73

افسانہ …….چسکا

راجہ یوسف

’’ میں تم سے بہت پیار کرتی ہوں ۔ کاش تم بھی ایک بار دل سے اقرار کرتے۔؟‘‘
ـ’’ کرتا ہوں نا۔ تم کیوں نہیں سمجھتی۔ !‘‘
’’ کیسے سمجھوں، جب بھی تیرے قریب آنا چاہتی ہوں۔ تم ہزاروں میل دور بھاگ جاتے ہو، کہیں دور نیل گگن میں گُم ہوجاتے ہو۔ مجھے تنہا ، تڑپتا ، جذبات کے سمندر میں دفن کرکے خود کہیں دور ایک تماشائی بن کے بیٹھ جاتے ہو۔ اب آئو نا۔ میرے قریب ۔۔۔آئو نا۔ پلیزززززز‘‘
لارا کے منہ سے جذبات سے بھری سسکیاں نکل رہی تھیں، اُس کی نیم خوابی آنکھوں میں دعوتِ ہوس نمایاں تھی۔ وہ جذبات سے مغلوب ہوکر سرتاج کاسارا رس اپنے اندر جذب کرنے کے لئے بے قرار لگ رہی تھی۔ اور سرتاج کا جسم لارا کی تپش سے پگل رہا تھا۔ جو کسی بھی وقت اپنے نیم شب خوابی کے لباس سے باہر آنے کے لئے بیتاب ہورہا تھا۔ ۔۔۔ سرتاج کا بیڈروم خوبصورت اور سجھا سجھایا تھا۔ قیمتی فرنیچر سے آراستہ کسی شہزادے کی خواب گاہ سے کم نہیں تھا ۔۔۔۔ سارا کمرہ معطر لگ رہا تھا جیسے ابھی ابھی یہاں کوئی نئی نویلی دلہن خوشبو بکھیرکر نکل گئی ہو۔ ۔۔ کمرے میں ابھی بھی لارا کی سرگوشیاں ابھر رہی تھیں اور سرتاج بڑی مشکل سے اپنے ۵۵ سالہ جسم کو سنبھالے سے بھی نہیں سنبھال پا رہا تھا ۔۔۔
سرتاج اعلیٰ تعلیم یافتہ تھا۔ اچھی نوکری ملنے کے ساتھ ہی شاذیہ جیسی خوبصورت اور خوب سیرت شریکِ حیات ملی تھی۔ پھر جب گھر میں عامر اور آسی کی گلکاریاں گونج اُٹھی، تو اس کی دنیا جیسے مکمل ہوگئی۔ اس کی خوشحال زندگی پر سارے یار دوست اور اقرباء رشک کرتے تھے۔ کچھ لوگوں کے نصیب میں خوشیوں کی مدت بہت مختصر ہوتی ہے ، اور ان کی زندگی میں اچانک خوشیوں کا سورج سیاہ بادلوں کی اوٹ میں چھپ جاتا ہے۔ جبھی توسرتاج کی ساری مسرتیں آفتِ ناگہانی کی شکار ہوگئیں ۔ اس کی دنیا ہی اُجڑ گئی۔ شاذیہ عالمِ جوانی میں ہی اُسے داغِ مفارقت دے گئی۔ جس کی وجہ سے سرتاج کی مضبوط اذدواجی زندگی تار تارہو گئی۔ لیکن معصوم بچوں کا مستقبل اس کے سامنے منہ کھولے کھڑا تھا۔ اس نے اپنی زندگی کی ساری خوشیاں اپنے بچوں کی پرورش اور ان کی تعلیم پر نچھاور کردی۔ بچے بھی بڑے ہوشیار اور ہونہار نکلے۔ وہ اچھے نمبرات سے پاس ہوتے گئے۔ اور مذید پڑھائی کے لئے بیرونِ ملک چلے گئے۔اس کو اب ان کی زیادہ ہی فکر لگی رہتی تھی۔ روز فون کرنا، ان کی خیریت پوچھنا، پڑھائی کے بارے میں معلوم کرنا اور نصیحتیں دینا اس کے معمول میں شامل تھا ۔۔۔ عامر اور آسی اب اتنے بڑے ہوگئے تھے کہ زندگی کے سب سے بڑے فیصلے بھی اب وہ خود ہی کرنے لگے تھے۔۔۔ عامر نے ایک یوکرین لڑکی سے شادی کرلی اور وہیں کا ہوکررہ گیا۔ آسی دہلی کے ایک لڑکے کی دیوانی ہوگئی اور اس کے ساتھ شادی کرکے دہلی چلی گئی۔۔۔ سرتاج اکیلے پن کا اسیر ہوکر رہ گیا۔ یہ اکیلے پن کا سمندر دن بدن اپنا دامن پھیلاتا جا رہا تھا اور سرتاج اس میں ڈوبتا چلا جا رہا تھا۔ پہلے پہل بچوںکے فون کال ہفتے میں ایک بار آجاتے تھے ۔ پھر مہینوں کے بعد آنے لگے اور اب کھبی کھبار ۔۔۔۔ پھر ایسا ہوا کہ ایک دن عامر یوکرین سے بھاگ ہی آیا اور ریشین بیوی کو چھوڑ کر ایک ہندوستانی منسٹر کی بیٹی نرملا سے شادی کرلی۔ عامر اور نرملا دونوں ڈاکٹر تھے اور دہلی میں جاب حاصل کرنے میں کوئی دقت پیش نہیں آئی تھی۔ اب عامر اور آسی ایک ہی شہر میں رہ رہے تھے اور دونوں بھائی بہن اکثر ملتے رہتے تھے۔ اس دوران سرتاج پر کیا بیتی یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔ وہ اکیلا تنہائیوں کے گہرے سمندر میں ڈوبتا چلا گیا اور اس کی اپنی دنیا بہت محدود اور تنگ ہوکر رہ گئی تھی۔۔۔
انسان کی زندگی کتنی بھی محدود اور مسدود ہوکر رہ جائے لیکن وہ وہاں بھی اپنے جینے کے کچھ نہ کچھ ذرایع نکا ل ہی لیتا ہے۔ اور اپنی تنہائیوں کو خوش رنگ اور خوش ذائقہ بنانے کے جتن کر ہی لیتا ہے۔ ۔۔۔ ہر زمانے میں پھیکی پھیکی ، بد مزا اوربے رنگ زندگی میں خوشنما رنگ بھرنے کے مختلف طریقے رائج رہے ہیں۔ اور آج کے دور میں بھی ایسے مختلف اور منفرد رنگ موجود ہیں جو لوگوں کی دلچسپی کا سامان بنے ہوئے ہیں۔ کچھ لوگوں کے لئے کتابیںتو کچھ کے لئے کمپیوٹر، کوئی انٹرنیٹ کا شیدائی توکسی کے لئے وٹس ایپ ضروری ۔۔۔ فیس بک تو سب سے زیادہ لوگوں کا مشغلہ ہے اور انٹرٹینمنٹ کا دلکش ذریعہ بھی۔ ۔۔
سرتاج کا پچپن سالہ سفر یوں تو اسے بہت زیادہ لمبا لگ رہا تھا۔ لیکن وقت کے تیز اور کرخت تھپیڑوں کا کوئی بھی نشان اس کے چہرے پر نظر نہیں آرہا تھا۔ وہ آج بھی حسین اور خوبرو جوان دکھ رہا تھا۔ اگر چہ اس کے گھنگرالے بالوں میں کہیں کہیں سفیدی بھی جھلکنے لگی تھی لیکن وہ اس کی سنجیدہ شخصیت میں اور زیادہ نکھار پیدا کر رہے تھے۔ وہ آج بھی کئی دلوں کی دھڑکن بن سکتا تھا۔ لیکن اکیلے پن نے اس کو کبھی بھی ان چیزوں کے بارے میں سوچنے کا موقعہ ہی نہیں دیا تھا۔۔۔اب اس کی بے آب وگیاہ زندگی اور تنہائیوں کے صحرائے لق و دق میں فیس بک بہار بن کر آگیا تھا ۔۔۔ وہ رات گئے تک فیس بک استعمال کرنے لگا۔ ۔۔ خوبصورتی کا دلدادہ تو وہ پہلے سے ہی تھا۔ اس کے پوسٹس بھی بڑے خوبصورت اور دلکش ہوتے تھے۔ وہ لکھتا خوب تھا۔ دن بدن اس کے دوستوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی۔ اور یوں ایک دن وہ فیس بک پر ہر دل عزیز شخصیت بن گیا تھا۔۔۔۔ یہاں ملک ملک، شہر شہر اور آ س پڑوس سے سینکڑوں لوگ اس کے دوست بن رہے تھے۔ جن میں سبھی مردو زن، چھوٹے بڑے، کالے گورے اور مختلف فکرونظر کے لوگ شامل تھے ۔ ۔۔۔۔ ایک کم گو، تنہا اور سماج سے الگ تھلگ رہنے والے انسان کے لئے اپنے خیالات ، احساسات اور جذبات کو منتقل کرنے کا یہ ایک اچھا ذریعہ مل گیا تھا ۔ ۔۔۔ سرتاج کو بھی اپنے دل کی چاہت کے اظہار کا کئی بار موقعہ ملا لیکن وہ اقرارِ محبت سے سے بہت گھبراتا تھا ۔۔۔ پھر ایک دن اس کی زندگی میں لارا آگئی۔ جس نے سرتاج کے دل کے سارے انجر پنجر کھول کے رکھ دیئے اور ذہن کے دریچے وا کردیئے۔ لارا براذیل کی رہنے والی تھی۔ وہ وہاں کے ایک مشہور اخبار کی کارسپانڈنٹ تھی۔ دونوں ایک دوسرے کی تحریوں میں دلچسپی لینے لگے اور لارا کے توسُل سے سرتاج کے کئی مضامیں بیرونِ ملک کے اخبارات میں بھی شایع ہونے لگے تھے ۔ ۔۔ تحریروں کی دلچسپیاں تصویروں پر آکر ٹھہر گئیں۔ ۔۔ پھر آنکھوں ، ہونٹوںاورزلفوں کی گرہ گیر کی باتیں ہونے لگی، ایک دوسرے کے پیار میں کھو جانے کے رومان انگیز عہدوقرار، رسیلی صبح اور رنگینی شام کی شبنمی قطروں پر خراما خراما چہل قدمی کی چاہت اور نیلے آکاش میں بادلوں کے سنگ تیرنے کے سپنے ۔۔۔ پھر کچھ عہدو پیماں، قرابت اور قربت کے مزے ، نہ بچھڑجانے کی یقین دہانیاں اور ایک ساتھ جینے اور مرنے کی قسمیں ۔۔۔۔۔ اس سب کے باوجود سرتاج کو ایک انجانا سا ڈر اور غیر یقینی سا خوف پریشان کئے ہوئے تھا جو لارا نے بھی کئی بار محسوس کیا اور وہ برابر بولتی جا رہی تھی۔
’’ سرتاج میں جانتی ہوں تم بھی میری طرح ہی مجھ سے پیار کرنا چاہتے ہو۔ لیکن تم خوف ذدہ ہو۔ یہ خوف تم سبھی مشرقیوں کی فطرت میں رچا بسا ہے۔ تم سے پیار کرتے کرتے میں تم لوگوں کی نفسیات بھی پڑھتی رہی ہوں ۔ دینا بھر میں تم لوگوں پر ہزاروں کتابیں لکھی گئی ہیں اور مجھے اس میں جو بات سب سے زیادہ پسند آئی ہے وہ یہ کہ تم لوگوں میں پیار محبت کا جذبہ باقی دنیا کے لوگوں سے بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ پیار کو اپنے منطقی انجام تک لے جانے کی چاہ تم لوگوں میں بہت زیادہ ہے۔ لیکن تم کو محبت کی ڈگر پر لانے کے لئے بہت سارے جتن کرنے پڑتے ہیں۔ کیوں کہ تم ڈرپوک ہو ۔۔۔ ہمیشہ خوف ذدہ رہتے ہو۔ ‘‘
گھر میں ایک ہنگامہ شروع ہو گیا تھا۔ آسی اور عامر نے تو آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا۔ ۔۔۔ اور سرتاج ایک بڑے گنہگار کی طرح اپنے ہی بچوں کے سامنے کھڑاتھا۔ اس کی زبان گنگ ہو چکی تھی۔ وہ ندامت سے آب آب ہو رہا تھا۔ اس کے بچوںکی آنکھوں میں خون اُتر آیا تھا۔ اور ان کے منہ سے باپ کے خلاف بہت سارا اناپ شناپ نکل رہا تھا۔ ۔۔۔
ــ ’’ پاپا کچھ تو شرم کرو ‘‘ آسی نے دانتوں تلے انگلیاں دبا کر کہا۔۔
دہلی میں بہت زیادہ گرمی پڑنے کی وجہ سے دونوں بہن بھائی اپنی اپنی فیملیز کے ساتھ کشمیر آگئے تھے۔کشمیر گھومنے کے بہانے اپنے باپ سے بھی ملنے آگئے تھے۔۔۔ اب واپس جانے کی تیاریاں ہورہی تھیں۔ ۔۔۔ صبح کسی کا م کے سلسلے میں آسی نے کمپیوٹر کھولاتو سامنے سرتاج کا فیس بک پیج کھلا پڑا تھا۔۔۔ سرتاج رات میں فیس بک لاگ آوٹ کرنا بھول گیا تھا۔۔۔ مسیج بکس پر کئی سرخ سرخ نمبر جگمگا رہے تھے۔۔۔ انسانی فطرت کا تقاضا ہے ۔ سامنے کوئی انہونی بات ہوتو اسے جاننا ناگزیر بن جاتا ہے۔چاہئے وہ بات لاکھ گرہ باندھ کر بھی کیوں نہ رکھی گئی ہو۔ ۔۔ آسی کو بھی اپنے باپ کے پوشیدہ پیغامات( سکرٹ مسیجز) کھولنے کا بہت ذیادہ من کر رہا تھا۔ پروہ اپنی اس بے ہودہ خواہش کو دبانے کی لاکھ کوشش کر رہی تھی لیکن خواہش تھی کہ بار بار اُبھر کر سامنے آرہی تھی اورضد بن کر اس کے ذہن ودل میںتلاطم بپا کر رہی تھی۔ آخر نہ چاہتے ہوئے بھی اُس نے اِن بکس پر کلک کر ہی دیا۔سامنے کئی لوگوں کے پیغامات پڑے تھے۔ جس میں اس کے چند پوسٹس کی تعریفیں، کچھ خیروخبر کی باتیں، کچھ لڑکیوں کی تصاویر اور پیار محبت کی باتیں۔ لیکن جب آسی نے لارکا مسیج بکس کھولا تو وہ اسے کھولتی چلی گئی۔ اپنے باب اور لارا کے بیچ ہورہے مقالمے اُس کوایک سیدھ بیٹھنے نہیں دے رہے تھے۔ وہ پہلو پر پہلو بدلتی جا رہی تھی۔ جوں جوں سطریں کھلتی جا رہی تھیں، اس کے اندر خون کا پارہ بھی بڑھتا جا رہا تھا۔ اس کا چہرا لال بھبوکا ہو رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ اب یا جب اس کی کوئی نس پھٹ جائے گی۔ اس نے جلدی سے کمپیوٹر بند کردیا اور پیر پٹک کر باہر نکل گئی ۔۔۔
بات جہاں سے شروع ہوگئی تھی وہیں پر دب گئی تھی۔ ۔۔ سبھی لو گ ا ٓئیرپورٹ پر کھڑے تھے۔ سرتاج خود ہی ان کو آئیرپورٹ تک اپنی گاڈی میں لے کر آیا تھا۔ سامان کی جھانچ پڑتال کے بعد سرتاج نے سب سے اجازت لی ۔ داماد اوربہوکو پیار کرنے کے بعد وہ اپنے بچوں کی طرف مڑا تو ایک قدم اٹھانے کے بعد ہی جیسے اس کے پیر زمین میں دھنس چکے تھے۔ وہ لاکھ کوشش کے بعد بھی ان کی طرف دوسرا قدم نہ بڑھا سکا۔ اس نے نگاہ اُٹھا کر اپنے بچوں کی طرف دیکھنا چاہا لیکن ایک سکنڈ کے ہزارویں حصے میںشرمندگی کے منو من احساس تلے اس کی نظریں لوٹ کے آگئیں اور سامنے سنگلاخ زمیں میں گڈھ گئیں ۔۔۔ وہ ایک دم پیچھے مڑگیا اور تیزی کے ساتھ باہر آگیا ۔۔۔
’’ پاپا ۔۔ !!! ‘‘ آسی کی آواز نے سرتاج کے پیروں میں زنجیر ڈال دی۔ وہ رک گیا ۔ پیچھے کی طرف مڑا۔ آسی بڑی تیزی کے ساتھ اس کی طرف بڑھ رہی تھی۔ سرتاج کے سینے سے لگ کر وہ زار زار رو رہی تھی۔
’’ پا پا ۔۔۔ پاپا مجھے معاف کرو ۔۔۔ مجھے معاف کرو‘‘ سرتاج نے اپنی نرم انگلیوں سے آسی کے آنسوں صاف کردیئے، سامنے احساسِ ندامت کے بوجھ تلے دباء عامرکھڑا تھا۔ سرتاج نے مسکرا کر اس کی طرف اپنے بازو کھول دیئے۔ وہ بھی دوڑکر آیا اور اپنے باپ کے سینے سے لگ کر دیر تک معافی مانگتا رہا تھا ۔ ۔۔۔
آج سرتاج رات گئے تک فیس بک پر جما رہا۔۔۔ لارا سے ڈھیر ساری باتیں بھی ہوگئیں۔ وہ کئی بار جذبات کے سمندر میں ہچکولے کھاتا رہا۔ کئی بار گہرے بھنور میں ڈوبتا اور ابھرتا رہا ۔۔۔ کمرہ معطر تھا اور لارا کی سسکاریاں صبح تک کمرے میں گھونج رہی تھی۔۔۔ لیکن اب کی بار وہ کمپیوٹر بند کرنے سے پہلے ساری مسیجز ڈیلیٹ کرنا نہیں بھولا تھا ۔۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں