ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی
آج میرے کلینک میں جو پہلا مریض آیا ۔ وہ ایک عورت تھی اوراس کے ہمراہ اس کا شوہر تھا۔ عورت کے سڈول جسم اور خدو خال کے آثار سے معلوم ہوتاتھا کہ یہ عورت اپنے زمانے میں حسن وجمال کا مرقع رہی ہوگی ۔ لیکن بیماری نے اسے اب موسم خزاں کے ایک زرد پھول کی طرح پژمردہ بنا دیا تھا ۔ اوراس کے ہونٹوں کے فسردہ انگاروں پر اب یاس وحسرت اور شکست آرزو کے المیہ کی دھندلی تحریر تھی۔
میں نے کرسی پر اپنی جگہ سنبھالتے ہوئے اور دونوں کی طرف نظر ڈالتے ہوئے بیماری کی وجہ پوچھی۔ عورت اپنا سر تھامے ہوئے دردمیں مبتلا تھی اور کچھ کہتے ہوئے بھی کچھ نہ کہہ پائی ۔ اس کا شوہر میرے قریب آکر حسارت بھرے الفاظ میں بولا ۔
ڈاکٹر صاحب! اس کی بیماری کا کوئی پتہ نہیں چلتا ۔ یہ بیماری نہیں عذاب ہے۔ دوائیاں کھا کھا کر اب یہ اتنا تنگ آگئی ہے کہ اب علاج کرنا بھی نہیں مانتی ہے ۔ خدا کے لئے اسے کسی طرح ٹھیک کردیجئے ۔ ہم ساری عمر آپ کے نوکر ہوکر رہیں گے۔ ہمارے پاس جو کچھ بھی پیسہ پائی تھا ختم ہوگیا ۔ اور ہماری حالت اب اس قدر ……گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ میں نے بات کاٹتے ہوئے ۔ عورت کو اپنے سامنے رکھے ہوئے میز پر ملاحظہ کرنے کی خاطر لیٹ جانے کا اشارہ کیا۔عورت کا غریب شوہر ندامت بھری آنکھوں سے میرا منہ تکتا رہا ۔ اس کے جسم کا لباس جگہ جگہ سے پھٹا ہوا تھا۔ اوراس کی غربت اورمفلوک الحالی کی حالت کو سمجھاجاسکتا تھا ۔ اپنی دو معصوم بچوں کا تصور اور بیوی کی بگڑتی ہوئی صحت کا سوال اس کے ذہن کو ایک نگ کی طرح ڈستا جارہاتھا اور اُسے لگ رہاتھا کہ جیسے اس کا جسم دریائے چناب کی موجوں میں ایک بے جان شہتیر کی طرح بھٹکتا ہوانظر آرہا تھا۔
وہ علاج کرانے کی خاطر جگہ جگہ کی ٹھوکریں کھاچکے تھے اورجس وقت اس نے یہ بات بتائی کہ جموں کے ڈاکٹروں نے انہیں چندی گڑھ جا کربجلی لگوانے کا مشورہ دیا تھا ۔ تو میں چونک پڑا ۔
میں نے مریضہ کا معائینہ کرنا شروع کیا اور اس نے اپنی کہانی اس طرح سے شروع کی…… جناب دو سال کی بات ہے …… اب ڈاکٹروں نے چنڈی گڑھ جانے کا مشورہ دیا ، لیکن ہمارے پاس جو بھی پیسہ پائی تھا ختم ہوگیا ۔اور میں نے اپنے خاوند کو مجبور کیا کہ ہم گھر لوٹ آئیں ۔ تاکہ میں مرنے سے پہلے پہلے اپنی دو معصوم بچیوں کا منہ دیکھ سکوں۔ پریم نگر پہنچ کر کسی نے آپ کے پاس آنے کا مشورہ دیا ۔ اور ہم دوڑتے بھاگتے آگئے ۔ اس حالت میں زندہ رہنے سے میرے لئے مرنا بہتر ہے ۔ لیکن اپنی دوغریب اورمعصوم بچیوں کی یتیمی کے خیال سے میں اس درد کی حالت میں بھی کچھ اور دن زندہ رہنا چاہتی ہوں۔
خدا کے لئے مجھے اس عذاب سے بچائیں ۔ میری ان معصوم بچیوں پر رحم کریں۔
’’گھبرانے کی ذرا بھی بات نہیں‘‘میں نے تسلی دیتے ہوئے عورت سے کہا’’دراصل جو بیماری جموں کے ڈاکٹروں نے سمجھ رکھی ہے ۔ وہ درست نہیں ہے ۔ آپ ایک ماہ تک علاج کروائیں ۔ بیماری بالکل ٹھیک ہوجائے گی۔یہ کوئی بڑی تکلیف تو نہیں ہے ۔
البتہ آپ کا صحیح علاج نہیں ہواہے ۔ عورت کے بچھے ہوئے ہونٹوں پر مریل سی مسکراہٹ پھسل گئی۔ اور لمحہ بھر کے لئے اس کی آنکھوں میں اطمینان کی چمک لرزتی رہی۔
دونوں میاں بیوی منت سماجت کرنے لگے ۔
ڈاکٹر صاحب ہم غریب لوگ ہیں لیکن ہم آپ کی منہ مانگی خدمت کریں گے اور ساری عمر آپ کا احسان نہیں بھولیں گے
آپ کا نام کیاہے ؟ میں نے ملاحظہ کرنے کے بعد مریضہ سے پوچھا۔
سمینہ! اس نے جواب دیا
نام سنتے ہی میرے ذہن کو ایک نامعلوم سے جھٹکا لگا قلم گویا رک گیا اورمجھے اپنا سارا وجود غیر شعوری طور پر تنہائیوں میں بھٹکتا ہوا محسوس ہونے لگا ۔
میرا نام سمینہ ہے ۔ عورت نے میری بدلتی ہوئی کیفیت دیکھ کر پھرسے دہرایا ۔ اورمجھے اپنی کوئی شخصیت کا احساس دلانے لگی۔’’ٹھیک ہے‘‘ میں نے کہا
نہیں ڈاکٹر صاحب! سچ بتائیے کیا میں ٹھیک نہیں ہوسکتی ہوں؟ مریضہ نے اپنی بیماری کے بارے میں مشکوک لہجہ میں کہا ۔
آپ کو بیماری کیوں اتنی پسند ہے۔ میں نے جو آپ کو کہہ دیا کہ تھوڑی دیر علاج کرنے کے بعد ہی آپ بالکل تندرست ہوجائیں گی
ڈاکٹر صاحب تو پھر آپ کیوں خاموش ہوگئے تھے
دراصل بات یہ ہے کہ میر بیوی کانام بھی سمینہ تھا ۔
’’ہاں ‘‘تو اس نے کہا
لیکن وہ اب اس دنیا میں نہیں ہے۔
مختصر سی علالت کے بعد وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئی ۔ اس کے ساتھ ہی میں نے ایک لمبی آہ بھر کرنسخہ لکھ کر ان کے حوالے کیا اور وہ دونوں مطمئن ہوکررخصت ہوگئے ۔
عورت کو تسلی دینے کی غرض سے میں نے اسے اپنی بیوی کی جھوٹی موت کا ذکر کیا تھا۔ دراصل عورت کی زبانی بجلی لگوانے کانام سن کر میں پہلے ہی بیماری کی تشخیص سمجھ گیا تھا ۔ لیکن اسے تسلی دینے کے لئے میں نے اُسے یونہی ملاحظہ کیا۔ عورت واقعی کینسر کی بیماری میں مبتلا تھی اور تقریباً ایک ماہ کی مہمان ۔ علاج کرنا اب صرف ان غریبوں کو قرض میں مبتلا کرنے کے برابر تھا ۔ انہیں تسلی دینے کی ضرورت باقی رہ گئی تھی اور میں نے سادہ سا نسخہ لکھ کر انہیں مطمئن کیا ۔
عورت کے چلے جانے کے بعد میں نے کمرے کا دروازہ بند کیا ور بھاری دل وجگر کو لئے کرسی پر بیٹھ گیا ۔
میں نے جیب سے قلم نکال کر اپنی بیوی سلیمہ کے نام خط لکھ کر اُسے اپنے پاس جلدی پہنچنے کو کہا۔
ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی
موبائل:8825051001