مشاہیر ادب سے ایک نشست 94

مشاہیر ادب سے ایک نشست

ندائے ادب 12

 

مہمان :محترم خان حسنین عاقب
میزبان:افتخار الدین انجم

iftikharuddin467@gmail.com
+923108822467

قارئین،ہمارے آج کے صاحبِ مصاحبہ برصغیر کے معروف شاعر، ادیب و مترجم خان حسنین عاقب ہیں۔ عاقبؔ صاحب کا تعلق بھارت سے ہے۔ ان کی جائے ولادت بھارت کی ریاست مہاراشٹر کا مردم خیز اور مشہور شہر آکولہ ہے جہاں انہوں نے 8 جولائی 1971 کو آنکھیں کھولیں۔ ابتدائی تعلیم اپنے شہر ہی میں حاصل کی اور گریجویشن کے بعد اسی ریاست کے شہر پوسد میں ملازمت کے سلسلے میں مقیم ہوگئے جہاں وہ تاحال سکونت پذیر ہیں۔ دوران ملازمت انہوں نے اعلیٰ تعلیم کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے اردو، انگریزی اور تاریخ میں ایم۔اے کیا، ایم۔ایڈ اور ایم۔ایس۔ڈبلو یعنی ماسٹر اِن سوشل ورک کے علاوہ فرسٹ ڈویژن میں ایل۔ایل۔بی بھی کی۔ اب تک حسنین عاقبؔ کی بیس کتابیں شائع ہوچکی ہیں جن میں رمِ آہو (مجموعہ ئ غزلیات) خامہ سجدہ ریز(مجموعہ ء حمد و نعت) اقبال بہ چشمِ دل(اقبالیات) کم و بیش(ادبی تحقیق) ت سے تنقید(ادبی تنقید) آسماں کم ہے(بچوں کی کہانیاں) شامل ہیں۔ ان کے علاوہ حسنین عاقب نے درسیات اور فن تعلیم و تعلم میں بھی کئی کتابیں لکھی ہیں جن میں فن ترجمہ نگاری (گریجویشن) اردو تنقید (گریجویشن) جدید تعلیمی رجحانات (ڈی۔ایڈ) تعلیمی عمل اور سماج (ڈی۔ایڈ) پروفیشنسی ان انگلش(انگریزی: ڈی۔ ایڈ، حصہ اول و دوم) پیڈاگوجی آف ٹیچنگ انگلش (انگریزی: ڈی۔ایڈ؛ حصہ اول و دوم) شامل ہیں۔ میں ہوں نجود (ترجمہ) بھی ان کی اہم کتاب ہے جو بھارت کے علاوہ پاکستان سے بھی شائع ہوئی ہے۔ انہوں نے کئی کتابیں مرتب بھی کی ہیں جن میں شفیع الدین نیر کی نظمیں (ادب اطفال: کلیات) شفیع الدین نیر کی کہانیاں (ادب اطفال: کلیات) تین شاعر وغیرہ شامل ہیں۔حسنین عاقب اپنی مادری زبان اردو کے علاوہ انگریزی، ہندی، مراٹھی اور فارسی زبانوں سے واقف ہیں۔وہ ان زبانوں میں لکھتے بھی ہیں اور ترجمہ نگاری بھی کرتے ہیں۔ وہ ایک ماہر مترجم کی حیثیت سے بھی برصغیر میں معروف ہیں۔ وہ درسی کتابیں تیار کرنے والی ریاستی حکومت کی لسانی کمیٹی کے بھی رکن ہیں۔ایک ادیب و شاعر کے علاوہ حسنین عاقب ایک ماہر تعلیم کے طور پر بھی بین الاقوامی سطح کے ساتھ ساتھ ملک کے طول و عرض میں منعقد ہونے والے سیمینارز، کانفرنسوں اور ورکشاپس میں مدعو کئے جاتے ہیں۔
حسنین عاقب کے ادبی سفر کی سب سے اہم کامیابیوں میں دو نہایت نمایاں اور دنیائے ادب میں نہایت وقار اور قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ انہوں نے قرآنِ پاک کے تیسویں پارے کی تمام سورتوں کا انگریزی میں منظوم ترجمہ کیا ہے۔ دوسرا اہم کام یہ ہے کہ انہوں نے انگریزی میں نعت کے لیے prophiem کی اصطلاح وضع کی اور انگریزی میں prophiems لکھیں جو اپنی نوعیت کا اولین کام ہے۔ آئیے، ہم حسنین عاقب سے گفتگو کا آغاز کرتے ہیں۔
افتخار انجم:
حسنین عاقب صاحب، یہ بتائیے کہ آپ ادب کی طرف کب اور کیسے آئے؟ کس چیز نے آپ کو اس طرف ملتفت کیا؟
حسنین عاقب:
میرا ماننا یہ ہے کہ ادب محض تفنن طبع کا نام نہیں ہے بلکہ ادب اظہارِ ذات کا وسیلہ ہے۔ اور اپنی ذات کے اظہار کا وسیلہ بھی خدائے واحد کی ودیعت و عنایت ہے جو سب کو عطا نہیں ہوتی۔میرے ساتھ بھی یہی ہوا۔ میرے اپنے درونِ ذات ایک اضطراب کی کیفیت تھی جو باہر نکلنا چاہتی تھی، لوگوں تک رسائی حاصل کرنا چاہتی تھی۔ مجھے اپنی ذات کے اظہار کے وسیلے کی جستجو تھی جس کا مجھے علم نہیں تھا۔ ہوسکتا ہے یہ مصوری ہوتی لیکن میری ڈرائنگ ہمیشہ سے خراب رہی تھی؛ ہوسکتا ہے یہ وسیلہ موسیقی ہوتی لیکن مجھے اس کا سلیقہ نہیں تھا؛ ہوسکتا ہے یہ وسیلہ گلوکاری ہوتی لیکن میں آج بھی بے سُرا ہوں۔ تو آخر تان آکر ٹوٹی ادب پر۔ نوجوانی کے دور میں جسے عرف عام میں ٹین ایج کہاجاتا ہے، مجھے ادب نے عموماً اور شاعری نے خصوصاً اپنی جانب ملتفت کیا اور یوں میں آگیا ادب کی جانب۔ادب کی جانب اس التفات کا آغاز کہانیوں، ابن صفی، اردو، ہندی اور انگریزی کے ناولوں کے مطالعے سے ہوا۔ پھر ادب، مطالعے کے راستے سے ہوتا ہوا تخلیق کے درجے تک پہنچ گیا، تب جاکر مجھے لگا کہ یہی میری منزل تھی۔اور اب تین دہائیوں سے زیادہ عرصہ دشتِ ادب میں آوارہ گردی کرتے ہوئے آپ کے سامنے ہوں۔
افتخار انجم: ہم دیکھ رہے ہیں کہ اِن دنوں کتب بینی کا رجحان خطرناک حد تک کم ہوچکا ہے۔ اگر یہی سلسلہ رہا تو یقینا تخلیق کاروں کی تعدادمیں بھی کمی آجائے گی۔ اس رجحان کو کیسے کم کیا جائے؟
حسنین عاقب:
دیکھئے، کتاب بینی کے رجحان میں اس درجہ کمی بہت تشویش ناک ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ برصغیر میں ہم اردو والوں کی نئی نسل کی اکثریت سوشل میڈیا اور موبائل کی لت میں گرفتار ہے۔ مطالعہ کے ڈجیٹل ذرائع پائیدار نہیں ہوتے اور نہ ہی کتاب خوانی جیسی روایت کا متبادل ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈجیٹل ذرائع سے حاصل کردہ علم زیادہ دیر تک یاد بھی نہیں رہتا۔ مجموعی طور پر کہاجائے تو اب معیاری مطالعہ بھی نہیں رہا اور معیاری تخلیقات بھی کم ہی وجود میں آتی ہیں۔کتاب خوانی کے رجحان کے فروغ کے لیے ہمیں اجتماعی کوششیں جنگی پیمانے پر کرنی ہوں گی۔ ہمیں اس کے لیے سرپرستوں کے علاوہ تعلیمی اداروں میں بھی اس تعلق سے شعور، آگاہی اور بیداری پیدا کرنی ہوگی، تب کہیں جاکر اس کا تدارک کیا جاسکتا ہے۔
افتخار انجم: اردو ادب کے حوالے سے ہمارے قارئین کو بتائیے کہ آپ کن اصناف ادب میں کام کررہے ہیں۔
حسنین عاقب:
دیکھئے، میں جن ادبی اصناف میں کام کرتا ہوں وہ ایک نہیں، کئی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ تخلیقی اظہار اپنی صنف، زبان اور ہیئت کا انتخاب خود کرلیتا ہے، یہ کوئی میکانیکی عمل نہیں ہے۔ اگر کبھی مجھے لگتا ہے کہ میرے تخلیقی اظہار کے لیے فلاں صنف یا زبان مناسب یا موزوں نہیں ہے تو میں اس تخلیق کو اختیار دے دیتا ہوں کہ وہ جس صنف کے قالب میں چاہے، جلوہ گر ہوجائے، صنف کی کوئی قید نہیں۔ اس لئے میں شاعری میں غزل اور نظم کی اصناف میں تخلیقی کام انجام دیتا ہوں جب کہ نثر میں تحقیق، تنقید اور کسی حد تک ڈرامہ نگاری اور افسانہ نگاری میں کام کرتا ہوں۔ البتہ ترجمہ نگاری میں بہت کام کررکھا ہے ہنوز جاری ہے۔
افتخار انجم: آپ کی پسندیدہ صنف ادب کون سی ہے؟ اس پسند کی کیا وجہ ہے؟
حسنین عاقب:
میری پسندیدہ صنف ویسے تو غزل ہے لیکن میں نظمیں بھی اچھی کہتا ہوں۔ غزل کی پسندیدگی کی وجہ یہ ہے کہ اس صنف میں تخلیقی اظہار کے لیے طوالت و تفصیل کی قید نہیں ہوتی اور نہ ہی موضوع کی کوئی بندش۔ ایک شعر میں ایک مضمون سماجاتا ہے جب کہ دیگر اصناف میں یہ سہولت نہیں ہوتی۔ دوسرے یہ کہ غزل روایتی طور پر بھی اکثر شعراء کی محبوب صنف سخن رہی ہے، وہ میری بھی محبوب صنف ہے۔دوسرے یہ کہ مجھے لگتا ہے میری تخلیقی تجربہ پسندی کے لیے غزل نہایت موزوں صنف ہے۔ اس کا فیصلہ آپ میری غزلیہ شاعری پڑھ کر آسانی سے کرسکتے ہیں۔
افتخار انجم: آپ کی نظر میں اردو ادب کو اس وقت کن مسائل کا سامنا ہے اور ان مسائل کا کیا حل ہوسکتا ہے؟
حسنین عاقب:
اردو ادب ان دنوں جن مسائل سے بنردآزما ہے، وہ ایک یا دو نہیں ہیں بلکہ کئی ہیں۔ اگر میں ان مسائل کی فہرست بنانا چاہوں تو ایک مستقل مقالہ تیار ہوسکتا ہے۔ لیکن اجمالی طور پر کہوں تو ہمیں ان مسائل کو لے کر کسی حکومت سے حل طلب نہیں کرنا چاہیے بلکہ ہمیں سب سے پہلے اپنی ذات کے اندر ہی اس کا حل تلاش کرنا ہوگا ۔ مسائل تو بہت ہیں مثلاً اردو ادب میں معیار کا مسئلہ، ادب کو تجارتی منڈی بنالینا، ادب کا سیاسی حاشیہ بردار ہوجانا، ادب میں مخلص اساتذہ کا فقدان، زبان کے تئیں ادیبوں اور شعراء کا تغافل، ادب میں کسی شور شرابے کے بغیر خاموشی سے واقعی معیاری کام کرنے والے شعراء و ادبا نیز محققین کی ناقدری اور غیر معیاری لوگوں کی بے انتہا پذیرائی، گروہ بندیاں، چند شعراء و ادبا کی خودستایی وغیرہ ایسے مسائل ہیں جن سے ادب کو اور ہمارے آس پاس کے ادبی ماحول کو نقصان پہنچ رہا ہے ۔ یہی چند مسائل نہیں ہیں، اور بھی بہت سے مسائل ہیں جن پر سردست گفتگو کے لیے مزید وقت فارغ کرنا ہوگا ۔
افتخار انجم: اردو کی ترویج کے لیے ہم میں سے ہر شخص انفرادی طور پر کیا کردار ادا کرسکتا ہے؟
حسنین عاقب:
انفرادی طور پر ہمارے کرنے کے بہت سے کام ہیں۔ پہلا کام تو یہی ہے کہ ہم اردو بولیں تو درست اور صحت مند اردو بولیں اور لکھیں۔ دوسرے یہ کہ اپنی اولاد کو اردو پڑھائیں۔ تیسرے یہ کہ اپنے گھروں اور آس پاس اردو کا ماحول بنائیں۔ گھروں میں اور دوکانوں میں اردو اخبارات جاری کروائیں۔ معلمین، اساتذہ اور شعراء و ادباء لازمی طور پر اردو رسائل و جرائد کی خریداری کو خود پر لازم کرلیں۔سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر بھی اردو کی پیڈ استعمال کریں۔ اردو لکھنے کے لیے رومن رسم الخط کے استعمال سے تا حد امکان گریز کریں۔ایک بات کا خیال رکھیں کہ جس طرح ہم اپنی ماں کا موازنہ کسی دوسرے کی ماں سے نہیں کرسکتے اسی طرح اپنی مادری زبان کا موازنہ بھی کسی دوسری زبان سے نہ کریں کیونکہ ماں سے ہمارا رشتہ محبت اور عقیدت کاہوتا ہے نہ کہ کسی موازنے یا مسابقت کا۔ارد و کی ترویج کو ایک مقصد اور مشن بنالیں اور دیگر لوگوں کو بھی اس تعلق سے آگاہ کریں، ان میں یہ بیداری پیدا کریں تو انفرادی سطح پر یہ ہماری جانب سے اپنی مادری زبان کی ترویج و فروغ میں اہم پیش رفت ثابت ہوگی۔
افتخار انجم: انٹرنیٹ اور الکٹرانک میڈیا کے اس دور میں اردو خود کو کیسے پروان چڑھاسکتی ہے؟
حسنین عاقب:
آج کی دنیا، کارپوریٹ دنیا ہے۔ نفع اور نقصان پر اس کی بنیاد استوار ہے۔اس کے اصولوں میں پیشہ ورانہ تربیت اور رویے شامل ہیں۔ہمیں اردو کو بھی پیشہ ورانہ طور پر پروان چڑھانا ہوگا۔ خود انٹرنیٹ اور الکٹرانک میڈیا کے سینکڑوں پلیٹ فارمز ہیں جہاں اردو بحیثت ایک زبان کارپوریٹ دنیا کی ضرورت بن گئی ہے۔ اب آپ گوگل ٹرانسلیٹ جیسی ایپ کی ہی مثال لے لیجیے۔ دیگر زبانوں کی بہ نسبت گوگل کے ذریعے اردو کا بہت خراب ترجمہ ہوتا ہے کیونکہ گوگل کے پاس اردو کے لیے پیشہ ورانہ رویہ رکھنے والے رضاکار موجود نہیں ہیں۔ برصغیر کا ایک بڑا حصہ اردو بولنے والوں پر مشتمل ہے جس کی وجہ سے کارپوریٹ دنیا کے لئے اردو ایک ضرورت بن گئی ہے۔ بس، ایک آنچ کی کسر باقی ہے، وہ یہ کہ اردو والے ہرکارپوریٹ، کمرشیل اور ڈجیٹل پلیٹ فارم پر اردو کا تقاضا کریں، ویسے ہی جیسے دوسری زبانوں والے کرتے ہیں۔میں تو یہ کہوں گا کہ موجودہ ماحول اردو کے فروغ و ارتقاء کے لیے نہایت مناسب اور سازگار ہے، اردو والوں کواس کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ پھر وہ اردو والے پاکستان کے ہوں، بھارت کے ہوں یا ان کا تعلق اردو کی نوآبادیات سے ہو، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہمیں ہر جگہ اردو کے سامع، قاری اور صارف پیدا کرنے ہوں گے، تبھی اردو خود کو پروان چڑھاسکتی ہے۔ ورنہ اونٹ پر بیٹھ کر بکریاں نہیں چَرائی جاسکتیں اور نہ ہی گھوڑے سے یہ کہاجاسکتا ہے کہ ’جارے گھوڑے، ہریالی کھا۔‘ ہمیں بکریاں چَرانے کے لیے زمین پر اترنا ہوگا اور از خود بڑے اہتمام کے ساتھ گھوڑے کو ہریالی کھلانی ہوگی۔
افتخار انجم: آپ ادب میں کن شخصیات سے متاثر ہیں؟
حسنین عاقب:
ادب میں آپ مجھ سے اگر زبانوں کی تخصیص کے ساتھ سوال کرتے تو میں اپنے جواب کو چند زمروں میں تقسیم کرسکتا تھا۔ بہرحال، انگریزی ادب میں تو میں شیکسپئر، جان ڈن، ورڈس ورتھ، شیلے، براؤننگ، ایلیٹ، پوپ،میتھیو ارنالڈ، رابرٹ فراسٹ، سلویا پلاتھ، میری گلمور وغیرہ شامل ہیں۔ انگریزی نثر میں فرانسس بیکن، برنارڈ شا، چارلس ڈکنس، موپساں، چیخوف، ورجینیا وولف، وغیرہ سے متاثر رہا ہوں۔ اردو شاعری میں میر، مومن، غالب، مظہر جانِ جاناں،اقبال، داغ،سیماب، جگر، ساحر، انشاء، فراق گورکھپوری، ظفر گورکھپوری، زبیر رضوی وغیرہ شامل ہیں جب کہ اردو نثر میں پریم چند، منٹو، راجندر سنگھ بیدی، اشفاق احمد، ابن صفی، مشتاق احمد یوسفی، تنقید میں شمس الرحمن فاروقی، وارث علوی وغیرہ ہیں۔ فارسی میں بھی رومی، حافظ، سعدی کے بعد احمد شاملو، ہوشنگ ابتہاج، محمود کیانی، فروغ فرخزاد، قرۃالعین طاہرہ، پرتو نادری، سیمیں بہبہانی اور چند موجودہ فارسی شعراء سے متاثر رہا ہوں۔ بہرحال، جب تک انسان کا مطالعہ جاری رہتا ہے، وہ ہر اچھی چیز سے متاثر ہوتا ہے۔ میں کسی شخص سے محض اس کے نام یا شہرت کی وجہ سے متاثر نہیں ہوتا بلکہ اس کی تخلیقی وفور، وجدان اور طرزِ اظہار کی انفرادیت کی بنیاد میری پسندیا ناپسند کی وجہ ہوتی ہے۔ خیر، شاید آپ کے سوال سے میں انصاف کرپایا ہوں۔
افتخار انجم:
عاقبؔ صاحب، آپ نے تقدیسی ادب میں جو کارہای نمایاں انجام دئے ہیں،ہم چاہیں گے کہ آپ ان پر تفصیلی روشنی ڈالیں۔
حسنین عاقب:
جی، میں نے تقدیسی ادب میں جو کام کیا ہے، اس کو میں اپنا سرمایہ حیات سمجھتا ہوں۔ اول تو یہ کہ میں نے قرآن کریم کے تیسویں پارے کی تمام سورتوں کا انگریزی زبان میں منظوم ترجمہ کیا ہے جو دنیا بھر میں اپنی نوعیت کا واحد معلوم کام ہے۔ دوسرا کام نعت گوئی کے ذیل میں ہے۔ میں نے نعت کے لئے انگریزی میں اصطلاح وضع کی ہے جو دنیا ئے ادب میں اس سے پہلے موجود نہیں تھی۔ وہ اصطلاح ہے prophiem ۔ میں نے خود بھی انگریزی پروفیم تخلیق کی ہیں۔ میری وضع کردہ اصطلاح اور پروفیمز پر دنیا بھر میں ادبی مباحث ہورہے ہیں، ابھی یہ اصطلاح رد و قبول کی منزل سے گزررہی ہے۔ لیکن اشارے مل رہے ہیں کہ جلد ہی اسے انگریزی کی ایک صنف کی حیثیت حاصل ہوجائے گی۔، بس یہی اندوختہ ہے ہماری ادبی زندگی کاجس کے لیے ہماری دعا ہے کہ یہ ہماری اخروی نجات کا باعث بن جائے۔
افتخار انجم:آپ تخلیق کاروں کے لیے کوئی خوبصورت پیغام دینا چاہیں تو ہمیں خوشی ہوگی۔
حسنین عاقب:
دیکھئے، تخلیق کاروں کی سہل پسندی پر مجھے سخت اعتراض ہے۔ ادب میں، پھر چاہے نثری ہو یا شعری، سب کچھ کہہ دیا گیا ہے۔ آپ بتائیے کہ کون سا موضوع ایسا ہے جو ہم سے پہلے والوں نے نہیں برتا؟ پھر اب بعد میں آنے والے تخلیق کاروں کے لیے کیا کام رہ گیا؟ تو کم از کم نئے تخلیق کار اتنی محنت تو ضرور کریں کہ جو کچھ وہ لکھیں، اسلاف سے تھوڑا سا تو منفرد اور ہٹ کر ہو۔ ورنہ لکیر پر لکیر کھینچ کر خود کو میر و غالب دوراں سمجھنے والوں کو سمجھانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ صرف وقتی شہرت کے پیچھے اپنی تخلیقی توانائی ضائع نہ کریں۔ تخلیق کار اپنے تجربے کے ساتھ ساتھ مشاہدے کو بھی تیز اور یکسو کریں۔ جس بھی شعبہ ئ ادب میں کام کررہے ہوں، اس میں محنت کریں تو ان کا نام دیر اور دور تک قائم رہے گا۔
افتخار انجم:
بہت شکریہ جناب حسنین عاقب صاحب کہ آپ نے ہمارے قارئین کو اتنا قیمتی وقت دیا۔ ہم خواہش کریں گے کہ آئندہ بھی آپ ہمیں نت نئے موضوعات پراسی طرح سیر حاصل گفتگو کے لیے وقت عنایت کریں۔
حسنین عاقب: جی ضرور انشاء اللہ۔ خد ا حافظ
����

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں