائع ہو چکا ہے جس کا نام ہے ” انداز بیاں اور”۔ اس کو اتر پردیش اردو اکیڈمی نے ادبی ایوارڈ سے بھی نوازا ہے۔
سوال : سوال کتب بینی کا رحجان لوگوں سے ختم ہوتا جا رہا ہے قارئین کو کتب بینی کی طرف کیسے راغب کیا جائے؟
جواب : لوگوں کو کتب بینی کی طرف لانے کے لئے ہمیں سب سے پہلے بچوں سے شروع کرنا چاہئے اگر بچپن میں مطالعہ کی عادت ہو جائے تو وہ ہمیشہ رہتی ہے ۔
سوال : آپ کی پسندیدہ صنف ادب ؟
جواب : میری پسندیدہ صنف ادب شاعری ہے ۔
سوال : آپ کے خیال میں اس وقت اردو کو کن مسائل کا سامنا ہے اور ان کا سدباب کیا ہے؟
جواب : اس وقت اردو ادب کے لئے سب سے بڑا مسئلہ ہے کتابوں کی نکاسی۔ہمیں قارئین پیدا کر نے ہونگے۔ ورنہ لکھنے والے دل برداشتہ ہو جائیں گے اور نیا اور بہتر ادب تخلیق ہونے سے رہ جائے گا۔
سوال : اردو ادب کی ترویج کے لئے ہم می سے ہر شخص انفرادی طور پر کیا کر سکتا ہے؟
جواب : اردو ادب کی ترویج کے لئے انفرادی طور پر ہر شخص کتابیں ،اخبارات اور رسائل خرید کر پڑھے۔ہر اردو جاننے والے گھر میں کم از کم ایک اخبار اور ایک رسالہ ضرور ہو۔
سوال : آپ کو قتیل شفائی کی مہمان نوازی کا بھی شرف حاصل رہا قتیل شفائی کو بطور شاعر اور بطور انسان کیا پایا ؟
جواب : قتیل شفائی کے بارے میں کیا کہوں وہ عالمی سطح کے ایک عظیم شاعر تو تھے ہی لیکن وہ انسان بھی بہت اعلیٰ تھے ۔اتنے بڑے شاعر ہونے کے باوجود ان میں گھمنڈ نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔
سوال: انٹرنیٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے اس دور میں اردو خود کو کیسے پروان چڑھائے ؟
جواب : اس انٹر نیٹ نے ہی مجھے آپ سے ملایا ہے ورنہ ہم ایک دوسرے کو کہاں جان پاتے الیکٹرونک میڈیا کا فائدہ یہ ہے کہ ہم دنیا بھر کے لوگوں سے رابطہ قائم کرسکتے ہیں اور ہمارا ادب وسیع پیمانے پر پہونچ۔سکتا ہے
سوال: آپ ادب میں کس شخصیت سے متاثر ہیں؟
جواب : ادب میں مجھے سب سے زیادہ علامہ اقبال نے متاثر کیا۔
سوال : آخر میں تخلیق کاروں کے لیے کوئی اہم پیغام ؟
جواب : تخلیق کاروں کو میں کہنا چاہوں گی کہ أپ لکھتے رہیں ۔ حوصلہ رکھیں۔ کبھی نہ کبھی أپ کی تخلیقات کو دنیا سراہے گی ضرور۔
���
��

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں