ربیعہ سلیم
عجیب وقت آگیا ہے ۔بچے کہنے سننے کا موقع ہی نہیں دیتے ۔
بس فیصلہ سناتے ہیں ۔اور ہم یہ سوچ کر سن لیتے ہیں کہ ڈیجئٹل جنریشن ہے ۔
کبھی کبھی تو لگنے لگتا ہے ۔۔۔۔جیسے انہوں نے پیدا ہوکر ہم پہ کوئی احسان کیا ہے ۔
طاہر نے آفس جانا تھا تو کم ازکم مجھے گرو سری کیلئے ساتھ تو نہ لاتا ؟
اب یوں اکیلی کو اسٹور پہ چھوڑ کر دفتر سے فون کردیا ہے کہ
“کریم لیکر گھر چلی جائیں “۔
اتنے سارے سامان کے ساتھ ٹیکسی میں گھر جانے کے تصور سے ہی ہولا گئی ہوں ۔
اسٹور والوں کا لڑکا سامان فٹ پاتھ پہ رکھ کے وہیں کھڑا تھا ۔اسے کہا۔
“بیٹا ۔مجھے رضا بلاک کیلئے کریم منگوادے ”
موبائل اس کی طرف بڑھایا تو اس نے اندر سے دوسرے کو آواز دی ۔اس نے آکر کریم بک کی
“دس منٹ لگیں گے ،منصور نام ہے ۔گرےکلٹس ہے، نمبر 1185 ہے “اتنا کہہ کر اس نے موبائل مجھے دیدیا ۔
۔پرس کھول کر اسے پچاس کا نوٹ دیا ۔وہ چلاگیا تو کتنی دیر تک اسکرین کو بلاوجہ دیکھتی رہی ۔
منصور۔۔۔۔!
دل دھک سے رہ گیا ۔
عینک کے بغیر تصویر کو غور سے دیکھا ۔دھندلا سا،سفید داڑھی والا مولوی تھا ۔
منصور
کتنا اچھا لگتا تھا ۔جب وہ کہتا تھا
” بانو،جب میں موٹر سائکل لوں گا تو بارش میں نہر کے کنارے کنارے مغلپورے سے ٹھوکر تک جایا کریں گے “۔
تم میرے کان میں باتیں کرنا “۔
میں کھلکھلا کر ہنس دی۔
“پیچھے بیٹھ کر باتیں کرتے اگر میں نے تمہارے کان پہ کاٹ لیا تو “؟
وہ بھی ہنس دیا ۔
“آنٹی ۔اگر گاڑی میں دیر ہے تو سامان دروازے سے پرے کردوں۔بارش آنے والی ہے ”
سامان رکھنے والے لڑکے نے کہا تو میں چونک اٹھی
دھندلی موبائل اسکرین کو دوبارہ دیکھا ۔
خود ہی اندازہ لگایا،شاید پانچ منٹ ہوگئے ہوں ۔۔لڑکے میرے جواب کا انتظار کئے بغیر سارا راشن ایک طرف کرکے راستہ صاف کیا ۔
واقعی بارش کے آثار بن رہے تھے،
“اللہ کرے ٹیکسی والا جلدی آجائے ”
کھڑی کھڑی بائیں ٹانگ اکڑنے لگی تھی ۔آنے والا بڑھاپا،ابھی سے سیاپہ لگنے لگا تھا ۔
اللہ بھلا کرے سٹور کے گارڈ نے کرسی خالی کردی،کرسی پہ بیٹھ کر یوں لگا جیسے گھنٹوں چل کر آئی ہوں ۔اسکیورٹی گارڈ تھوڑا پیچھے ہٹ کر کھڑا ہوگیا۔
“جانے منصور کہاں رہ گیا “؟
موبائل کی اسکرین کو دیکھا تو وہی دھندلاہٹ تھی ۔مجھے عینک پرس میں رکھنی چاہئے تھی ۔
منصور نے ایک بار کہا تھا۔
“تمہاری آنکھیں بہت خوبصورت ہیں ۔بلی کی طرح چمکتی ہیں “۔
“جھوٹا ”
اس رات چھت پہ کتنا اندھیرا تھا،اور وہ آنکھوں میں دیکھ بھی تو نہیں رہا تھا ۔
میں آپ ہی آپ مسکرادی ۔
گرے کلٹس بالکل۔اسٹور کے سامنے رکی ۔مولوی ٹائپ ڈرائیور گاڑی سے باہر نہیں نکلا ۔میں اٹھی تو اسکیورٹی گارڈ نے آگے بڑھ کر سامان گاڑی کی اگلی اور پچھلی سیٹوں پہ رکھ دیا ۔میں نے پرس میں سے پچاس کا نوٹ نکالا اور پیچھے بیٹھنے سے پہلے اسے پکڑا دیا ۔
گاڑی چل پڑی تو جیسے سکون آگیا ۔شکر ہے بارش میں نہیں بھیگی ۔
منصور کو بھیگنا کتنا اچھا لگتا تھا ۔
کبھی رات کو بارش ہوتی تو وہ بنا کہے چھت پہ آجاتا ۔۔۔مجھے پتہ ہوتا تھا کہ وہ ضرور وہاں ہوگا ۔
اس کے بعدبارش کبھی اچھی نہیں لگی ۔
کبھی بھیگی ہی نہیں ۔بچوں میں الجھ کر سارے شوق انہی سے جڑ جاتے ہیں ۔اپنا آپ یاد ہی نہیں رہتا ۔
اچانک بارش شروع ہوگئی ۔گاڑی کی چھت پہ جلترنگ بجنے لگا ۔
میں نے سیٹ سے ٹیک لگائی ہی تھی کہ بلاک آگیا ۔
“یہاں سے دائیں ہوجانا “میں نے بھیگتے شیشے سے اندازہ لگا کے کہا ۔شکر ہے ٹھیک نکلا ۔ابھی اتنی بھی اندھی نہیں ہوئی ۔یا شاید دور کی نظر ابھی ٹھیک ہے ۔
“وہاں آگے براؤن گیٹ کے ساتھ جوڑ کر ”
بارش اب بھی ہورہی تھی،اب بھیگنا پڑے گا ۔
میں نے جلدی سے اتر کر گیٹ بجایا ۔سکینہ کے آنے تک میں بھیگ گئی ۔۔میں سامان نکالتی ،سکینہ بھاگ کر اندر رکھتی رہی ۔ڈرائیور فرنٹ سیٹ والا سامان بھی پچھلی سیٹ پہ رکھتا گیا ۔
سکینہ آخری پھیرا بھی لے گئی تو میں نے پیسے پوچھے ۔
“رہنے دو ۔لبنی ۔برسوں بعد تمہیں بھیگتے ہوئے دیکھا ہے ”
اتنا کہہ کر منصور چلا گیا۔
۔میں سکتے میں کھڑی گرے کلٹس کو جاتے دیکھ کر بھیگتی رہی ۔۔۔۔
���