انشائیہ۔۔۔ بس چار دن 70

انشائیہ۔۔۔ بس چار دن

ایس معشوق احمد
رابطہ :- 8493981240

صاحبو ادب میں چار دن کی بڑی اہمیت رہی ہے۔بعض شعراء نے تو چار دن کو پوری زندگی مانا ہے۔فراق گورکھپوری نے اسی لیے کہا ہے کہ
یہ مانا زندگی ہے چار دن کی
بہت ہوتے ہیں یارو چار دن بھی
شعراء کرام کے بعد جو مخلوق چار دن کام کرنے کے لیے مانگتی ہے وہ پبلشر کی ذات گرامی ہے۔مرزا کہتے ہیں کہ انسان کو جوانی میں تو دو ہی خوشی کے موقعے میسر آتے ہیں،دلہا بننا اور صاحب کتاب ہونا۔دلہا ماں باپ کی کوششوں سے بنتا ہے اور صاحب کتاب اسے پبلشر بناتا ہے ۔دلہا بننے کے لیے سالوں سال انتظار کرنا پڑتا ہے اور صاحب کتاب ہونے کے لیے پبلشر بس چار دن انتظار کراتا ہے۔ صاحبو ہم جب صاحب کتاب ہونے کا خواب دیکھ کر پبلشر کے پاس پہنچے تو اس نے اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے بس چار دن مانگے۔ باقاعدہ اور باضابطہ اقرار نامہ لکھا گیا۔مجال ہے جو پبلشر نے ہمارا حق مارا ہو۔اس نے تو بڑے قرینے سے کتاب کے جملہ حقوق ہمارے نام محفوظ رکھے۔آج کل کتاب کوئی نہیں خرید رہا اس لیے پبلشر نے دل پر پتھر رکھ کر کتاب کی آمدن اپنے نام لکھوائی اور ساتھ ہی ہمارے دستخط اس اقرار نامے پر لیے جس پر لکھا تھا کہ بس چار دن میں یہ کتاب منظر عام پر آجائے گی۔ چار دن یوں نکل جائیں گے اس احساس میں جی کر ہماری مسرت اور خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہا اور اس ملاقات کے بعد ہم خواب دیکھنے لگے کہ ہماری کتاب کی رسم رونمائی کی تقریب منعقد ہورہی ہے۔ہال کھچا کھچ بھرا ہوا ہے۔ایوان صدارت میں معروف ناقدین بیٹھے ہوئے ہیں جن کے سامنے ہماری تعریفوں کے پل باندھے جا رہے ہیں ۔ہمیں معتبر نقاد اور زبردست نثر نگار کے القاب دئیے جارہے ہیں اور آخر میں ہم خوش ہوکر سب کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔مبصرین کرام نے ہماری کتاب پر بہترین تبصرے کئے اور وہ اس کتاب کو شہکار سے کم ماننے کو تیار ہی نہیں ہے۔اگلے روز ہر اخبار کی زینت یہی خبر بنی ہے۔ دوست احباب مبارک باد دے رہے ہیں اور گلی گلی نگر نگر بس ہمارے ہی چرچے ہیں لیکن یہ سب خواب تھا۔اصل حقیقت یہ ہے کہ کتاب چھاپنے کے لیے ۔۔
پبلشر نے فقط مانگے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
آرزو تو یہ تھی کہ صاحب کتاب بن جاؤں لیکن پبلشر نے لمبا انتظار کرایا۔ انتظار کی گھڑیاں گن گن کر گزارنے کے بعد ہماری سمجھ میں آگیا کہ چار دن کے معنی کیا ہیں۔چار دن گزر گئے اور ہم نے ایک ماہ کے بعد جب پبلشر سے رابطہ کیا تو سلام علیک کے بعد اس نے آخر پر اتنا ہی کہا کہ ” بس چار دن میں کام ہوجائے گا” ۔ دو ماہ بعد پھر بات ہوئی تو پبلشر نے بس چار دن کا ہی وقت مانگا۔چھے ماہ بعد چار دن اور ایک سال بعد بھی اپنے زبان کا پاس رکھ کر اس نے بس چار دن ہی مانگے۔ہمیں احساس ہوگیا کہ پبلشر زبان کا دھنی ہے اور وہ اپنی بات پر قائم رہا ہے۔مجال ہے وہ اپنے قول سے مکر گیا ہو۔پہلی ملاقات میں بھی چار دن مانگے تھے اور ایک سال بعد بھی بس چار دن اور ہی مانگ رہا ہے۔ ظفر اقبال شاید پبلشر سے ہی مخاطب تھے ۔۔
جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفرؔ
آدمی کو صاحب کردار ہونا چاہیئے
مجھے تو صاحب کردار بس پبلشر نظر آتا ہے جو اپنی بات پر قائم رہتا ہے۔جو بات پہلے دن اس کی زبان مبارک سے نکلتی ہے ایک سال بعد بھی اس پر قائم رہتا ہے اور سالوں بیت جائیں تو بھی وہی بات دہراتا ہے۔
میرے خیال میں پبلشر کا دوسرا نام لپاڑیا ہونا چاہیے ۔ جھوٹ پبلشر کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی ہے وہ جب چاہیے اسے دوسروں کے کانوں تک آسانی سے پہنچا سکتا ہے۔ہر شخص کو صبح دعا کرنی چاہیے کہ بے غیرت لیڈر ، بے ضمیر ڈاکٹر اور پبلشر سے واسطہ نہ پڑے جائے۔ خدا ناخواستہ ان سے واسطہ پڑجائے تو انسان نہ زمین کا رہتا ہے نہ آسمان کا، بس جھوٹے وعدے ، حقیر دلاسے اور جھوٹی باتیں سننے کا عادی بن جاتا ہے۔ پبلشر نے آج تک کسی شاعر یا ادیب کو سچ نہیں بولا۔ جب پبلشر کی زبان مبارک سے سو قسمیں کھانے کے بعد نکل جائے کہ بس چار دن بعد آپ صاحب کتاب بن جائیں گے تو یقین کر لینا چاہیے دو تین سال میں یہ کارنامہ ضرور انجام پائے گا۔یوں تو سیاسی رہنماؤں کے وعدوں کا بھروسہ نہیں کرنا چاہیے لیکن وہ بھی بھی کبھار زبان کا پاس رکھ کر معجزہ انجام دیتے ہیں لیکن پبلشر کی زبان مبارک سے کبھی نہ سچی بات نکلتی ہے نہ وہ وعدہ جو پورا بھی ہو۔مرزا کہتے ہیں کہ پبلشر وہ مخلوق ہے جو اپنے فائدے کے لیے جھوٹ بولنے اور بد دیانتی کرنے کا ہنر لے کر پیدا ہوئی ہے۔
انسان ہو یا جانور ، چرندوں ،پرندوں کی بھی مختلف اقسام ہیں۔دیکھا جائے تو موٹے طور پر پبلشروں کی بھی دو قسمیں ہیں۔کارو باری پبلشر اور خدمت گاری پبلشر۔ کاروباری پبلشر ہر کام میں سب سے پہلے اپنا فائدہ دیکھتا ہے اور ہمہ وقت روتا رہتا ہے کہ میں جو کتابیں چھاپ رہا ہوں اپنے خرچے سے چھاپ رہا ہوں۔اس میں نفع تو نہیں البتہ میرا شوق ہے اس لیے میں یہ مفت کے کام کر رہا ہوں۔یہ ہر ادبی محفل میں حاضر ہوگا اور مگر مچھ کے آنسو بہا کر اپنے کاروبار کو ساتویں آسمان تک پہنچاننے کی سعی کر رہا ہوگا۔اس کی ایک اور عادت ہوگی کہ یہ متقی اور پرہیز گار ہونے کا دکھاوا کرے گا۔اس کی زبان سے کبھی سچ نہیں نکلے گا۔اس کا دوسرا نام جگاڈی ہونا چاہیے کہ یہ جگاڈ کرکے ہی اپنے کاروبار کو پھیلا رہا ہوتا ہے۔دوسری قسم خدمت گاری پبلشر کی ہے ۔یہ خاموشی سے ادب کی خدمت کررہا ہوگا اور بنا غرض کے اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہوگا۔ادب کا جو کام ہورہا ہے وہ ان کی بدولت ہی ہوتا ہے۔اگر یہ نہ ہوتے تو بہترین کتابیں اور عمدہ رسالے ہمارے ہاتھوں میں نہیں ہوتے۔
آجکل بس چار دن مانگنے والے پبلشروں کی تعداد زیادہ ہے۔مجھ سے جس پبلشر نے چار دن کا وقت مانگا تھا اب میں نے اس سے رابطہ کرنا یہ سوچ کر چھوڑ دیا ہےکہ جب اس کی زندگی کے چار دن ختم ہوں گے تو شاید میرا کام ہوجائے گا اور میری کتاب منظر عام پر آئے گی جس کا انتظار مجھے ہی نہیں میرے تمام دوستوں یہاں تک کہ اب دشمنوں کو بھی ہے۔ مرزا کہتے ہیں کہ پانچ سال کے بعد حکومت بدل جاتی ہے شاید پبلشر کے چار دن کی مدت بھی ختم ہوجائے۔ میں دعا کرتا ہوں اور ہوسکے تو آپ بھی دعا کیجیے کہ پبلشر کے چار دن مکمل ہوجائے اور پانچویں دن کا سورج طلوع ہوکر خوشیوں اور مسرتوں کا پیغام لے کر آئے۔اس سے پہلے کہ میں آپ سے اجازت لوں عرض یوں ہے کہ میں بے ایمان اور وعدہ خلاف پبلشروں کی رسوائی کے لیے ایک کتاب ترتیب دے رہا ہوں۔ اگر آپ بھی پبلشر کے ستائے ہوئے ہیں تو مجھے سے بس چار دن میں رابطہ کر لیجیے۔ ہوسکتا کتاب کو ترتیب دے کر آپ کا کام بس چار دن میں ہوجائے۔
�����
����������

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں