وقت کے ساتھ چلا توُ بھی نہیں میں بھی نہیں 54

وقت کے ساتھ چلا توُ بھی نہیں میں بھی نہیں

غـــــزل

منظر زیدی

 

وقت کے ساتھ چلا توُ بھی نہیں میں بھی نہیں
سب کی آنکھوں کی ضیا توُ بھی نہیں میں بھی نہیں
بے وفا کیسے کہیں سارے زمانے کو بھلا
جبکہ پابندِوفا توُبھی نہیں میں بھی نہیں
اُس نے یہ سوچ کے اب چھوڑ دیا قسمیں کھانا
اپنے وعدے پہ رہا توُ بھی نہیں میں بھی نہیں
ہے اسی واسطے ہر سمت اجالے کی کرن
جل گیا جل کے بجھا توُ بھی نہیں میں بھی نہیں
کیوں سبھی مانگنے آتے ہیں محبت کی مراد
پیار کا جبکہ خدا توُ بھی نہیں میں نہیں
چل تو دئے کھوج میں ہم آج انا کی منظرؔ
جانتا اسُکا پتہ توُ بھی نہیں میں بھی نہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں