شبِ وحشت 65

شبِ وحشت

ولر اردو ادبی فورم کشمیر افسانہ ایونٹ ۔۔۔۔۔۔۔2022

اصغر شمیم۔۔۔۔کولکاتہ۔۔۔بینر:۔ عمران یوسف

قسطہ:.29

 

جب میری نیند کھلی تو میں نے خود کو ایک وسیع قبرستان میں پایا۔ شاید یہ وہی قبرستان ہے جہاں میں اکثر آیا کرتا تھا۔ لیکن یہاں اس سے پہلے کبھی اتنی قبریں نہیں تھیں جتنی مجھے آج دکھائی دے رہی ہیں۔ قبرستان اتنا بڑا ہے کہ دور دور تک اس کی باؤنڈری بھی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ اس سے پہلے یہاں اتنی روشنی کا انتظام بھی نہیں تھا ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے پورا قبرستان ہی روشنی میں ڈوبا ہوا ہے۔ میں نے خود سے سوال کیا۔۔”میں اتنی رات میں یہاں کیسے آیا اور کتنی دیر سے یہاں سویا ہوا ہوں۔۔“ پاس میں کوئی گھڑی اور موبائل بھی نہیں ہے جس سے میں وقت کا تعین کر سکوں۔ میرے علاوہ اس وقت قبرستان میں کوئی نہیں ہے پورا قبرستان خالی ہے۔ اس سے پہلے تو یہاں دیر رات تک فاتحہ پڑھنے والوں کی بھیڑ لگی رہتی تھی کیونکہ یہ قبرستان شہر کے بیچوں بیچ واقع ہے۔ لگتا ہے رات کافی ہو چکی ہے مجھے بھی گھر کے لئے نکلنا چاہییے۔۔”لیکن میرا گھر کہاں ہے مجھے یاد کیوں نہیں آ رہا ہے؟ یا میں اپنے گھر کا پتہ بھول گیا ہوں۔“ باہر نکل کر دیکھتا ہوں شاید کوئی مل جائے قبرستان کے باہر بالکل سناٹا ہے۔قبرستان کے ٹھیک سامنے ایک بڑی سی مٹھائی کی دکان ہے۔میٹھائی کی دکان کھلی ہوئی ہے اور دکان میں میٹھائیاں بھی بڑی قرینے سے سجی ہوئی ہیں مگر اس وقت دکان میں کوئی موجود نہیں ہے اس دکان میں تو ہمہ وقت بھیڑ لگی رہتی تھی ”پھر آج اتنا سناٹا کیوں ہے“ میں نے خود سے سوال کیا اور دکان سے باہر نکل آیا۔ سڑک بالکل سنسان ہے۔ دور دور تک کسی کی پرچھائی بھی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ جگہ جگہ گاڑیا ں ضرور کھڑی ہیں مگر ان گاڑیوں میں کوئی موجود نہیں ہے۔ مجھے پیدل ہی اپنے گھر کی تلا ش میں نکلنا ہوگا یہ سوچتے ہوئے میں آگے بڑھتا چلا گیا۔ مجھے یاد ہے کہ یہاں سے تھوڑی دور پر ایک ٹرافک سگنل کے بعد بڑا سا مال (MALL) ہے۔میں وہی چلتا ہوں شاید وہاں کچھ لوگوں سے ملاقات ہو جائے۔ آج ٹرافک بالکل خالی ہے البتہ ٹرافک کی بتیاں خود بخود ریڈاور گرین ہو رہی ہیں۔ میں دھیرے دھیرے آگے بڑھتا جاتا ہوں۔ دور سے ہی مال کی روشنی دکھائی دی تو دل کو اطمینان ہوا کہ مال ابھی تک کھلا ہوا ہے یعنی وہاں لوگو کی بھیڑ ضرور ہوگی۔ سنسان راستوں پر چلتے ہوئے صرف مجھے اپنے قدموں کی آہٹ سنائی دیتی رہی اور میں خوفزدہ مال کی طرف بڑھتا گیا۔۔مال کا دروازہ کھلا ہوا ہے مگراس وقت وہاں کوئی سیکوریٹی گارڈ موجود نہیں ہے۔ اسکلیٹر اوپر نیچے تو ضرور ہو رہا ہے مگر اس پر کسی کے قدم نہیں
دکھائی دے رہے ہیں۔ مال کے اندر کی ساری دکانیں کھلی ہوئی ہیں۔جیسا ہمیشہ کھلی رہتی ہیں۔ دکانوں میں کپڑے اور کھلونے بھی قرینے سے سجے ہوئے ہیں مگر اس کو بیچنے اور خریدنے والے لوگ موجود نہیں ہیں۔میں لفٹ کے سہارے اوپر آخری منزل تک جاتا ہوں وہاں بھی ویسا ہی سناٹا ہے البتہ وہاں کھانے پینے کی ساری چیزیں موجود ہیں پھر میں اسکلیٹر کے سہارے نیچے آ جاتا ہوں۔میں پورا مال گھوم آیا کہیں کوئی نظر نہیں آیا۔۔ دھیرے دھیرے اپنے تھکے ہوئے قدموں سے میں مال سے باہر آ گیا۔۔ پتہ نہیں کتنا وقت ہو رہا ہے آس پاس کوئی کلاک ٹاور بھی نہیں ہے مال میں بھی کوئی گھڑی دکھائی نہیں دی کہ جس سے مجھے وقت کا اندازہ ہو پاتا۔ ایک ٹاورتویہاں ضرور ہے مگر وہ بھی قبرستان سے دائیں طرف کافی دوری پر ہے۔ مجھے یاد آیا کہ مال سے کچھ دوری پر ایک بڑا سا ٹرافک سگنل ہے جہاں ایک میٹرو اسٹیشن بھی ہے اور وہیں سے مسلمانوں کی بستی بھی شروع ہوتی ہے۔ اس مسلم بستی میں ضرور لوگوں کی بھیڑ ہوگی اورشاید اسی بستی میں میرا گھر بھی ہو۔۔یہ ایسی بستی ہے جہاں انسان انسانوں کے اوپر چلتا ہوادکھائی دیتا ہے۔ جیسے ہی سگنل پر پہنچتا ہوں سامنے میٹرو اسٹیشن دکھائی دیتا ہے میٹرو اسٹیشن کھلا ہے یا بنداندر جانے پر ہی پتہ چلے گا۔۔البتہ فٹ پاتھ پرکی ساری دکانیں کھلی ہوئی ہیں۔ میں دھیرے دھیرے مسلم بستی کی طرف بڑھنا شروع کر دیتا ہوں۔یہاں عام دنوں میں پیدل چلنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ فٹ پاتھ پر دکانیں دیکھنے لائق ہوتی ہیں۔ خریدار سے زیادہ دکاندار نظر آتے ہیں کم دام سے لے کر زیادہ داموں تک کی چیزیں یہاں آسانی سے مل جاتی ہیں۔ کھانے پینے کی چیزیں یہاں اتنی ملتی ہیں کہ آپ کوکچھ بھی گھر سے کھا کر آنے کی کوئی ضرور ت نہیں ہے۔۔آج بھی دکانیں ہمیشہ کی طرح ویسی ہی کھلی ہوئی ہیں۔ مگر انسانوں کی بھیڑ نہیں ہے۔ بستی میں مجھے ایسا کوئی نہیں ملا جس ے میں اپنے گھر کا پتہ پوچھ سکوں یا وہ مجھے پہچان سکے۔ میں بے چینی سے بستی میں اِدھر اُدھر گھومنے لگتا ہوں۔ہر طرف سناٹا پھیلا ہوا ہے ایسا لگتا ہے کہ جیسے میں کسی موت کے شہر میں آ گیا ہوں۔عجیب سے بے چینی کا احساس ہونے لگتا ہے اور دم گھٹنے لگتا ہے۔دل چاہتا ہے کہ میں جلد از جلد اس بستی سے کہیں دور نکل جاؤں۔۔میں بے تحاشا جس طرف سے آیا تھا اسی طرف بھاگنا شروع کر دیتا ہوں۔میری سانسیں پھولنے لگتی ہیں راستے میں کوئی سواری بھی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔۔بھاگتے بھاگتے میں کب اسی قبرستان میں پہنچ جاتا ہوں مجھے اس کا ذرا بھی احساس نہیں ہوتا۔۔قبرستان پہنچ کر میں خود کو ہلکا پھلکا اور پُر سکون محسوس کرنے لگتا ہوں۔۔پھر میں دھیرے دھیرے کب نیند کی آغو ش میں چلا جاتا ہوں پتہ ہی نہیں چلتا ہے۔۔۔۔!!!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں