تبصرہ نگار : پروفیسر فلک ناز نور
میں وہ خوش نصیب بیٹی ہوں جس نے ایک علم دوست اور کتاب دوست گھرانے میں آنکھ کھولی۔ میرے والد مطالعے کے بہت رسیا تھے۔ دینی، قانونی، سماجی اور تاریخ اورانجنئیرنگ کے بارے میں ان کے پاس انگریزی اور اردو زبان کی کتب کا وافر ذخیرہ موجود تھا۔ اس کے علاوہ وہ میرے بچپن کے دنوں میں کورس کی بکس کے ساتھ ساتھ پیاری پیاری کہانیوں کی کتابیں بھی لایا کرتے تھے جن کو چھوتے اور پڑھتے عجیب خوشی اور سرشاری ملتی تھی۔ یہ سطور لکھتے ہوئے میں بھی بچپن کی یادوں میں گم ہوں۔ میرے سامنے ایک انتہائی دل کش اور ننھی منی سی کتاب ہے ۔ جس کے سر ورق پر “سارے دوست ہیں پیارے” اور قانتہ رابعہ صا حبہ کے نام جگمگا رہے ہیں-
یہ کتاب پڑھتے ہوئے مجھے بھی اپنے بچپن کے دوست ۔۔۔۔۔۔اور پیاری پیاری ہم جولیاں یعنی وہ چھوٹی چھوٹی کتابیں یاد آئیں۔ بہت عرصے کے بعد میرے ہاتھ میں ایک ایسی کتاب آئی ہے جو آرٹ پیپر پر چھپی ہے۔ کتاب کو دیکھ کر انگریزی کی لیڈی برڈ بکس سیریز کا گماں ہوتا ہے۔ تدریس کے دوران میرا تجربہ ہے کہ بچوں کی کتابوں اور رسالوں کےکور بعض اوقات پھٹ جاتے ہیں اور کتاب یا رسالے کی عمر گھٹ جاتی لیکن اس نئی کتاب کی خوبی یہ ہےکہ اس کو مضبوط جلد کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔ میرے نزدیک اس کی وجہ کتاب کے آخر میں دی گئی عملی سرگرمیاں ہو سکتی ہیں۔ کیونکہ کتاب کے آخر میں دی گئی ان مشقوں کا مقصد کتاب پڑھنے والے بچوں کی تربیت کرنا اور زندگی کے بارے میں اہم موضوعات پر معلومات کو دلچسپ اور کہانی کے انداز میں پیش کرنا ہے۔ یہ مشقیں بچوںکی ذہانت ، ان کے ذخیرہ الفاظ میں اضافے اور اسلامی تصورات اور آداب زندگی سے روشناس کرانے میں ممد و معاون ثابت ہوں گی۔ یہ کتاب کورس کی کتابوں کی طرح بہت سالوں تک استعمال کی جاسکتی ہے۔
کتاب کے شروع میں صدیق شاذ صاحب کی لکھی ہوئی ایک خوب صورت حمدیہ نظم شامل ہے۔ کتاب کی مدیرہ قرات العین عینی نے یہ بتا یا ہے کہ اس کتاب میں شامل کہانیاں فیس بک اور یو ٹیوب پر بھی دستیاب ہیں۔ مدیرہ کے سادہ اور رواں انداز میں لکھے الفاظ بہت متاثر کن ہیںجس میں انھوں نے نئی چیزوں کا حوالہ دیتے ہوئے یہ یاد دہانی کرائی ہے کہ کتابیں ہمارے ورثہ ہیں جن کو ہم نے سنبھا ل کر رکھنا ہے :
“وقت کے ساتھ نئی نئی چیزیں آتی ہیں لیکن ہم پرانی چیزوں کو بھول نہیں جاتے کیونکہ وہ ہمارے ماضی کو مضبوط کرتے ہوئے ایک روشن مستقبل کی بنیاد رکھتی ہیں۔ کتاب بھی ایک سرمایہ ہے اس کو کھونے مت دینا۔ ”
“آپا کی باتیں “کے عنوان سے محترمہ قانتہ رابعہ نے سادہ لفظوں میں فون اور کمپیوٹر کے غیر ضروری استعمال کو بچوں کے لیے نقصان دہ قرار دیتے ہوئے یہ بیان کیا ہے کہ ڈاکٹر اس سے بچوں کو منع کرتے ہیں لیکن کوئی ڈاکٹر کتاب پڑھنے سے بچوں کو نہیں روکتا۔
میرے نزدیک یہی اس کتاب کا خاص مقصد ہے کہ بچوں کو موبائل کے غیر ضروری استعمال سے روکا جائے اور ان میں کتب پڑھنے اور مطالعے جیسی سود مند اور مثبت عادات کو فروغ دیا جائے۔ کتاب میں مختلف موضوعات پر پانچ کہانیاں شامل ہیں جن کا مقصد بچوں میں اچھے آداب اور عادات پیدا کرنا ہے۔
ویسے تو کتاب کی سب ہی کہانیاں بہت دلچسپ، خوب صورت اور دل کو بھانے والی تصویروں پر مبنی ہیں لیکن مجھے ذاتی طور پرکہانی “ہیلی کاپٹر” بہت متاثر کن لگی کیونکہ
اس میں صر ف بچوں ہی کے لیے ہی نہیں بلکہ بڑوں کے لیے بھی بہت بڑا سبق ہے وہ اہم سبق کیا ہےَ؟۔ اس کے لیے آ پ کو کتاب کی ورق گردانی اور مطالعہ کرنا ہو گا۔
اس کتاب میں شامل دیگر دلچسپ کہانیوں کا ذکر میں نے دانستہ طور پر نہیں کیا ہے کیونکہ اس کا اصل مزہ کتاب پڑھنے میں ہی ملتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ
“سارے دوست ہیں پیارے “پڑھتے ہوئے آ پ بھی میری طرح بچپن کی یادوں میں کھو جائیں گے۔
آخر میں اپنی خوب صورت کتاب سے میرے بچپن کی سیر کرانے پرمحترمہ قانتہ رابعہ کا بہت شکریہ۔ سلامت رہیں اور اسی طرح اپنے قلم سے لفظوں کے موتی پروتی رہیں۔ پریس فار پیس کی ٹیم کو بھی ایک اور خوب صورت کتاب کی عالمی معیار کی اشاعت مبارک ہو۔
81